پاکستان کے دشمنوں کی ہر ممکن کوشش ہے کہ یہ ملک کسی صورت مضبوط و مستحکم نہ ہوسکے تاکہ یہ ان کے سامنے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے طور پر پورے قد سے ڈٹ کر کھڑا ہونے کے بجائے ان کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر مجبور رہے اور ان کے زیردست اور تابع مہمل کی حیثیت سے زندہ رہے۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر یہ دشمن جہاں پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے حربوں کے ذریعے اس کی جغرافیائی اور معاشی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں وہیں اس کی اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے بھی اپنا پورا زور صرف کرتے ہیں، اور یہاں عریانی، فحاشی، بدمعاشی اور بدعنوانی کے فروغ کی سرپرستی کرتے اور معاشرے کے مختلف طبقات کو باہم دست و گریباں کرنے کے لیے لسانی، جغرافیائی، علاقائی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ابھارنے کے لیے بے پناہ وسائل بھی صرف کرتے ہیں تاکہ یہاں کے معاشرتی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جا سکے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ملک میں ایسی تنظیمیں اور جماعتیں بھی موجود ہیں جو قوم کے اتحاد و یکجہتی کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں اور اس ضمن میں دشمن کی منفی سرگرمیوں کے مقابلے میں مثبت اور تعمیری پروگرام کو آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ جماعت اسلامی معاشرے میں خیر اور تعمیر کی عَلم بردار ان قوتوں میں نمایاں ترین نام ہے جو نہ صرف یہ کہ ٹھوس جمہوری بنیادوں پر استوار ہے بلکہ یہ ہر طرح کے علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بھی مکمل طور پر پاک ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی جب ملک میں اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی کے لیے کوئی آواز بلند کرتی ہے تو اس کا وزن محسوس کیا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کا مرکز منصورہ بھی اس لحاظ سے انفرادیت کا حامل ہے کہ یہاں جس بھی طبقے کے نمائندوں اور رہنماؤں کو مدعو کیا جاتا ہے، وہ کسی ہچکچاہٹ اور تحفظات کے بغیر کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ اتوار 20 نومبر کو بھی منصورہ میں ایک روح پرور منظر تھا کہ یہاں پاکستان ہی نہیں بھارت کے بھی مشہور مزارات کے گدی نشین حضرات، مشائخ عظام اور علماء کرام خاصی بڑی تعداد میں جمع تھے۔ یہ سب جماعت اسلامی کے زیراہتمام منعقدہ ’’علماء و مشائخ کانفرنس‘‘ میں شریک تھے جس کی صدارت جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کی، جب کہ میزبانی کے فرائض قیم جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے انجام دیئے۔ کانفرنس میں شریک محراب و منبر کے وارثین ان حضرات میں خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، دیوان احمد مسعود، دیوان عظمت سید محمد، خواجہ فرید الدین فخری اورنگ آباد انڈیا، سید طاہر نظامی دہلی انڈیا، صاحبزادہ سلطان احمد علی، خواجہ نور محمد سہو، خواجہ نصرالمحمود، مخدوم زین محمود قریشی، خواجہ اسرارالحق چشتی، پیر محمود الدین، پیر غلام رسول اویسی، چیئرمین غلام محمد سیالوی، الحاج مقصود احمد چشتی، سید محمد بلال چشتی خواجہ نشین اجمیر شریف انڈیا، اور عثمان نوری نمایاں تھے۔ کانفرنس کے شرکاء نے اپنے فقہی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی و فلاحی مملکت بنانے اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لیے تحریکِ پاکستان کے جذبے کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ کرپشن، سودی نظام اور فحاشی و عریانی کے سدباب کے لیے خانقاہیں قائدانہ کردار ادا کریں گی۔ جماعت اسلامی کسی خاص مسلک کی نہیں، مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کی نمائندہ جماعت ہے، اس لیے مشائخ اور علماء بخوشی جماعت اسلامی کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔
کانفرنس کے صدر سینیٹر سراج الحق نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس اور خانقاہیں بہت بڑی طاقت ہیں، خانقاہوں کا تحریکِ پاکستان میں بڑا مؤثر کردار ہے، اور اگر صوفیائے کرام قائداعظم ؒ کا ساتھ نہ دیتے تو شاید قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔ لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بننے والے پاکستان پر 70سال سے اُن لوگوں کا قبضہ ہے جنہوں نے تحریکِ پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے انگریز کا ساتھ دیا اور پھر ملک کے اقتدار پر قابض ہوکر نظریۂ پاکستان سے بے وفائی کی۔ منصورہ میں جمع ہونے والے مشائخ نے ملک سے شخصی آمریتوں اور خاندانی بادشاہتوں کے خاتمے اور ملک میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لیے جماعت اسلامی کے پروگرام کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ساتھ دینے کا عہد کیا ہے۔ علماء و مشائخ نے پاکستانی قوم کو علاقائی، لسانی اور مسلکی اختلافات سے نکال کر باہمی اتحاد و یکجہتی کے فروغ اور مسلمانوں کے اندر محبت و اخوت اور بھائی چارے کے فروغ کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ہمارا دشمن ہمیں باہمی انتشار کا شکار کرکے کمزور کررہا ہے اور پاکستان سمیت اسلامی دنیا کو عراق، شام اور افغانستان کی طرح تباہی سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ کشمیر، فلسطین اور اراکان جیسے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام متحد ہو۔
سینیٹر سراج الحق نے مزید کہا کہ نظریاتی، اخلاقی اور مالی کرپشن کا ذمہ دار حکمران ٹولہ ہے جس نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، اس استحصالی طبقے کے خلاف منبر و محراب اور خانقاہوں سے آواز اٹھانے پر علماء و مشائخ کانفرنس کے تمام شرکاء نے اتفاق کیا ہے۔ ہم کرپشن میں ملوث ہر لٹیرے کا احتساب چاہتے ہیں، پانامہ لیکس سمیت کرپشن اسکینڈلز میں ملوث سب کا محاسبہ ضروری ہے۔
nn