ہمارے محلے میں ایک کسٹم انسپکٹر رہا کرتے تھے، جن کی سرکار ی عہدے کے لحاظ سے ایک عام ملازم کی حیثیت ہوتی ہے، مگر انسپکٹر صاحب اور ان کی کی فیملی کے ٹھاٹ باٹ شاہانہ تھے۔ ان کے بیٹے قریباً میرے ہم عمر تھے۔ قیمتی لباس، موٹر سائیکل، اچھا کھانا اور پیسے اڑانا ان کا مشغلہ تھا۔ انسپکٹر صاحب کے بچے اپنی ذات سے اچھے تھے، مگر میرے والد جو ایک استاد اور سماجی کارکن تھے، مجھے ہمیشہ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتے، جس کی وجہ اُس وقت مجھے عجیب لگتی تھی۔ والد صاحب فرماتے تھے کہ اسِ طرح کی ملازمتیں کرنے والوں کے گھروں میں رشوت کی کمائی آتی ہے، میں یہ نہیں چاہتا کہ تم ان کے بچوں کے ساتھ دوستی رکھو، جن کو رشوت کی کمائی سے پروان چڑھایا جاتا ہو۔ والد کا کہنا تھا کہ جب حرام کی کمائی سے بچوں کی پرورش کی جائے تو یہ بچے بڑے ہوکر معاشرے میں بدعنوانی کو فروغ دیں گے۔ آج جب میں اپنے والد مرحوم اور اُس زمانے کے بڑوں کی ذہنیت کے بارے میں سوچتا اور پھر آج جو کچھ اُردو بولنے والے طبقے کو کراچی اور حیدرآباد میں دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے۔ کس سلسلے وار طریقے سے پاکستان کے سب سے پڑھے لکھے طبقے کو تباہ کیا گیا، کیا کوئی بیس یا تیس سال پہلے یہ تصور کرسکتا تھا کہ کراچی کے فیڈرل بی ایریا جیسے علاقے، جہاں پڑھے لکھے اور نوکری پیشہ لوگ آکر آباد ہوئے تھے، آج وہاں پاکستان آرمی کو علاقے کی ناکہ بندی کرکے اسلحہ اور مجرموں کو منظر عام پر لانا پڑے گا۔ حقیقت جیسی بھی ہو اور پس منظر جو بھی ہو، لیکن کیا الطاف حسین یا ان کے ساتھی سچائی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا کبھی ان کے بڑوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ان کے گلی محلّوں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور بچوں کو دہشت گرد اور گینگسٹرز کہا جائے گا! جو بات میں پچھلے بیس سال سے کہتا رہا ہوں کہ ایک سازش کے ذریعے پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے کو ایسے سیاسی جال میں پھنسایا جارہا ہے، جس کا مقصد حقوق کے نام پر انہیں تیسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ تیس چالیس برس پہلے اردو بولنے والوں کو اعلی تعلیمی اداروں میں بغیر سفارش اور میرٹ پر داخلہ اور سرکاری اداروں میں میرٹ پر نوکریاں مل جاتی تھیں۔ اعلی تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری اداروں میں نوکریاں تو درکنار اب تو اگر کوٹہ سسٹم ختم بھی کردیا جائے اور میرٹ کا نظام نافذ ہوبھی ہوجائے تو کراچی اور حیدرآباد کے نوجوانوں کو اب میرٹ اور قابلیت پر شاید نہ داخلے مل سکے اور نہ ہی اعلی سرکاری نوکریاں، کیوں کہ پچھلے بیس سالوں میں ان کے ہاتھوں سے کتابیں الگ کرکے اسلحہ پکڑا دیا گیا ہے۔ الطاف حسین نے اپنی تقاریر پر پابندی سے پہلے جو ایک تقریر کی تھی، اس میں اپنے کارکنوں سے کہا تھا کہ مجرموں کو چھپنے کے لیے نائن زیرو ہی کی پناہ گاہ مِلی تھی، اتنی بڑی دنیا پڑی ہے، کہیں بھی چلے جاتے، میں بھی تو پچیس سال سے باہر پڑا ہوں۔ اب اسِ لیڈر کے اس انداز بیاں اور سوچ پر کیا کہا جائے؟
جو لوگ اپنے اثاثے، زمینیں اور صدیوں پرانے رشتے ہندوستان میں چھوڑ کرقیام پاکستان کے وقت پاکستان ہجرت کرکے آئے اور کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئے۔ ان کی نسل اس طرح تباہ اور برباد ہوگی، یہ کبھی انہوں نے تصور بھی سوچا نہ ہوگا۔ ہم اپنے بڑوں سے نظریں نیچی کرکے بات کرتے تھے، بزرگوں کی بات اگر بُری لگ بھی جائے تو پلٹ کر جواب نہیں دیا کرتے تھے، دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور اگر کوئی بڑا پاس سے گزر رہا ہو تو احترام میں خاموش ہو جایا کرتے تھے اور پھر ادب سے سلام کیا کرتے تھے۔
