پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سانگلہ ہل انٹر چینج کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بڑے دبنگ انداز میں ایک مرتبہ پھر فرما یا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 2018 ء میں ختم ہو جائے گی۔ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں اس حد تک دعویٰ کر ڈالا کہ لوڈ شیڈنگ کو 2018 ء میں دفن کر دیاجائے گا، جب کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کی بھی نوید سنائی۔ وزیر اعظم اپنے بیانات اور خطابات میں اپنی حکومت کی کام یابیوں کا ذکر کرتے چلے آرہے ہیں۔ بلاشبہ، ملک میں بجلی گھروں کی تعمیر و تکمیل کے لیے تیز رفتار اقدامات اطمینا ن بخش ہیں۔ پھراس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی بجلی کے شدید بحران پر قا بو پانے کے لیے کئی منصوبے شرو ع کیے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ حکومت کی جانب سے اس مسئلے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا چرچا دنیا بھر میں کیا جا رہا ہے، لیکن دوسری طرف ان حکومتی دعووں کے باوجود عوام کے ذہنوں میں کئی شکو ک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ان کا سوچنا بھی بجا ہے کہ کیا واقعی 2018 تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا یا پھر ماضی کی حکومتوں کی طرح موجود ہ حکومت بھی عوام کو سستی اور میٹھی گولیاں دینے میں مصرو ف ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مزید سوچ میں پڑیں، عوام کی اس ناامیدی کا جائزہ لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا ہوئیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے اس دعوے ہی کو لے لیجیے، جس میں انہوں نے باقا عدہ حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کر دی جائے۔ جیسے ہی انہوں نے حکم دیا، کے الیکٹرک نے حکم کو ہوا میں اڑا کر رکھ دیا، ساتھ ہی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ کراچی کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ عوام کو کسی ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویہ کے استعمال کی طرح دن میں تین وقت سات سے آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا پڑرہی ہے۔ اس کے علاوہ فنی خرابی، ٹرانسمیشن لائنوں کی تبدیلی اور ٹرانسفارمر میں ٹیکنکل وجوہ کے نام پرعوام النّاس کو مسلسل اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اگر رات کے وقت شہر کراچی کی سڑکوں کا دورہ کیاجائے تو آسانی سے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کراچی میں میلوں تک اندھیروں کا راج ہے۔ کے الیکٹرک افسران کی بنائی ناکام پالیسیوں سے پرانے زمانے کے ایک ایسے گاؤں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جب دور سے لا ل ٹینوں کی روشنی دیکھ کر ماضی میں رہا ئشی آبادیوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ بے ضمیر اور بے حس کے الیکٹرک انتظامیہ ہر آنے والے دن کے ساتھ عوام کو پتھروں کے زمانے میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ معمول سے بڑھتی لوڈشیڈنگ صاف بتا رہی ہے کہ کے الیکٹر ک کے افسران کسی ادارے کے ماتحت نہیں، انہوں نے وزیر اعظم کے حکم پر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کرکے بتا دیا ہے کہ کے الیکٹر ک ایک ایسا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے، جو کسی کے قابو میں نہیں۔ ادارے کی جانب سے کراچی کے عوام پر مسلط افسران کا پیغام ظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے دی جانے والی ہدایت کی جگہ ردّی کی ٹوکر ی ہے۔ اس طرح، حکومتی اعلانات کو کے الیکٹرک نے ہوا میں اڑا کر رکھ دیا شاید وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اعلان کر دینے سے عمل کا تعلق نہیں ہوتا۔ سیاسی رہنما اس قسم کے اعلانات ہر روز کرتے رہتے ہیں، اس لیے کے الیکٹر ک کے افسران نے یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی یا پھر ان کو اس بات کا پورا علم ہے کہ نصف لوڈ شیڈنگ کی ہدایات کسی اور کے لیے ہے، کے الیکٹرک کے لیے نہیں۔ جو بھی ہو، اس ساری صورت حال میں کراچی کی عوام کو دوہری مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بجلی پوری ملتی نہیں، جب کہ گھریلو صارفین پر ہزار ہزار یونٹ کے بل بنادیے جاتے ہیں، دس سے بارہ گھنٹے بجلی کی بندش، اس پر ہزاروں روپے ماہانہ کا بل۔۔۔اس ساری صورت حال نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کررکھ دیا ہے۔ جس ادار ے کی اتنی ہمّت ہو کہ وہ وزیراعظم کے احکامات کاجواب بدترین لوڈشیڈنگ کرکے دے، غریب عوام کے ساتھ اس محکمے کے سلوک کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اگر طائرانہ نگاہوں سے کے الیکٹر ک کی ناانصافیوں کا جائزہ لیا جائے تو باآسانی اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ کراچی سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ناممکن ہے۔ اس منہ زور ادارے کے افسران ایک ایسا مافیا بن چکے ہیں، جن کے چنگل سے چھٹکارہ حاصل کرنا کراچی کے عوام کے بس کی بات نہیں۔ کے الیکٹرک کی من مانیوں کی شکایت کس در پہ کی جائے؟ عوام اپنا جائز مسئلہ لے کر کس سے فریاد کریں،کوئی ایسی جگہ نہیں، جہاں کراچی کے پسے ہوئے عوام کی شنوائی ہوسکے۔ یوں کے الیکٹرک نے وزیر اعظم پاکستان کو نصف لوڈشیڈنگ کا بھرپورجواب دے دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2018لو ڈ شیڈنگ کو قبر میں اتارے گا یا نہیں وہ کون سا قبرستا ن ہوگا، جہاں وزیراعظم کے دعوے کے مطابق لوڈشیڈنگ کو دفن کیاجائے گا۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے بجلی کی کمی پر جو اقدامات اٹھائے ہیں، وہ عوامی سہولت کے لیے ہیں یا پھر ماضی کی طرح کاروباری طبقات کے فائدے کے لیے۔۔۔اس سلسلے میں چند گزارشات تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار توانائی کا شعبہ ہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ المیہ رہا ہے کہ سستی بجلی پیدا کر نے کے قدرتی وسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، تربیلا ڈیم کے بعد جتنے بھی بجلی کے منصوبے بنے، جن سے سستی بجلی حاصل کی جاسکتی تھی، وہ سب کے سب محض اعلانات اور کاغذات تک ہی محدود رہے۔ اس سلسلے میں ہماری حکومتوں نے ہمیشہ بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی ما لیاتی اداروں کی امداد ہی کو اوّلیت دی۔ ہماری ان ناکام منصوبہ بندیوں کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کئی ڈیم بنالیے اور ہمارے لیے پانی کا بڑا مألہ کھڑا کردیا ہے۔ اس مألے پر ہماری کسی قسم کی کوئی فریاد دنیا بھر میں نہیں سنی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مستقبل کے لیے ہمارے حکم راں ایسی پالیسیاں بناتے جن کی وجہ سے بجلی کی کمی کو پورا کیاجا تا اور سستی بجلی حاصل کی جاتی، لیکن اس کے برعکس پرائیوٹ اداروں سے مہنگی بجلی خرید کر عوام کو فراہم کی جاتی رہی، پھر عالمی اداروں کے دباؤ میں آکر سبسڈی ختم کی جانے لگی ۔ اب ماضی میں کیے گئے تجربات کی روشنی میں کیا اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کے نئے اداروں سے معاہدے کے بعد عوام کو بجلی ملے گی، اسی طرح ان سرمایہ کاروں کو کیا فائدہ حاصل ہوگا، جو اس کاروبار میں اپنا سر مایہ لگا رہے ہیں ۔
عوام کے ذہنوں میں سوالات کا ابھر نا لازمی ہے۔ عوام کو اس بات کی اچھی طرح خبر ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومتوں نے بجلی کے حصول کے لیے معاہدے کیے، وہ عدالتوں سے منسو خ ہوگئے اور کئی کمپنیاں ملک سے فرار ہوگئیں، جس کے نتیجے میں ملک کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کر نا پڑا۔ بر سر اقتدار آتے ہی موجود ہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں جو اقدامات کیے، وہ قابل تعریف تو ہو سکتے ہیں، لیکن خبروں میں آتی رپورٹوں کو دیکھ کر عوامی سطح پر شکو ک و شبہات کا اظہار تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہا ہے ۔
نیپرا کی رپورٹ خاصی مختلف صورت حال دکھارہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے بہت سے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، یہ رپورٹ این ٹی ڈی سی کے پاور پر وجیکشن ٹرانسفا مر ز اور ٹرانسمیشن لائنوں سے متعلق ہے ۔ نیپرا کے مطابق پاور پلانٹس کو کمر شل آپریشن سے کم سے کم چھ ماہ قبل تیار ہوجانا چاہیے تاکہ آزمائشی طور پر اس کی بلا تعطل فراہمی کا جائزہ لیا جاسکے، لیکن کم ازکم نو بڑی ٹرانسمیشن لائن اور ٹرانسفار مر مشین سسٹم پر و جیکٹس قریباً تین سال سے تاخیر کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ تر سیلی نظام کے نقائص اور لائن لاسز پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے قومی خزانے کو ایک سال میں 17ارب کا نقصا ن ہوچکا ہے۔ ان رپورٹس کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی دعوے کے مطابق 2018 میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیاجائے گا۔ اس طرح نیپرا اور حکومتی بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔
حکومتی اعلانات اور نیپرا کی رپورٹ کو دیکھ کر یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ توانائی کے اداروں نے وزیر اعظم کو بجلی کے منصوبوں سے لاعلم رکھا ہوا ہے جو کہ ایک وضاحت طلب معاملہ ہے۔ اس ساری صورت حال میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک میں وزیر اعظم کے اعلانات کو کس زمرے میں دیکھاجائے؟ وزیر اعظم پاکستان سے اتنی سی درخواست ہے کہ وہ من مانی کرنے والے اس بدعنوان ادارے پر گہری نظر رکھیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ 2018 ء آتے آتے توانا ئی کا یہ ادارہ ماضی کی روایات پر عمل کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کرلے اور آپ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ لوڈ شیڈنگ کو دفن کرنے کے عزائم لائق تحسین ہیں، لیکن اتنی گزارش ہے کہ لوڈشیڈنگ کو سمندر برد کرنے ہی سے اس عذاب سے نجات مل سکتی ہے۔ آپ کو ان کفن چور افسران سے بھی بچنا ہوگا، جو کسی بھی قبر کو کھودنے سے گریز نہیں کر تے۔ ایسے افسران کی وجہ ہی سے آج کراچی سمیت پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔آپ کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے شاید پنجاب کے کچھ حصوں میں تو لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے، لیکن پورے ملک میں اس کے ثمرات ملنا نا ممکن ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے، جب تونائی کے ان اداروں سے کالی بھیڑوں کا صفایا ممکن ہوسکے، اچھی شہرت رکھنے والے افسران کی تعیناتی سے ہی اس مرض کا علاج کیاجا سکتا ہے۔ میں وزیر اعظم پاکستان سے گزار ش کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے دعووں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات بروئے کار لائیں تاکہ عوام کو کے الیکٹرک کے ظلم و ستم سے نجات مل سکے!!