برلن اکیڈمی آف آرٹس نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے نام لکھے گئے اپنے ایک کھلے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ ترکی کی جیلوں میں قید ترک صحا فیوں، مصنفوں اور دانش وروں کی رہائی کے لیے فعال کردار ادا کریں۔‘‘ ساتھ ہی خط میں الزام لگا یا گیا ہے کہ ترک صدر نے فو جی بغاوت کی ناکا می کے بعد ان تمام دانش ور افراد کو بغاوت میں ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جنھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت ایک ایسی انہونی تھی کہ جس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی اور ترکی اسلام کا مرکز بن کر سامنے آیا۔ اس سال کی دوسری بڑی انھونی امریکا کے انتخابات ہیں۔ امریکی انتخابات پوری دنیا میں توجہ کا مرکز ہوتے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک کی نظریں امریکی صدارتی انتخاب پر لگی رہتی ہیں۔ ان انتخابات پر ہر ممالک کے دانش ور اپنی دانش وری کے جوہر دکھاتے ہیں اور حقائق سے ہٹ کر اپنی قوم کو ایسے تجز یے پیش کر کے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ اگر ہمارا امیدوار جیت گیا تو سمجھو تمہارے ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ اور اپنے حکمرانوں اور اس دیس سے امریکا میں بس جانے والوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارا امیدوار تمہارے ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ لیکن ہمارے دانش ور اپنا تجزیہ پیش کر تے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ تمام لوگ اب اس ملک کے نہیں بلکہ امریکا کے شہری ہیں‘ دیگر ممالک کے دانش وروں کی طرح پاکستان کے دانش ور بھی عالمی تناظر کو پسِ پشت ڈال کر ڈیمو کریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کی حمایت میں اس قدر آگے چلے گئے کہ بند گلی میں پھنس گئے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیتا تو پاکستان کی خیر نہیں جبکہ ہیلری کی جیت پاکستان کی ترقی کی ضامن ہوگی وغیرہ وغیرہ لیکن کیا کریں عقل کے اندھوں کو کہ جو پاکستان میں عصبیت اور فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہیں۔ اسلام اور اسلام پسندوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا نے وا لے بھول گئے کہ امریکی بھی گندم کھاتے ہیں۔ ایک کو حریف اور دوسرے کو حلیف بنا کر تجزیہ کرنے والے نہ جانے کس قسم کے جال بُننے میں مصروف تھے کہ سب کے سب ٹرمپ کے بیانات سے خوف زدہ تھے اور دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے کہ ٹرمپ خود ہی اپنی شکست کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
ہمارے دانشوروں کو امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کی اتنی فکر لا حق ہو گئی تھی کہ ’’اگر ٹرمپ جیت گیا تو امریکا میں موجود مسلمانوں کا کیا ہوگا؟‘‘ افسوس جو شخص ابھی امر یکا کا صدر نہیں بنا صرف ایک بیان دیا تھا‘ تو سب پریشان ہو گئے تھے لیکن امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کے دور میں امریکا کے ہا تھوں پوری دنیا میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر یہ دانش ور خا موش تھے‘ کیا یہ قتلِ عام ٹر مپ نے کرایا تھا؟ کیا اسلامی ممالک کو جنگ میں ٹرمپ نے دھکیلا تھا؟ یقیناً نہیں‘ بلکہ ہیلری کلنٹن کی وزارت کے دور میں جس قدر اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کیا گیا اس سے قبل ایسا نہیں ہو اتھا‘ بلکہ ترکی میں بھی بغاوت کی سا زش محترمہ ہیلری کے دور میں ہی ہوئی تھی جسے ترک عوام نے ناکام بنا دیا تھا۔ امر یکا میں مقیم مسلمانوں کا کہنا ہے کہ امریکا میں بسنے والے مسلما نوں کی جاسوسی اور تذلیل اور سیاہ فام باشندوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا وہ ہیلری اور اباما کے دور میں ہی ہوا۔ ہیلری کے چکر میں پھنسے یہ دانش ور عالمِ اسلام کو جنگ زدہ دیکھنے کے بعد بھی گونگے ‘ بہرے اور اندھے بنے رہے کیونکہ ان کو عالم اسلام سے نہیں بلکہ امریکی پالیسیوں اور ہیلری سے محبت تھی۔ جب انہیں اپنی محبت میں ناکامی ہوئی تو اب یہ سر پکڑ کے بیٹھے ہیں ایسا کیسے ہوگیا؟ ہمارے تجزیوں اور دا نش وری پر امریکی عوام نے کیوں توجہ نہیں دی۔ اگر یہ دا نش ور ایک فون کال کسی دوست کو کر لیتے تو حالات کا رُخ کس طرف ہے‘ ا نھیں معلوم ہو جاتا۔
امریکی صدارتی انتخابات سے چار‘ پانچ روز قبل نیو یارک میں مقیم ہماری سالی کا فون آیا تو ہم نے پو چھا ’’کون جیتے گا؟‘‘ کہنے لگیں ’’آپ بتائیں۔۔۔‘‘ ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیا کہ وہ جیت جائے گا۔ پھر سوال آیا کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کیوں جیت جائے گا؟‘‘ تو ہم نے مذاقاً کہا کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستا نیوں سے سیاست سیکھی ہے‘ اختلافات کو ہوا دو‘ پگڑیاں اُچھالو‘ نیشنل ازم اور عصبیت کا نعرہ لگاؤ اور ٹرمپ جس طرح اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ ’’ہاتھی‘‘ جیت جائے گا ۔‘‘ پھر کہا گیا کہ ’’مسلمانوں سے متعلق اس کے نظریات جاننے کے بعد بھی آپ ٹرمپ کی جیت کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا کہ ’’یہ سب الیکشن کی حد تک ہے اس کی جیت کے بعد دنیا میں امن ہوگا کیونکہ وہ کھلا دشمن ہے‘ نادان دوست نہیں جو سامنے کچھ اور پیچھے سے پیٹھ میں خنجر گھونپ دے۔‘‘ کہنے لگیں ’’آپ کے منہ میں گھی شکر نیویارک کے مسلمانوں کی اکثریت بھی ٹرمپ کو ووٹ دے گی کیو نکہ موجودہ حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا اس لیے سب ٹر مپ کے حامی ہیں۔‘‘
امریکی دانش وروں کو بھی خوب اندازہ تھا کہ کون جیت رہا ہے لیکن کہتے ہیں کہ ہاتھی کہ دانت دکھانے کے اور کھا نے کے اور ہو تے ہیں۔ دانش وروں کے سارے اندا زے غلط ثابت ہوگئے ۔۔۔ ان دا نش وروں کو اپنی دانش وری کا عوام پر رُعب تو ڈا لنا تھا لیکن کسی کی دانش ور ی کو خاطر میں لائے بغیر اس دفعہ امریکی عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ گدھے نہیں ہیں اور یوں امریکا میں تجزیوں کے برخلاف بڑی تبدیلی آگئی‘ انتخابات میں کامیابی کے بعد خود ٹرمپ میں جتنی بڑی تبدیلی آئی‘ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں الیکشن لڑ نے کا ڈھنگ آتا ہے اسی لیے انہوں نے اپنی جیت کے بعد پہلے خطاب میں جو کہا بالکل سچ کہا کہ ’’رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر سب کی خد مت کروں گا۔‘‘