راستو، کیا ہوئے وہ لوگ، جو آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے
سیاست یا کسی اور مؤلے پر گفتگو جاری ہو تو بڑوں کی عمر کا خیال رکھتے ہوئے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ اس زمانے میں ماں باپ سب کچھ نظر انداز کرسکتے تھے، مگر بدتمزی اور اخلاق سے گری ہوئی بات برداشت نہیں کیاکرتے تھے۔ آج اسی طبقے کا قائد سیکڑوں ماؤں اور بہنوں کی موجودگی میں غلیظ زبان اور وہ الفاظ استعمال کر تا ہے، جو اگر ماں باپ کے سامنے استعمال کی جائے تو وہ کبھی معاف نہ کریں۔
اُردو بولنے والے نفیس، شریف النفس اور تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ پچھلے تیس برسوں میں ایسا کھیل کھیلا گیا کہ آج جن کے باپ دادا کا اثاثہ تہذیب، خاندانی روایات، اخلاقیات اور تعلیم ہوتا تھا، ان کی نئی نسل کے پاس صرف یہ ہی چیزیں ناپید ہیں ۔ تعلیم جس قوم کا زیور تھا، آج ان کی نسل کے نام نہاد رہنما انہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر تم کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ اسلحہ ہے۔ آج نہایت ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب اس نسل کے پاس تعلیم ہے، نہ اخلاقیات۔ ہتھیا راٹھا کر چلنے کو وہ سیاست اور تحریک سمجھتے ہیں۔ کس مقصد کی تحریک ہے ، کیا اس کی منزل ہے، کچھ پتا نہیں۔ باپ دادا کی کیا قربانیاں تھیں، کچھ معلوم نہیں، مگر قائد کی سال گرہ کب ہے؟ نہیں بھولتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماردھاڑ، ٹکراؤ، بداخلاقی اور جہالت کے سارے سازوسامان سے ان کے کارکنان لیس ہیں۔ جن کے ماں باپ کی جیبوں میں قلم ہوتا تھا، آج ان کی اولادوں کے نیفوں میں پستولیں لگی ہوئی ہیں۔
آج میں کراچی اور حیدرآباد میں اپنے ہی خاندان کے نوجوانوں اور اس نسل کو دیکھتا ہوں، جو 1980 کی دہائی میں پیدا ہوئی، ان کا لب و لہجہ، تعلیمی معیار ، بات چیت کا انداز، پہننے اوڑھنے کا طریقہ، ان کے اپنے مستقبل کے معاملات جب ان سے سُنتا ہوں اور ان کی سیاسی پسند اور نا پسند کو دیکھتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والوں کو تمام طبقات عزت کی نگا ہ سے دیکھا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو اردو سکھاتے اور اپنے گھروں میں اردو میں بات کرنا پسند کیا کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجر یا اردو اسپیکنگ، اپنے مستقبل اور معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے تعلیم ، ملازمت اور کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ، حیدرآباد ، سکھر سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی کاروبار پر گرفت مضبوط ہوتی گئی اور سندھ کے زیادہ تر کاروبار پر اپنی محنت اور لگن سے چھاگئے۔ تعلیم اور ہر شعبہ زندگی میں یہ لوگ نظر آنے لگے، سرکاری اور اعلی پرائیوٹ کمپینوں، بینکوں، ائیر لائن، بندرگاہ وغیرہ میں بھی اردو بولنے والے اعلی عہدوں پر پہنچنے لگے۔ کراچی اور حیدرآباد دانش ورں ادیبوں، شاعروں، نقّادوں، فن کاروں کے شہر کہلاتے تھے۔ انِ دونوں شہروں میں سب سے زیادہ ادبی محلفیں، مشاعرے، مشائخ کی محلفیں، تھیٹر ہوا کرتے۔ غرض کہ یہ دو شہر پاکستان کی تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گئے تھے۔کراچی روشنیوں کا شہر انِ ہی اردو بولنے والوں کی مرہونِ منت تھا، جب کہ حیدرآباد نے بڑے بڑے نقّاد، شاعر اور فن کار پیدا کیے۔
