ہمارے یہ ایک لمحہ فکر ہے کہ ہم لوگ دھیرے دھیرے ’’کتاب‘‘ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ کتب بینی کا شعبہ تقریباً ختم ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ثقافتی قدریں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ علمی و ادبی بحران سے چھٹکارا پانے کے لیے عملی جدوجہد کرنی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخی و ادبی ورثہ عرفان صدیقی نے فاران کلب انٹرنیشنل کی جانب ملک کے نامور شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور کالم نویس الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کی تقریب پذیرائی کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الطاف حسن قریشی ہمارا قومی سرمایہ ہیں ان کی تمام زندگی اردو ادب کی ترقی و فروغ کے لیے وقف ہے‘ یہ ہمہ صفات شخصیت ہیں انہوں نے جن اہم اشخاص کے انٹرویوز کیے تھے وہ تمام یادداشتیں کتابی شکل میں قارئین کے سامنے پیش کردی ہیں یہ کتاب صحافت کے شعبے سے متعلق افراد کے لیے بہت اہم ہے اس کتاب کو کالجز‘ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے تاکہ نئی نسل اس کتاب سے استفادہ کرسکے۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ الطاف حسن قریشی اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں‘ ایک یونیورسٹی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب الطاف حسن قریشی کی سیاسی تحریروں سے سیاسی میدان میں بہت سے فیصلے ہوجاتے تھے‘ ان کی سیاسی بصیرت سے انکار ممکن نہیں تاہم ان کی صحافتی خدمات اور ادبی خدمات بھی قابل تحسین ہیں یہ پاکستان کی شناخت ہیں ان شخصیت مشعل راہ ہے انہوں نے زندگی کے مختلف مسائل خندہ پیشانی سے برداشت کیے ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی ان پر جتنا بھی لکھا جائے‘ جتنا بھی بولا جائے کم ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے حکومتِ وقت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ’’اقبال ڈے‘‘ کی چھٹی ختم کر دی گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ چھٹی آئندہ سال بحال کر دی جائے گی۔ سجاد میر نے کہا کہ الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمان شامی نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور وہ لیدڑ بن گئے۔ میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ الطاف حسن قریشی آسمانِ صحافت کا درخشندہ ماہتاب ہیں۔ انہوں نے نظریاتی صحافت کو فروغ دیا اور زرد صحافت کے خلاف جہاد کی بلاشبہ یہ صحافی قبیلے کے سپہ سالار ہیں۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ الطاف حسن قریشی کی یہ کتاب اردو میں قابل قدر اضافہ ہے‘ اس کتاب کو پڑھ کر ہمارے ذہنوں میں تاریخ پاکستان کا Revision ہوتا ہے ان کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ایک دستاویز ہے انہوں نے جرأت مندانہ صحافت کی ہے میں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ الطا حسن قریشی کی تحریریں قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ یہ صاحب اسلوب نثر نگار ہیں انہوں نے اپنے انٹرویز کے ذریعے ماضی کو حال سے جوڑ دیا ہے انیق احمد نے کہا کہ الطاف حسن قریشی نے پاکستان کے عرج و زوال کے مناظر دیکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو کتابی شکل سے کر ہمارے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں۔ انہوں نے اپنے مخالفین کی تلخیاں برداشت کیں اور ان کے انٹرویز بھی کیے ان کے تمام افکار و خیالات اپنے انٹرویوز میں لکھے یہ ایک سچے صحافی کی پہچان ہے۔
اس تقریب کے دیگر مقررین میں رؤف طاہر‘ ارشاد احمد کلیمی‘ اور کرامت بخاری شامل تھے۔ ان مقررین نے بھی الطاف حسن قریشی کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔
۔۔۔*۔۔۔
کورنگی پبلک اسکول کورنگی میں بزم شمع ادب کے زیر اہتمام 13 نومبر 2013ء کو بہاریہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ پروفیسر جاذب قریشی نے صدارت کی۔ سبی سے ائے ہوئے مہمان شاعر پروفیسر عظمی جون مہمان خصوصی تھے‘ شاعر علی شاعر مہمان اعزازی تھے جب کہ آئرن فرذحت نے نظامت کی۔ تلاوتِ کلام کی سعادت تاج علی رانا نے حاصل کی۔ کم سن نعت خواں غلام سعد نے نعت رسولؐ پیش کی اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ رشید خاں رشید‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ یوسف چشتی‘ سحر حسن سحر‘ حامد علی سید‘ صفدر علی انشا ماہ نور خان زادہ‘ محسن سلیم‘ افضل ہزاروی‘ اسحاق خان اسحاق‘ مہتاب عالم مہتاب‘ کاشف ہاسمی‘ تنویر سخن‘ عارف نظیر‘ بشیر احرام‘ مہتاب شاہ‘ کامران محور‘ چاند علی‘ تاج علی رانا‘ عاشق شوکی‘ عامر ثانی اور زبیر صدیقی نے اپنا اپنا کلام سنایق۔ بزم شمع ادب کی جانب سے پروفیسر جاذنب قریشی‘ پروفیسر عظمی جون‘ شاعری علی شاعر اور اخترسعیدی کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔
صاحب صدر پروفیسر جاذب قریشی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ بزم شمع ادب تسلسل کے ساتھ مشاعرے کرا رہی ہے جو کہ ایک مستحسن اقدام ہے اردو ادب کی ترویج اشآعت میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہے ورنہ آنے والے وقتوں میں شعر و ادب کی روایتیں ختم ہو جائیں گی۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ہر تعلیمی ادارے میں بزم ادب قائم تھی جس کے تحت ادبی پروگرام ہوتے تھے اب تو تعلیمی اداروں کے معاملات خالصتاً کمرشل ہوگئے ہیں۔ ادبی معاملات پر مالی منفعت کو ترجیح دی جارہی ہے جس کی وجہ سے اردو ادب متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیر قلم کاروں کی تحریروں میں علاقائی مسائل کا تذکرہ بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے دکھ درد شہری علاقوں سے جدا ہیں۔ لانڈھی‘ کورنگی بھی ایک مضافاتی علاقہ ہے آج سے 20-25 برس قبل یہ علاقہ ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت اہم تھا لیکن حوادثِ زمانہ کے باعث اس علاقے میں ادبی مشاغل ماند پڑ گئے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب اس علاقے میں ادبی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں یہاں کئی ادبی ادارے فروغ ادب کے لیے ہمہ وقت مصروف ہیں۔ صاحب صدر نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ اپنے اشعار سنا کر مشاعرے سے چلے جانا ایک غیر اخلاقی فعل ہے اور مشاعرے کی روایت کے خلاف ہے اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو آپ مشاعرے میں شرکت مت کیجیے۔ اصولی طور پر مشاعرے کے اختتام تک مشاعرے گاہ میں موجود رہنا چاہیے۔ مہمان خصوصی پروفیسر عظمی جون کے بارے میں صاحب صدر نے کہا کہ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں۔ یہ اپنے تجربات و احساسات کو تصویر بنانا جانتے ہیں۔ ان کے یہاں امیجری ہے اور خوب صورت استعارے بھی۔ مہمان اعزازی کے لیے پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ شاعر علی شاعری ہمہ جہت شخصیت ہیں ان کا پبلشنگ کا ادارہ کراچی میں بے حد فعال ہے ان کیادارت میں سہ ماہی رسالہ رنگ ادب شائع ہورہا ہے ان کی شاعری بھی اعلیٰ معیار کی ہے۔ اختر سعیدی کے بارے میں صاحبِ صدر نے کہا کہ یہ محبتوں کے پیامبر ہیں انہوں نے بہت شعرا پروموٹ کیے ہیں۔ یہ ادارۂ فکر نو کے روح رواں ہیں اس پلیٹ فارم سے اختر سعیدی نوجوان شعرا کو آگے بڑھا رہے ہیں یہ پاکستان کے ایک بڑے اخبار سے وابستہ ہیں۔ یہ صحافتی میدان مین بھی بلند قامت شخصیت ہیں۔ مشاعرے میں اسحاق خان اسحاق نے خطبہ استقبالیہ اور غلام ربانی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔
۔۔۔*۔۔۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی ماہانہ ادبی نشست پروفیسر اظہار حیدری کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں آئرن فرحت مہمان خصوصی تھیں۔ پروفیسر شاہد کمال نے آئرن فرحت کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ طویل عرصے سے شاعری کر رہی ہیں ان کے والد بھی اچھے شاعر تھے گویا شاعری ان کے خون میں شامل ہے۔ یہ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور بزم کرسچین گلڈ کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ آئرن فرحت ماہر تعلیم بھی ہیں۔ کراچی میں جو لوگ مشاعروں کی نظامت کر رہے ہیں ان میں آئرن فرحت ایک ممتاز نام ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین ایک مستند انجمن ہے جس کا قیام 1936ء میں ہوا۔ اس کے بانی ارکان میں سجاد ظہیر‘ سردار جعفری‘ منشی پریم چند‘ مجاز‘ مخدوم محی الدین اور دیگر اکابرین شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی علیحدہ تنظیم سازی کی گئی جس کے تحت ادبی پروگرام منعقدکیے جارہے ہیں۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ ترقی پسند تحریک کی بدولت اردو ادب میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اردو ادب پر خوش گوار اثرات مرتب ہوئے اس تحریک نے موضوعاتی نظموں پر خصوصی توجہ دی‘ سامراجی نظام کے خلاف مزاحمتی شاعری سامنے آئی آج کے دور کے بیشتر شعرا ترقی پسند تحریک کے استعارات کو نظم کر رہے ہیں یعنی بہ اندازِ دیگر یہ تحریک جاری و ساری ہے۔ اس موقع پر صدر انجمن صبا اکرام نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی اپنی مدد آپ کے تحت اردو ادب کے فروغ میں مصروف ہے‘ ہمارے ادارے کے ماہانہ پروگرام ہوتے ہیں اور سالانہ تقریب بھی شایان شان طریقے سے منعقد کی جاتی ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم خاص طور پر نوجوان نسل شعرا کی حوصلہ افزائی کریں اسی لیے آج ہم نے آئرن فرحت کے اعزاز میں یہ محفل سجائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کے لیے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں جس کے ثمرات آج بھی محسوس ہو رہے ہیں اس موقع پر انہوں نے معمارانِ انجمن کی تحریر کردہ کتابوں کے تحائف مہمان اعزازی کی خدمت میں پیش کیے۔ مشاعرے میں آئرن فرحت نے ایک گھنٹے تک اپنا کلام سنا کر سامعین سی داد وصول کی اس کے علاوہ صاحب صدر‘ پروفیسر اظہار حیدری‘ پروفیسر شاہد کمال‘ صبا اکرفام‘ سید علی اوسط جعفری‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ تنویر سخن‘ یاسمین یاس‘ وقار زیدی شمس الغنی اور دیگر نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