یہ تبدیلی تو آنی ہی تھی کیو نکہ الیکشن میں ’’سب چلتا ہے‘‘ اور ٹرمپ نے الیکشن کو الیکشن کے انداز میں لڑا اور جیت گئے۔ دانش وروں کی دا نش وری اور رکھ رکھاؤ کہ ابھی الیکشن ہو رہا ہے‘ یہ نہ کہیں‘ یہ بات نہ کریں کی پا لیسی کو چھو ڑ کر ٹرمپ نے جو دل میں تھا زبان پر لا کر کہہ دیا شا ید یہی ادا امریکیوں کو پسند آئی کہ ٹر مپ سچا آدمی ہے۔
ٹرمپ کی فتح کے بعد کچھ دانش ور اب بھی یہ ثا بت کر نے کی کو شش کر رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اپنے تجزیوں میں امریکا میں ہونے والے مظاہروں کو جواز بنا رہے ہیں ۔ مگر کب تک جواز تلاش کیا جاتا رہے گا‘ یہی دانش ور طبقہ تھا جس نے ترکی میں بغاوت کا ساتھ دیا تھا اور بغاوت کی ناکامی کے بعد بھی تاویلیں پیش کر تے رہے۔ مگر اب کچھ بھی ہو ڈونلڈ ٹرمپ امر یکا کے صدر منتخب ہو چکے ہیں‘ ایک نہ ایک دن یہی دانش ور ٹرمپ کی حمایت میں لکھ رہے ہوں گے بہ قول جماعت اسلامی کے ایک رہنما کے کہ ’’رشین دانش وروں کے عدت کے دن ابھی پورے بھی نہیں ہو ئے تھے کہ انہوں نے امریکا سے نکا ح کر لیا۔‘‘
یہ دانش ور طبقہ پلٹا بھی جلدی کھاتا ہے۔ پاکستان کے دا نش ور بھی کل تک خبر لیکس کے حوالے سے نت نئے انداز میں تبصرے کررہے تھے لیکن جب سے وزیر داخلہ نے کہا کہ خبر لیک نہیں ہوئی بلکہ جھوٹی خبر شا ئع کی گئی ہے‘ اب دیکھیں خبر والے دانش ور کے ساتھ کیا معا ملہ پیش آتا ہے جس نے حکومت سمیت پورے پاکستان کو اپنی دانش وری میں ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس خبر پر ایک ’’قربانی‘‘ بھی دے دی گئی تھی۔ سنا ہے کہ خبر دینے والا د بئی سے امریکا چلا گیا ہے اسی لیے ا مریکا کے نومنتخب صدر ٹرمپ نے اپنی جیت کے خلاف ہو نے والے مظاہروں کو میڈیا کا شاخسانہ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی مظاہرین کو ’’کرائے کے مظاہرین‘‘ کہا ہے یہ بات تو پاکستا نی سیاست کی طرح ہوگئی کہ بلاول نے تحریک انصاف کی لاک ڈاؤن دھرنا تحریک مہم کے حوالے سے سے کہا تھا کہ تمام ٹی وی چینل بند کر دیں‘ دھرنا تحریک ختم ہو جائے گی۔ یعنی ٹرمپ کو بھی معلوم ہے کہ چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو چھو ٹا جلسہ بنا کر پیش کرنا میڈیا اور اس کے دا نش وروں ہی کا کمال ہوتا ہے ۔ بہرحال ہماری امریکا سے دوستی کہیں تو کام آئی کہ ہماری سیاست کے کچھ خدوخال اب امریکا میں بھی دکھائی دے رہے ہیں اس لیے امریکا کے مختلف شہروں میں دھاندلی کے حو الے سے مظاہرے ہو رہے ہیں اور اب ا مریکا میں بھی دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ حکمران پارٹی شکست کے بعد نتائج باآسانی تسلیم نہیں کر رہی کیونکہ دنیا کے تمام دانش ور یہی کہہ رہے تھے کہ ہیلری ہی جیتے گی‘ مگر ’’اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا۔‘‘ شاید اسی لیے ہیلری کلنٹن نے اپنے مخالف کی جیت پر مبارک باد دینے کے لیے چوبیس گھنٹے لگا دیے بالآخر 24 گھنٹے بعد میڈیا کے سامنے آکر ٹرمپ کو ’’مبارک باد‘‘ دی۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا‘ پوری دنیا اور امریکا کا میڈیا ہیلری کے لیے مہم چلا رہا تھا اور خاصا پُر امید تھا کہ ہیلری جیت جائیں گی۔ ’’نیوز ویک‘‘ نے تو ہیلری کے لیے ’’فرسٹ لیڈی پریذیڈنٹ آف امریکا‘‘ کے خصوصی ایڈیشن بھی تیار کر لیا تھا لیکن دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے اپنے ہی ملک کے عوام کی سوچ اور تبدیلی کے خواب کو نہ دیکھ سکے اسی لیے دنیا کے مختلف ممالک میں اَپ سیٹ کرانے والا سپر طاقت ملک ا مریکا میں خود اپ سیٹ ہو گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکیوں نے نیشنل ازم کو ووٹ دے کر لبرل ازم کو شکست دی ہے‘ میڈیا اور دانش وروں نے امریکی عوام کے لیے جو جال بچھایا تھا وہ اُس میں نہیں پھنسے۔ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد لبرل دانش وروں کے ہاں سناٹا تو ہے لیکن ٹرمپ کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔ اندازہ یہی ہے کے ٹرمپ دو تین سال ہی صدارت کی کرسی پر بیٹھ سکیں گے۔’’58/2- B‘‘ امریکا میں بھی استعمال ہو سکتی ہے اس کے لیے ابھی سے دنیا میں امن کے خواب دیکھنے والوں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ یہ کام کیونکر ہو سکتا ہے‘ کیو نکہ اس وقت دنیا میں ہر طرف امن ہی امن ہے اور بہ قول اباما ’’اگر ٹرمپ جیتے تو دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔‘‘ اس لیے امن کے دشمن کو نہیں جیتنا چا ہیے تھا۔ ’’امن کا دشمن‘‘ کون ہے‘ کون نہیں‘ یہ آنے والے حالات سے معلوم ہوجائے گا‘ مگر سندھ کے 14 سال گو رنر رہنے والے عشرت العباد کی سبکدوشی کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا کہ ’’گورنر ہاؤس سے دہشت گردی کی ’’آخری نشانی‘‘ بھی ختم کر دی۔‘‘ پہلے سانپ کو خود دودھ پلاتے رہے اب کریڈٹ لینے کی کو شش کر رہے ہیں۔ بہرحال اب وائٹ ہاؤس سے لے کر سندھ کے گورنر ہاؤس تک رہنے والے دہشت گرد جا رہے ہیں۔
دنیا میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں۔ رشیا ایک بار پھر دنیا پر حکمرانی کے لیے اقدامات کر رہا ہے‘ چین اپنے خول سے باہر نکل ر ہا ہے‘ دنیا میں تبد یلی کی اک نئی لہر اٹھ رہی ہے‘ امریکا سے لے کر ترکی تک عوام کو شعور آچکا ہے‘ اب وہ ان نام نہاد دانش وروں کے چکر سے نکل رہے ہیں لیکن اگر کو ئی سو رہا ہے تو مسلم دنیا کا حکمران طبقہ‘ یہ مسلم حکمران ابھی تک لیفٹ اوررائٹ کے چکر میں پھنسے ہو ئے ہیں‘ اب بھی وقت ہے یہ مسلم حکمران لبرل ازم کے جال سے نکل کر اسلام کے دامنِ رحمت کو اختیار کریں کیو نکہ دنیا میں امن صرف دینِ اسلام ہی قائم کرسکتا ہے۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ کو ترکی نے زندہ کیا ہے اور لبرل ازم سے جان چھڑا کر اسلام کے دامن کو پکڑا ہے تو اللہ نے بھی ان کی مدد کی۔ ترکی میں فوجی بغاوت کو نہیں بلکہ لبرل ازم کو شکست ہوئی۔ ترکی کے صدر پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں فوجی بغاوت‘ لبرل ازم اور اسلام دشمن ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے رجب طیب اردگان کا‘ جس نے اسلامی تشخص کو ترکی میں پھر سے زندہ کیا‘ اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں شاندار استقبال ہونا چاہیے۔ اس ملک کے اسلام پسند ان لبرل ازم کے دا نش وروں کو بتا دیں کہ تم نظریۂ پاکستان، علامہ اقبال اور نسیم حجازی کا کتنا ہی مذاق اُڑاؤ ‘ علامہ اقبال کا نظریہ اور خواب ضرور شرمندۂ تعبیر ہوگا‘ مسلم حکمرانوں میں نہ سہی لیکن امتِ مسلمہ میں بیداری کی لہر سے پاکستان سمیت پوری دنیا کے سکون کو برباد کرنے والے دانشور اورلبرل ازم کے جال بُننے والے خود اپنے ہی جال میں پھنس رہے ہیں یعنی ’’اب جال میں پھنس گیا خود مکڑا۔‘‘