نجیب ایوبی

372

ا13159یرالمومنین سلطان غازی سلیم خان ثالث نے اپریل 1789 عیسوی میں عثمانی سلطنت کے اٹھائیسویں سلطان اور بیسویں خلیفہ کی حیثیت سے مسندِ خلافت سنبھالی اور 28 جون 1807 عیسوی میں خلافت سے معزول کردیے گئے۔ خلافت کے منصب پر بیٹھتے وقت سلطان سلیم خان کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ سلطان غازی سلیم خان ثالث کی مدتِ خلافت 19 سال رہی۔ معزولی کے وقت سلطان سلیم خان ثالث کی عمر 48 سال تھی۔
اس وقت عثمانی سلطنت کو دو بہت بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ پہلا مسئلہ سلطنت کا یورپی محاذ تھا جہاں مسلسل سرحدی جھڑپیں جاری تھیں۔ دوسری مشکل صورت حال یہ تھی کہ خزانہ خالی ہوتا جارہا تھا۔
سلطان سلیم نے سب سے پہلی توجہ فوج اور اس کے انتظام و انصرام پر مرتکز کی۔ سلطنت میں اسلحہ کے کارخانے قائم کیے تاکہ جنگی ضروریات میں خودکفیل ہوا جا سکے۔ اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہنرمند افراد کو روزگار فراہم ہوا اور دوسری جانب غیر ملکی اسلحہ کی خریداری پر جو اخراجات آرہے تھے ان کی بھی بچت ہوگئی۔ اسلحہ اور دیگر فوجی ساز و سامان کی آسان ترسیل کے لیے مواصلات کے نظام میں بہتری پیدا کی جس کا نتیجہ اچھی شاہراہوں کی تعمیر کی صورت میں نکلا۔
لیکن مایوس کن صورت حال یہ رہی کہ کرائے کی فوج اور پیشہ ور افواج میں سازشی عناصر نے حد درجہ مایوسی پیدا کردی تھی جس کے نتیجے میں فوجی کیمپ چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے۔ داخلی محاذ پر فوج میں بددلی پھیلانے کے بعد سازش کا سرغنہ روس مزید متحرک ہوگیا اور اس نے آسٹریا کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ اس اتحاد کا فائدہ اٹھاکر آسٹریا کی فوجوں نے مفتوحہ عثمانی علاقے بلغراد پر چڑھائی کردی اور بلغراد پر قبضہ کرلیا۔
عثمانی افواج نے پسپائی کے فوراً بعد بھرپور جوابی حملہ کیا اور بلغراد کو آزاد کروا لیا۔ روس اور آسٹریا کی فوجوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 1791 عیسوی میں امن معاہدہ ہوا جس کے مطابق آسٹریا کے بہت بڑے علاقے اور بلغراد پر عثمانی قبضے کو تسلیم کیا گیا۔ عثمانی سلطنت یورپ کے بہت بڑے علاقے پر اپنی بالادستی قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔
1798 عیسوی میں فرانس کے نپولین بونا پارٹ نے بغیر اعلان کے، بلکہ اپنے انگریز حلیفوں سے بھی مخفی رکھتے ہوئے جزیرہ مالٹا پر فرانسیسی فوجیں اتار دیں اور اسکندریہ (مصر) تک اپنی افواج لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں جنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ خلیفہ کے حکم سے تجارتی راہداریوں کا جائزہ لینے آیا ہوں۔ یہاں تک کہ وہ جامعہ ازہر (قاہرہ) پہنچ کر شیخ الازہر عبداللہ شرقاوی سے ملاقات کرتا ہے اور ان کو اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتا ہے، اور قسمیں کھاکر اس بات کا یقین دلانے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ وہ امیرالمومنین کی اجازت سے اس لیے یہاں آیا ہے کہ ہندوستان سے انگریزوں کا عمل دخل ختم کردے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فوجی مداخلت کی کسی بھی جگہ کوئی قابلِ ذکر مزاحمت نہیں ہوئی، ماسوائے مالٹا کے، جہاں قدیس حنا اور شلیمی کے مسلح راہبوں نے اس کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی، یا پھر اسکندریہ (مصر) میں مراد بیگ کی مٹھی بھر وفادار فوج نے مزاحمت دکھائی۔ جب خلیفہ کو ان حالات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنی تازہ دم افواج کو کارروائی کا اشارہ دیتے ہوئے مصر روانگی کا حکم دیا۔
یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں سلطنتِ میسور میں حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان انگریزوں کے مقابل تھا۔ انگریزوں کو نپولین سے خطرہ تھا کہ اگر اس نے عثمانیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں کا بوریا بوریا بستر گول ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ اس حقیقی خطرے کو بھانپتے ہوئے برطانیہ نے نپولین کو مصر سے نکالنے کی مہم میں عثمانیوں کا ساتھ دیا۔ دوسری طرف نپولین نے مصر میں قبضہ مستحکم رکھنے کے لیے شام پر بھی چڑھائی کردی اور خاصی حد تک قبضہ بھی کرلیا۔ یکم اگست 1798 عیسوی کو جوابی کارروائی میں برطانوی امیرالبحر نیلسن نے نپولین بونا پارٹ کی بحریہ پر شدید حملہ کرکے اس کو تہس نہس کردیا۔
دوسری جانب دولتِ عثمانیہ نے فرانس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے مصر کو آزاد کروانے کا فیصلہ کیا اور فرانسیسی افواج کو شکست سے دوچار کیا۔ اور پھر معجزاتی طور پر یا سفارتی جادوگری کے تحت نپولین محفوظ طریقے سے اسکندریہ سے فرار ہوکر فرانس جا پہنچا۔ البتہ مصر میں اس کے نائب موسیو کلیبر کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا، اور اس طرح مصر ایک بار پھر دولتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔
اس فتح کے بعد بھی روس اور آسٹریا سے عثمانیوں کی جنگیں جاری رہیں۔ مگر عجب صورت حال اُس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ نے عملاً روس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور عثمانی سلطنت کا دشمن بن بیٹھا۔ اور پھر روس کے ساتھ مل کر اپنی فوجوں کو درہ دانیال پر اتار دیا، اور اس طرح درہ دانیال مشترکہ طور پر روس اور برطانیہ کی عمل داری میں آگیا۔
اسی زمانے میں مشہور انگریز جنرل مسلمان ہوا جس کا اسلامی نام مصطفی رکھا گیا، اور بعد میں اس نے بہت گرانقدر فوجی کارنامے سرانجام دیے، جس پر اسے کئی فوجی اعزازات اور شاہی القاب عطا کے گئے۔
سلطان سلیم خان کا دور ترکی اور عثمانی سلطنت کا اہم دور کہا جاسکتا ہے جس میں عثمانیوں نے روایتی حربی ذرائع پر انحصار کرنے کے بجائے جدید فوجی نظام وضع کیا اور فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پہلی شعوری کوشش کی۔
سلطان سلیم خان ثالث کے دور میں ہونے والی عسکری اصلاحات کی بدولت یورپی خطوط پر افواج کو جدید تر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے گئے۔ فرانسیسی کاریگروں اور فنی مہارت رکھنے والے انجینئروں اور توپچیوں کی مدد سے توپ ڈھالنے کے جدید طرز کے کارخانے قائم کیے گئے۔ جاگیرداری نظام، جو اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھا، اس کو ختم کرنے کا فرمان جاری کیا گیا۔ کسانوں کو ترغیبات دے کر کاشت کاری پر آمادہ کیا گیا۔
ان اقدامات کی عثمانی سلطنت کے مذہبی اور پرانے خیالات کے ینی چری دستوں نے کھل کر مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں شاہی فوج ینگ چری نے بغاوت بھی کی۔ شیخ الاسلام اسعد آفندی عثمانی سلطنت میں کی جانے والی اصلاحات کے پُرزور حامی تھے، لیکن 1807ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو نئے شیخ الاسلام عطاء اللہ آفندی نے جو شاہی فوج ینگ چری کے زیراثر تھے، مذہب کے نام پر ان اصلاحات کی مخالفت کی اور جدید یورپی طرز کی فوجوں کی تنظیم کو بے دینی سے تعبیر کیا۔ ان کا اعتراض جدید فوجی وردیوں پر بھی تھا۔ وہ ان وردیوں کو بھی ہنود و نصاریٰ کی نشانی سے تشبیہ دیتے تھے، یہاں تک کہ بندوق کے آگے سنگین کے استعمال کی بھی اس لیے مخالفت کی گئی کہ کافروں کے اسلحہ سے مشابہ تھی، اس لیے اس کا استعمال ان کے نزدیک گناہ تھا۔ سلطان سلیم کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ کفار کے طریقے رائج کرکے اسلام کو خراب کررہا ہے۔ عطاء اللہ آفندی نے فتویٰ دیا کہ ایسا بادشاہ جو قرآن کے خلاف عمل کرتا ہو بادشاہی کے لائق نہیں۔ آخرکار 1807ء میں سلیم کو معزول کرکے قتل کردیا گیا۔