تعلیمی ادارے اپنی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے باعث پہچانے جاتے ہیں‘ ہم نصابی سرگرمیوں میں ’’مشاعرہ‘ بھی شامل ہے‘ شپ اونرز کالج ناظم آباد کراچی میں باقاعدگی سے مشاعروں کا انعقاد ہو رہا ہے جس کے باعث طالب علموں میں ادبی شعوور پروان چڑھ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے یوم اقبال پر شپ اونرز کالج میں منعقدہ مشاعرے کے موقع پر صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں ان کے کلام نے مسلمانانِ ہند میں آزادی کی تحریک پیدا کی اس کے علاوہ ان کے اشعار میں تصوف‘ طریقت اور زندگی کے تمام مضامین نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کی فکر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ مہامن خصوصی چیئرمین آف انٹر بورڈ کراچی پروفیسر انعام احمد نے کہا کہ طلباء و طالبات کو چاہیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے جن تعلیمی اداروں میں علمی وادبی مشاغل کا اہتمام کیا جاتا ہے ان میں شپ اونرز کالج بھی شامل ہے۔ آج یہاں جو شاعری سامنے آئی ہے وہ بہت اچھی تھی‘ تمام سامعین نے ہر شاعر و شاعرہ کو دل کھول کر داد دی جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے طالب علم بھی سخن فہم ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض کی ادائیگی کے علاوہ خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر شاعر امن و انسانیت کا سفیر ہوتا ہے شاعری کے لیے لازمی ہے کہ ہم وسیع مطالعہ کریں اور اپنے اشعار سے معاشرتی اصلاح کا کام بھی لیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے کالج میں ہر سال ایک شاندار مشاعرہ منعقد کرتے ہیں اس مرتبہ علامہ اقبال کے حوالے سے یہ مشاعرہ ہو رہا ہے تاکہ ہم اپنے قومی ہیرو کو خراج تحسین پیش کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر اصلاح الدین ثانی نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور کہا کہ مشاعرہ ہماری تہذیبی اقدار کا آئنہ دار ہے۔
اس مشاعرے میں طلباء نے علامہ اقبال کے حوالے سے نظمیں پیش کی جب کہ صاحب صدر اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ‘ اختر سروش‘ انعام اللہ خاں‘ پروفیسر نعمان‘ ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘ پروفیسر محمد علی‘ عبدالصمد نور سہارن پوری‘ صدیق ہمایوں‘ مہتاب عالم مہتاب اور فضل شاہ نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
بزم تقدیس ادبنے اردو ادب کی ترویج واشاعت میں قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں اس انجمن کے تحت ہر مہینے ایک ادبی پروگرام منعقد ہوتا ہے اس تناظر میں شادمان ٹاؤن میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی‘ قمر وارثی مہمان خصوصی اور فیروز ناطق خسرو مہمان اعزازی تھے جب کہ احمد سعید خان نے نظامتی فریضہ ادا کرنے کے علاوہ کلماتِ تشکر بھی پیش کیے۔ صاحب صدر رفیع الدین را زنے صدارتی خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ بزم تقدیس ادب نے اردو ادب میں قابل ستائش مقام حاصل کرلیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا اہم جز ہے‘ وقت و حالات کی بدولت یہا دارہ عروج و زوال کا شکار ہوتا رہتا ہے مگر اس کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج کے زمانے میں شاعری کے مسائل کچھ اور ہیں جب کہ ماضی میں شاعری کا انداز کچھ اور تھا۔ ہر شاعر و ادیب اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے یہ بہت حساس ہوتا ہے اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے اپنی شاعری کے ذریعے آگے بڑھاتا ہے۔
اس موقع پر پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا اُن میں فیاض علی فیاض‘ عبدالوحید تاج‘ فخر اللہ شاد‘ کشور عدیل جعفری‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عامر شیخ‘ ابراہیم خلیل‘ پرواز حیدر پرواز‘ الحاج یوسف اسماعیل مشرق صدیقی‘ آسی سلطانی‘ سجاد ہاشمی‘ سعد الدین سعد ساجد سعید ترئین راز زیدی‘ نظر فاطمی‘ جمال الدین جمال‘ شمس الغنی‘ رضی عظیم آبادی‘ سراج الدین سراج‘ علی اوسط جعفری اور دیگر شامل تھے۔