کنٹرول لائن پر بھارت کی اشتعال انگیزی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ محض سرحدی چھیڑ چھاڑ نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ بھارت پاکستان کو اکسا کر کوئی بڑی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے۔ اس کا ایک مقصد تویہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ظلم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے‘ اس کی طرف سے توجہ ہٹائی جائے۔ لیکن کیا اس طرح یہ ممکن ہے؟ کشمیر میں بھارت سے نجات کی جو تحریک برپا ہے اس کا الزام بھارت پاکستان پر عائد کرتا ہے حالانکہ دنیا میں کوئی بھی تحریک بیرونی امداد کے ذریعے اتنے طویل عرصے تک نہیں چل سکتی۔ جب کہ کشمیر میں عوام کا احتجاج تو ڈوگرہ حکمران کے دور ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ کشمیریوں کو انتخاب کا حق دیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت سے الحاق چاہتے ہیں۔ کشمیریوں نے ایک عرصے تک انتظار کیا کہ بھارتی حکومت انہیں استصواب رائے کا حق دے گی۔ خود پنڈت نہرو نے یہ حق دینے کا وعدہ کیا اور ان کی یہ تقریر ریکارڈ پر ہے کہ ہمیں معلوم ہے کشمیریوں کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن ہم انہیں یہ حق دیں گے۔ پنڈت جی آخری وقت تک کشمیریوں کو جھانسہ دیتے رہے اور بعد مین ان کی بیٹی اندراگاندھی نے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا کہ پتا جی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر کیوں گئے تھے۔ 1989 ء تک کشمیریوں نے اپنے حق کے لیے پُرامن جدوجہد کی لیکن جب یہ یقین ہوگیا کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے والا نہیں تو اس پُرامن قوم نے ہتھیار اٹھالیے۔ تب سے اب تک لاکھوں کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں‘ متعدد لاپتا ہیں۔ نوجوان کشمیری وانی کی شہادت کے بعد جو آگ بھڑکی ہے وہ تمام جبر و ستم کے باوجود بھارتی فوج کے قابو میں نہیں آرہی۔ روزانہ شہادتیں ہورہی ہیں اور متعدد نوجوان بینائی سے محروم کردیے گئے ہیں۔ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنانے کے لیے بھارت نے ساڑھے سات لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔
اب بھارت نے پاکستان پر حملے شروع کردیے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی فوج کی فائرنگ سے پاکستان کے 7 فوجی شہید ہوئے اور یہ ایسا نقصان ہے جس کا جواب دیا جانا چاہیے اور جواب دیا بھی گیا۔ پاک فوج کے مطابق اسی دن بھارت کے 11 فوجی مار دیے گئے اور اب تک بھارت کے 40 فوجی ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ لیکن بھارت نے اپنے نقصانات کو خود اپنے عوام سے بھی چھپائے رکھا۔ اس کے باوجود بدھ 23نومبر کو بزدل دشمن نے ایک بار پھر کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے ایک کپتان سمیت پاکستان کے تین جوانوں کو شہید کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وادئ نیلم میں ایک مسافر بس پر بھی فائرنگ کی جس سے 9 مسافر جاں بحق ہوگئے اور جب ایمبولینسیں وہاں پہنچیں تو ان پر بھی فائرنگ کی گئی۔ یہ بزدلی کی انتہا ہے۔ دوران جنگ بھی مسافر بسوں اور ایمبولنسوں پر حملے نہیں کیے جاتے۔ یہ کام بزدل اور مکار دشمن ہی کرسکتا ہے جسے انسانی حقوق اور انسانیت کا کوئی پاس نہ ہو۔ بھارتی حکومت سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ نریندر مودی عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے آگ بھڑکارہے ہیں۔ لیکن یہ آگ بھارت کے دامن کو بھی جلا کر رکھ دے گی۔ پاک فوج کے مطابق 23نومبر کو جوابی کارروائی میں بھارت کے بھی 7 فوجی ہلاک کردیے گئے۔ 3 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف تو بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھی کرلیا ہے۔ اس میں تو کسی کو بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ تصادم بڑھا تو نقصان دونوں طرف ہوگا۔ نریندر مودی جنگی جنون میں مبتلا ہوکر نہتے شہریوں پر بھی حملے کروارہے ہیں۔ مسافر بس میں شہید ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ بھارت ہر طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ چین پاک اقتصادی منصوبے سے بھی خوف زدہ ہے اور کھل کر اس کے خلاف بیان دے چکا ہے۔ لیکن اس سے تو اپنی ریاستیں نہیں سنبھل رہیں جن میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ نریندر مودی کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے تمام عوام اپنی فوج کے پیچھے کھڑے ہیں ہر ایک جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔ لیکن بھارت میں یہ منظرنظر نہیں آئے گا۔ پاکستان ایک طرف تو بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے دوسری طرف موثر سفارتکاری کے ذریعے بھارتی جارحیت سے دنیا کو آگاہ کرے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارتی سفارتکاری زیادہ موثر ہے اور وہ سیاہ کو سفید کردکھانے میں کامیاب رہا ہے۔ لیکن کیا کشمیر میں کھلے بندوں جو کچھ ہورہا ہے اس پر دنیا کی آنکھیں بند ہیں؟
اہم سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ پاک فوج اپنے جوانوں کا نقصان خاموشی سے برداشت نہیں کرے گی۔ اب یہ کھیل بھی بہت ہوگیا کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ اور جانی و مالی نقصان پر بھارت کے ہائی کمشنر یا ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے چائے پلائی جائے او رایک رسمی سا احتجاجی مراسلہ حوالے کردیا جائے۔ جنونیوں پر ایسے احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اب تک ہوا بھی نہیں۔ الٹا یہ ہوا کہ جب بھارت نے اپنے تین فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے تو اس کے ساتھ پاکستانی سفارتکار کو طلب کرکے الٹا ایک احتجاجی مراسلہ تھمادیا گیاہے گویا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ سرحدوں پر اشتعال انگیزی کے ساتھ بھارت سمندری حدود کی خلاف ورزی کا جواب بھی دے ۔ گزشتہ دنوں اس نے اپنی ایٹمی آبدوز پاکستانی سمندری حدود میں داخل کردی تھی جس کا بروقت پتاچلا کر اسے کھدیڑدیا گیا۔ یہ اقدام بلاوجہ نہیں تھا۔ یہ وہ موقع تھاجب سی پیک کے ذریعے چین کا کارگو گوادر کی بندرگاہ پہنچا تھا اور اسے سمندر کے ذریعے آگے بھیجا جارہا تھا۔ یہ ایک طرح سے جہاز کو سمندر میں نقصان پہنچانے یا کم از کم خوفزدہ کرنے کی دھمکی تھی۔ اسی کے ساتھ پاکستان کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور بھارتی ڈرون طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوگیا جسے گرالیا گیا۔ ان دونوں واقعات پر بھارت نے چپ سادھ لی۔
اسی اثنا میں بھارت نے زمین سے زمین پر وار کرنے والے اگنی ون بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرکے دعویٰ کیا ہے کہ یہ میزائل 700 میٹرتک مار کرسکتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے پاکستان کو دھمکی ہے۔ لیکن جواب میں پاکستان نے شاہین III میزائل کا تجربہ کرکے اعلان کیا ہے کہ یہ میزائل بھارتی دارالحکومت کو صرف تین منٹ میں تباہ کردے گا۔یہ آواز سے 18 گنا تیز ہے اور اس کی رفتار 22 ہزار 226 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے اور 2750 کلو میٹر تک مار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس خطے میں اسلحہ کی دوڑ تشویشناک تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذمے دار بھارت ہے۔ بھارت نے پہلے ایٹمی تجربات کرکے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ کیونکہ اس میں تو کسی کو شک نہیں کہ بھارت کی جنگی تیاریاں صرف اور صرف پاکستان کے خلاف ہیں۔ چین سے لڑنے کا اس میں دم نہیں اور اس کے دیگر پڑوسی بہت کمزور ہیں جب کہ پاکستان سے بھارت کی تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور اگر بھارتی جنون نے جنگ چھیڑی تو دونوں ہی تباہ ہوں گے۔