(ترکی کے صدر کا دورہ اور پاک ترک دوستی (محمد انور

262

’’ہم صرف الفاظ تک نہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں، ہر مشکل وقت میں پاکستان نے ترکی کا ساتھ دیا ہے، ایک بار پھر اس پارلیمنٹ میں آپ کے ساتھ یکجا ہونا میرے لیے باعثِ مسرت ہے، ترکی اور پاکستان کے تعلقات کسی دو مملکتوں کے درمیان سفارتی تعلقات سے کہیں ہٹ کر خصوصیات کے حامل ہیں‘‘۔
یہ باتیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تاریخی خطاب میں کہیں۔ ترکی کے صدر نے کہا کہ ہم پاکستانی بھائیوں کی خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ آپ کے جذبات بھی اسی سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت پر پاکستان کی اولین حمایت پر شکرگزار ہوں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پچھلے 70 برسوں سے تعطل کا شکار مسئلہ کشمیر پر ہمیں بھی تشویش ہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی واضح طور پر حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری بھائیوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ رجب طیب اردوان نے عندیہ دیا کہ ترکی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کوششیں اقوام متحدہ میں آگے بڑھائے گا۔ ’’ہم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور وہاں پیش آنے والے دردناک واقعات سے آگاہ ہیں‘‘۔ ترک صدر نے کہا کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور پاکستان نے اس تنظیم کے خلاف قابلِ تحسین اقدامات کیے۔ یہ دہشت گرد تنظیم نہ صرف ترکی بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ’’مغرب داعش اور القاعدہ کی مدد کررہا ہے، داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکی شام میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف برسر پیکار ہے لیکن یہ پوری اسلامی دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تنظیموں کو اپنی صفوں سے اٹھاکر باہر پھینک دے۔ ان کا کہنا تھا کہ دینِ اسلام کے سائے میں ہی مسلم دنیا ترقی کرسکتی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو کسی بھی غیر ملکی سربراہِ مملکت کے طور پر پاکستانی پارلیمنٹ سے تیسری بار خطاب کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوگیا ہے، وہ دو بار وزیراعظم کی حیثیت سے 2009ء اور2012ء میں پارلیمنٹ سے خطاب کرچکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ترکی اور پاکستان عالمی سازشوں کے باوجود ایک دوسرے کے قریب آنے اور تعلقات مستحکم کرنے کی جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ترک صدر رجب طیب اردوان بدھ 16نومبر کو پاکستان کے دو روزہ دورے پراسلام آباد پہنچے تھے۔ اُن کے ہمراہ اُن کی اہلیہ، چیف آف جنرل اسٹاف اور اعلیٰ حکومتی وفد تھا۔ جمعرات کو انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔
رجب طیب اردوان کے دورۂ پاکستان سے جہاں دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا موقع ملے گا وہیں یہ بھی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ رجب طیب اردوان کے اس دورے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کو خطے کے حالات بہتر بنانے کا سنہری موقع ہاتھ لگا ہے۔ خصوصاً رجب طیب اردوان کے تازہ دورے کی وجہ سے پاکستان اور ترکی کے درمیان جمہوری حکومتی قربتوں کے ساتھ ساتھ عسکری قوتوں کے روابط میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی پاکستان کے حالات بہتر بنانے کے اقدامات میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ترکی پاکستان کے حکمرانوں سے زیادہ پاکستانی عوام اور پاکستان کی سلامتی کے معاملات پر احساس کرنے والا دوست ملک ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب ملک کے جمہوری نظام سے لگاؤ کی علامت ہے، لیکن رجب طیب اردوان کی جانب سے خصوصی طور پر کشمیر کی صورت حال اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کاذکر کرکے انہوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ ترکی کے نزدیک پاکستان کا استحکام اور ترقی سب سے اہم ہے۔
ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں ترکی اور پاکستان کی عسکری قیادتوں کی ملاقات کو بھی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، ترک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ہولوسی اکار نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران فوج کی سطح پر تعلقات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سمیت باہمی دلچسپی کے دو طرفہ امور پر بات چیت کی گئی، جس میں علاقائی سلامتی کی صورت حال اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون مزید بڑھانے سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ جبکہ ترک صدر کی جانب سے اس بات کا عزم کیا گیا کہ پاک ترک دفاعی تعاون میں اضافے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ دونو ں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ دہشت گردی کسی بھی صورت میں ہو، قابلِ مذمت اور ناقابلِ برداشت ہے۔ ملاقات میں پاکستان اور ترکی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
تازہ دوروں کے نتیجے میں پاکستان اور ترکی کے حکمران خطے میں ترقی و کامیابیوں کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ خصوصاً پاکستان کی سرحدی اور اندرونی صورت حال میں بھارت کی جانب سے جارحیت اور دہشت گردی کے شواہد پر ترکی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسلامی ممالک کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرتے ہوئے ترقی اور استحکام کے نئے راستوں کو اپنانا پڑے گا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ علاقائی تنظیم اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (Economic Cooperation Organisation) کو صحیح معنوں میں فعال کردیں تو اس کے بہت اچھے نتائج نکلیں گے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان، ایران، ترکی کا تین رکنی اتحاد تین ملکی اقتصادی خوشحالی کی راہیں کھول سکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی مصنوعات ایران کے راستے ترکی، اور ترکی سے یورپ تک جاسکتی ہیں، یہ سب یورپ کی منڈیوں تک پہنچنے کے لیے مختصر اور سستا حل ہے۔ ترکی کے صدر کی اسلام کے قلعہ پاکستان میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے حوالے سے گفتگو بھی اس بات کا عندیہ تھی کہ وہ اور ترکی مسلمانوں اور اسلامی ملکوں کی مضبوطی کے لیے سرگرم ہیں۔ اس ضمن میں عام خیال یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کو چاہیے کہ سعودی عرب سمیت خلیجی عرب ریاستوں کو اسلام دشمن، عرب دشمن پالیسیوں سے باز رہنے کی تاکید کریں۔ پاکستان اور ترکی میں عقیدے، ثقافت، تاریخ اور روایات کی بنیاد پر مثالی تعلقات ہیں۔ ویسے بھی ہماری ثقافتوں اور تہذیبوں میں قربت اور باہمی تعاون کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ تو صدیوں سے برقرار ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ترک جنگِ آزادی کے وقت پاکستان اور ترکی کے عوام کے درمیان ایسے مضبوط رشتے قائم ہوئے کہ آج بھی پاکستانی اور ترک عوام شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ترک اور پاکستانی عوام میں باہمی ابدی پیار ہے، یہ ایک دوسرے کی کامیابیوں اور مشکل گھڑیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ترکی نے چند دہائیوں میں جدید ملک کا روپ دھارنے اور ترقی یافتہ بننے کے عمل میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ترکی کی ترقی کا قابلِِ تعریف پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خطے کا خوشحال ترین ملک ہے، جس نے یہ سفر جمہوریت پسند معاشرے کی مدد سے طے کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ دوستی اور سماجی تعلقات کا تسلسل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے دلوں میں رشتوں کی جھلک زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔

حصہ