روس کی ریشہ دوانیاں بڑھتی جارہی تھیں۔ اصلاحات کے خلاف مذہبی اور صوفیوں کی تحریکِ مزاحمت میں تشدد کا عنصر پیدا کرنے کے بعد شاہی فوج کی مسلح بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں سلطان سلیم کو معزول کیا گیا اور ایک سال بعد ہی سلطان سلیم خان پراسرار انداز میں اپنے کمرے میں مُردہ پائے گئے، جس کے بعد یہ مشہور کروایا گیا کہ ان کو سلطان مصطفی رابع کے ایماء پر قتل کروایا گیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ سلطان سلیم خان ثالث ہنگامے سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ یہ خبر سلطان مصطفی رابع سے بدگمان کرنے کی خاطر پھیلائی گئی تھی۔
سلطان سلیم خان ثالث کی معزولی کے بعد 1807عیسوی میں غازی سلطان مصطفی خان بن سلطان عبدالحمید اول تخت نشین ہوئے، اور صرف تیرہ ماہ اس منصب پر رہنے کے بعد 1808عیسوی میں معزول کردیے گئے۔ سلطان مصطفی خان نے یورپ کے محاذ پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کی، مگر فوج کی اندرونی بغاوت کے آگے کچھ نہ کرپائے۔ باغی فوج جس نے سلطان سلیم کی معزولی کے بعد سلطان مصطفی کو تخت پر براجمان کروایا تھا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ جو اصلاحات معزول سلطان نے جاری کروائی ہیں ان کا حکم منسوخ کرکے نیا فرمان جاری کیا جائے۔ مگر سلطان مصطفی کی جانب سے اس دباؤ کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اور وہ اپنے پیشرو سلطان سلیم ثالث کی اصلاحات کو آگے بڑھانے پر لگے رہے۔ باغی افواج نے اپنے مطالبات کو رد ہوتے دیکھ کر سلطان سرائے کا گھیراؤ کرلیا اور سلطان مصطفی خان کو گھر میں داخل ہوکر تخت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ معزولی کے کچھ دنوں بعد اکتوبر 1808عیسوی میں ان کو ان کی خواب گاہ میں قتل کردیا گیا۔ جس دن سلطان مصطفی خان رابع کو معزول کیا گیا، باغی افواج نے سلطان محمود خان ثانی کو تخت سنبھالنے کا حکم دیا۔ سلطان محمود ثانی نے حسب روایت جلوس کی صورت میں فصیل قسطنطنیہ میں مدفون صحابئ رسول حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری دی، نمازِ شکرانہ ادا کی اور دعا فرمائی اور منصبِ خلافت کا حلف اٹھایا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انھوں نے باغی افواج کے خلاف کسی بھی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، اور دو ہفتوں کی طویل فوجی مشاورت کے بعد برقدار مصطفی پاشا کو وزیراعظم مقرر کرنے کا اعلان کیا، اور پھر ایک فرمان کے ذریعے جدید اصلاحات کو روکنے اور سلمان قانونی کے دور کے سابقہ نظام کو رائج کرنے کا اعلان کیا گیا۔
عثمانی سلطنت نازک ترین دور سے گزر رہی تھی، ان حالات میں سلطان محمود نے حکمت و فراست کے ساتھ نہایت پیچیدہ معاملات کو خوش اسلوبی سے چلایا اور اندرونی خلفشار کو ٹھنڈا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے باوجود انکشاری فوجی (کرائے کے فوجی) اُن سے شاکی ہی رہے۔ اخلاقیات سے عاری ان کرائے کے فوجیوں کے نزدیک اگر کوئی شے قابلِ احترام تھی تو وہ صرف اور صرف شاہی القابات اور اس کے بدل میں شاہی وظائف تھے۔ ان میں اگر کوئی اچھی صفت باقی بچی تھی تو وہ تھی شجاعت، جس کا وہ جائز، ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے تھے۔ سلطان محمود کا ایک اچھا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کرائے کی فوج کو یورپ کے محاذ پر بہت خوبی کے ساتھ استعمال کیا اور متعدد مواقع پر اپنے عوام کو ان کے غضب سے دور رکھا۔
سلطان محمود کے عہد کے مشہور واقعات میں نپولین کا مصر پر قبضہ اور پھر نپولین کی شام میں درندگی و مظالم، اس کے بعد نپولین کا مصر سے نکل جانا اور مصر کی ایک بار پھر فتح، مصر میں نجدیوں کی وہابی تحریک سے مقابلہ، خلیفہ کے خلاف مصر کی بغاوت، 1839 عیسوی میں عثمانیوں کا مصریوں کے خلاف جنگ نصبین میں شکست سے دوچار ہونا شامل ہے۔ جنگ نصبین کی شکست کے بعد 2 جولائی 1839 عیسوی کو چند دن بیمار رہ کر سلطان محمود خان اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ سلطان محمود کا دورِ خلافت 31 سال 10 مہینے رہا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے غازی سلطان عبدالحمید اول ان کے جانشین قرار پائے۔
(جاری ہے )

حصہ