اردو بولنے والوں کو باقی ماندہ قوموں کی طرح وڈیرے اور جاگیردار لگام ڈالنا چاہتے تھے۔ جنوری 1965 کو جب اس وقت کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے صرف ایک ماہ کے نوٹس پر، انتخابات کرنے کا اعلان کیا اور ایوب خان کی بنائی ہوئی کنونشن مسلم لیگ کا سیاسی اتحاد قائم ہوا تو پاکستان کے یہ جاگیردار ، وڈیرے اور قبایلی طاقتیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ کے خلاف ایوب خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ کراچی میں ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے انتخابی مہم کی باگ دوڑ سنبھالی۔ کراچی کے اردو بولنے والوں کی اکثریت نے بھرپور طریقہ سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی، مگر جب انتخابات کے نتیجہ کا اعلان ہوا تو فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات میں ایوب خان کے کارندوں، جن میں ایوب خان کا بیٹا گوہر ایوب پیش پیش تھا، نے اپنی مرضی کا نتیجہ تیار کیا۔ اسِ طرح سے پاکستان میں جمہوریت کے نام پر عوامی استحصال کا آغاز ہوا اور انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد ڈال دی گئی۔ جیت کی خوشی میں گوہر ایوب خان نے کراچی میں ریلی کا انعقاد کیا۔ اسِ ریلی میں زیادہ تر پشتون بولنے والے پٹھان بھائی شامل تھے۔ اسِ ریلی کے دوران اور اس کے بعداس قسم کے واقعات رونما ہوئے کہ کراچی شہر میں مہاجر پٹھان کے نسلی فسادات برپا ہوئے جس میں تیس کے قریب لوگ مارے گئے۔ ایک موقعے پر صدر ایوب خان نے کراچی کے اردو بولنے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ مہاجروں اب تمہارے آگے صرف سمندر ہے۔ ایوب خان کے اسِ جملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مہاجر اور پٹھانوں کے درمیان اور نفرتیں بڑھنے لگیں مگر پھر اس وقت کی سول سوسائٹی اور محب وطن پاکستانی سامنے آئے اور دونوں طبقات کو ٹھنڈا کیا۔
پھر 1970 کی دہائی شروع ہوئی۔ ایوب خان کی سیاسی کوکھ سے جنم لینے والے ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے سندھ میں لسانی عنصر استعمال کیا اور سندھ میں شہری اور دیہی تقسیم کی بنیاد رکھی جو دراصل اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان سیاسی تقسیم اور سندھی بولنے والوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف زبان کے نام پر مائل کرنا تھا تاکہ سندھ کے وڈیرے زمیں داری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی سندھی بولنے والوں کو غلام بناکر رکھیں اور اس کا الزام اردو بولنے والوں پرڈالیں۔ پلان یہ تھا کہ اردو بولنے والوں پر تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بند کیے جائیں اور ساتھی یہ تاثر دیا جائے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے، وہ سندھی بولنے والوں کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔ شہری اور دیہی تقسیم سے اردو بولنے والوں پر اعلی تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ نافذ کر دیا گیا۔سندھ میں کوٹہ سسٹم آج بھی جاری ہے۔ اردو بولنے والوں کے ساتھ ناانصافیوں کے خلاف کراچی کے مقامی سیاست دانوں نے الطاف حسین سے پہلے بھی کراچی اور حیدرآباد میں آوازیں اٹھائیں، مگرالطاف حسین نے اردو بولنے والوں کی احساسِ محرومی اور ناانصافیوں کو ہائی جیک کرلیا۔ سندھ کے اردو بولنے والے جو اس سے پہلے سیاسی طور پر بالغ تھے، جماعت اسلامی، جمیت الاسلام اور پاکستان مسلم لیگ سے وابستہ تھے، الطاف حسین کی مہاجر قومی مومنٹ کے پیچھے ہو لیے۔ الطاف حسین کو سندھ کے اردو بولنے والوں نے اپنا مسیحا مان لیا اور اپنی جان ومال اس شخص پر نچھاور کردیے۔ الطاف حسین دیکھتے ہی دیکھتے سندھ کی ایک طاقت ور سیاسی شخصیت بن کر ابھرے۔ انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ کا عوامی تعارف بالکل اسی طرح کرایا، جس طرح اس سے پہلے جی ایم سید نے سندھو دیش تحریک کا کرایا تھا۔ اسلحہ کی کھلے عام نمائش، آگے پیچھے کلاشنکوف بردار نوجوان۔۔۔دہشت کا ایک ماحول بنادیا۔
