اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کرکے عالم انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ حقیقت میں تم ایک ہی ہو، آپس میں بہن بھائی ہو، تم میں کوئی فرق نہیں، تمہیں ایک ہی مٹی سے پیدا کیا اور تم سب کو اسی مٹی میں لوٹ کر جانا ہے، تم سب کی ساخت ایک جیسی ہے، سب کو ایک جیسے اعضا و جوارح دیے، اسی بنا پر کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں۔ ہاں اگر فضیلت حاصل ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ نسلِ انسانی کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی مساواتِ انسانی ہے، یعنی مساوات کا یہ معیار اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کیا ہے، اب اگر کوئی انسان اس بنیاد اور اصل کے سوا اپنے لیے کوئی دوسری بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کرے گا تو لامحالہ خسارے میں ہوگا۔ تخلیقِ آدمؑ کے موقع پر خالقِ کائنات نے تمام مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدمؑ کو سجدہ کریں، ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ ابلیس کے انکار کی دلیل بھی یہی ’فضیلت‘ تھی کہ میں اس خاکی سے افضل ہوں، میں اسے سجدہ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اس کو یہ فضیلت دینے والی ذات خود اللہ تعالیٰ کی تھی۔ جب اس نے اللہ کی دی ہوئی فضیلت کو اسی کی حکم عدولی کا سبب بنایا تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس سے وہ فضیلت واپس لے لی بلکہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود اور رجیم قرار دے کر اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر پیدا کیا۔ سب آزاد اور دینِ فطرت پر پیدا ہوتے ہیں، ایک جیسے مرحلوں سے گزر سے پرورش پاتے ہیں اور اپنی ساخت وغیرہ کے لحاظ سے بھی کچھ فرق نہیں رکھتے، اس بنیاد پر سب انسان برابر ہوئے۔ یہاں تک تو بات مساوی ہے، لیکن اللہ نے اپنی تقسیم اور مشیت کے مطابق ہر انسان کو مختلف جسمانی اور مالی طاقت عطا کی ہے۔ یہ بھی اللہ ہی کا فضل ہے کہ اس نے کسی کو خاص نعمتوں اور انعامات سے نوازا، لیکن اگر انسان ان نعمتوں اور انعامات کو اپنی کمائی سمجھ کر اترانے لگے تو نہ صرف اللہ کی نافرمانی بلکہ اس کی نعمتوں کے انکار کے مترادف ہے۔ ایسے شخص کے متعلق آپ کیا کہیں گے جو شیطان والا طرزعمل اختیار کرتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی فضیلت کو سبب بناتے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہوجائے۔ اللہ کی ذاتِ باری تو ان چیزوں سے کئی گنا ماوراء ہے، لیکن دنیا میں بھی کوئی کسی پر احسان کرے اور ایک موقع ایسا آئے کہ وہ بندہ احسان کرنے والے کے سامنے کھڑا ہوجائے تو ایسے شخص کو کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا۔ کوئی بھی اس شخص کو اچھا نہ سمجھے گا۔
جب خالقِ کائنات نے انسانوں میں کوئی فرق نہیں رکھا تو انسانوں کو بھی اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ آپس میں کسی امتیازی سلوک اور شان کا مظاہرہ کریں۔ اسلام اسی مساوات کی بنیاد پر امتیازی شان سے منع کرتا ہے۔ یہ مصنوعی امتیازی شان اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ یہ طرزعمل اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب معاشرے کے ’مترفین‘ افراد وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں، اور ان وسائل کے فوائد عوام تک پہنچنے نہیں دیتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کی بھلائی نہیں چاہتے، ان کے لیے نہ تو تعلیم کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی سوچ و فکر کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے دیے ہوئے وسائل پر قابض ہوکر انہیں پھیلنے نہیں دیتے، تمام وسائل اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لوگوں کا حق مارتے ہیں، انہیں ہمیشہ غلام رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی حرکتیں صرف اپنی امتیازی شان کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ ہمیشہ سے ہر معاشرے میں ایسی امتیازی شان والے افراد کی تعداد بہت کم رہی ہے، اور تعداد کی اس کمی کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنے برابر آنے کا موقع فراہم نہیں کرتے، یہاں تک کہ وہ اپنے برابر آنا تو دور کی بات، کسی کو ذرا بھی اوپر یا بہتر حالت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ اسے اس مثال سے سمجھیں کہ کسی فیکٹری یا کاروبار کے مالک یا اوپر کے لوگ اپنے لیے تو ڈھیر ساری مراعات لیتے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں، چھوٹے سے سفر یا کھانے پینے پر کتنے ہی پیسے لٹا دیتے ہیں، لیکن اگر ان سے کسی چھوٹے ملازم کی ترقی یا ضرورت کی تکمیل کے لیے تعاون یا قرض کی بات کی جائے تو ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ اس وقت نہیں ہوسکتا، کمپنی یا کاروبار خسارے میں ہے، خرچے بہت ہیں، بعد میں دیکھیں گے۔۔۔ اور اگر ان کی اپنی شاہ خرچیوں اور کام چوری کی وجہ سے کمپنی یا کاروبار خسارے میں آجائے تو اس کا نزلہ بھی نچلے طبقے کے ملازمین پر گرتا ہے، نچلے گریڈ کے دو چار غریب ملازمین کو فارغ کرکے اوپر اخراجات کم کرنے کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ اس طرح کاروبار کے مالکان تو اپنے نشے میں مست ہوتے ہیں، انہیں کسی مزدور کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ میں جو تنخواہ دے رہا ہوں اس سے اس غریب کا گزارا ہوگا بھی کہ نہیں۔ انہیں یہ فکر اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ سوچتے ہیں یہ سب تو ہم نے خود کمایا ہے، اس میں ان مزدوروں کا کیا حصہ؟ اور اگر انہیں کچھ زیادہ دے دوں تو ان کے حالات بہتر ہوجائیں گے، اور کل یہ میرے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔۔۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(ترجمہ) ’’کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم بوتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اُگا تے ہو یا اُن کے اگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھُس بناکر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو اُلٹی چَٹّی پڑ گئی، بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھُو ٹے ہوئے ہیں۔ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اِسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اِس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھارا بناکر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟ کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اِس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اُس کو یاددہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔‘‘ (الواقعہ 62۔73)
مطلب یہ کہ تمام وسائل خالق نے حاجت مندوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے پیدا کیے ہیں جن پر تم قابض ہوکر بیٹھ گئے ہو۔
یہی صورت حال سرداری اور قبائلی نظام کی خرابیوں کے طور پر بھی نظر آتی ہے کہ وہ بھی اپنی رعایا کو تعلیم حاصل کرنے نہیں دیتے، وہ نہ تو خود روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو روزگار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ سب طرزِعمل جو دنیا کے مختلف حصوں اور مختلف اوقات میں نظر آتے رہے ہیں، اصل میں ایک ہی بنیاد پر قائم ہیں، اور وہ وہی بنیاد ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر لوگ خوشحال ہوگئے تو ان کی امتیازی شان ختم ہوجائے گی، لوگ ان کے آگے پیچھے نہیں رہیں گے، ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے نہیں ہوں گے۔ اور اگر لوگ ایسا نہ کریں تو پھر اِن کی شان کہاں رہ جاتی ہے؟ اس کو دورِ جدید کی ایک اور مثال سے سمجھ لیں۔ رہائشی علاقوں کا اختلاف بھی اسی کی ایک صورت ہے۔ ڈیفنس کی الگ کلاس تو سرجانی کی الگ، نارتھ ناظم آباد کی الگ کلاس تو لانڈھی کی الگ۔۔۔ یہ تقسیم بھی اسی بنیاد پر ہے کہ لوگوں کی امتیازی شان برقرار رہے۔ کسی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ بھی ممکن نہیں۔۔۔ تو کوئی لینڈ کروزر پر، کوئی مرسڈیز پر، کوئی جہاز میں۔۔۔ حتیٰ کہ موبائل کے دن بہ دن نئے ماڈل بھی اسی کی ایک مثال ہیں۔ یہ سب کام حقیقت میں ’مترفین‘ کی امتیازی شان کو برقرار رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو قرآن مجید نے ’مترفین‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ مترفین اللہ اور آخرت کا انکار کربیٹھیں گے۔ انہی مترفین کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’اور بائیں بازو والے۔۔۔ بائیں بازو والوں کی بدنصیبی کا کیا پوچھنا۔ وہ لُو کی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھوئیں کے سائے میں ہوں گے جو نہ ٹھنڈا ہوگا نہ آرام دہ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس انجام کو پہنچنے سے پہلے خوشحال تھے اور گناہِ عظیم پر اصرار کرتے تھے۔ کہتے تھے’’کیا جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو پھر اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟ اور کیا ہمارے وہ باپ دادا بھی اٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں؟‘‘ اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہو، یقیناًاگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقررکیا جا چکا ہے۔ پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو، تم شجرِ زَقّوم کی غذا کھانے والے ہو۔ اُسی سے تم پیٹ بھرو گے اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تَونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیوگے۔ یہ ہے بائیں والوں کی ضیافت کا سامان روزِ جزا میں۔‘‘ (الواقعہ 41۔56)
یہاں آخری بات تحریر کرتا چلوں کہ اسلامی انقلاب بھی وہی لیڈر لاسکتے ہیں جو اس امتیازی شان سے بے نیاز ہوں۔ لوگوں کے درمیان رہتے ہوں، ان کے دکھ درد کو سمجھتے اور حل کرنے کی کوشش کرتے ہوں، عوام سے فاصلہ نہ رکھتے ہوں اور دولت جمع کرنے کے بجائے لوگوں کے لیے روزگار کے وسائل پیدا کرتے اور اللہ کے دیے ہوئے وسائل کو ان کے درمیان انصاف سے تقسیم کرنے والے ہوں۔
nn