الطاف حسین نے کیا حاصل کیا اور آج اردو بولنے والا طبقہ کہا ں کھڑا ہے؟ ہر اردو بولنے والا اگر اپنی بستی محلّوں ہی میں دیکھ لے تو اسے جواب مل جائے گا۔ مہاجر بے چارے الطاف حسین کے پیچھے اسِ لیے ہولیے تھے کہ بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافذ کیا ہے، الطاف حسین سندھ کے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں اسے ختم کرائے گا۔ الطاف حسین نے کوٹہ سسٹم ختم کرانے کے بجائے دو مرتبہ خود کوٹہ سسٹم کی حمایت کی، ایک بار جام صادق کے زمانے میں اور دوسری بازررداری دور میں۔ الطاف نے اردو بولنے والوں کو ایسے نعرہ دیے، جو صرف اور صرف جذباتی تھے، مثال کے طور پر ، ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے، جو الطاف کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے، پانچویں قومیت، مہاجر قومیت وغیرہ وغیرہ۔
غور طلب بات یہ تھی کہ اُس وقت سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم کرنے اور ایک مخصوص طبقے کے ساتھ تعصب کو ختم کرنا تھا، مگر الطاف حسین نے نئی نسل کے سامنے خود کو سیاسی نجات دہندہ کے طور پیش کیا اور کوٹہ سسٹم بھلاکر قوم کو نفرتوں کاسبق دیا۔ پھر یہ کہا کہ گھر کا سامان بیچیں اور اسلحہ خریدیں۔ جس نسل کا زیور تعلیم ، اخلاق اور تہذیب تھا، ان کے ہاتھوں میں اسلحہ، زبان پر جذباتی نعرے دیے۔ آج ایم کیو ایم کو بنے تیس سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا، نہ تو کوٹہ سسٹم ختم ہوا اور نہ ہی نہ انصافیاں۔
الطاف کی پارٹی تین ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ آج الطاف حسین خود اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کی جماعت اپنی بقا کے لیے ہر چور، بد عنوان اور بدکردار شخص اور جماعت سے ہاتھ ملا رہی ہے۔ ہر اردو بولنے کو جذبات سے باہر آکر سوچنا ہوگا، اپنے قائد ہی کے کردار پر غور کرنا ہوگا، جس نے جذباتی نعرے دے کر مہاجروں کوبند گلی میں لاکھڑا کیا ہے اور خود لندن میں مزے اُڑا رہا ہے۔ ہمیں منزل نہیں، رہنما چاہیے، مہاجرو کو اس نعرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنی اصل منزل کی فِکر کرنی ہوگی، جو صرف اور صرف آخرت ہے۔ دنیا میں جو بھی جیسا کام کرے گا، اس کا نتیجہ آخرت میں بھی ویسا ہی ملے گا۔ اردو اور سندھی بولنے والے اس پارٹی کو بھی پہچانیں کہ جس نے سندھ میں پچھلے تیس چالیس برسوں میں دونوں کو لڑایا اور خود مزے سے صوبے کو لوٹا کھسوٹا؟ یہ وہی پارٹی ہے، جس کے ایک لیڈر نے مجیب الرحمٰن سے کہا تھا، اُدھر تم، اِدھر ہم اور مشرقی پاکستان توڑ دیا تھا، جب کہ دوسرے چور لیڈر نے ملکی سلامتی کے اداروں کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، آج بھی یہ بدعنوان لیڈر دبئی میں بیٹھ کر دھڑلے سے سندھ کی حکومت چلارہا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج چور، ڈاکو پاکستان پر حکومت کررہے ہیں، عوام اور ملکی اداروں کا بیڑا غرق ہوچکا ہے اور ریاست کی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی، جسے نافذ کرکے عوام اور ملکی سلامتی سے کھلواڑ کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹا جاسکے!!