صدارتی انتخاب

232

امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر امریکہ کیا، پوری دنیا کے لوگ ششدر رہ گئے ہیں۔ دنیا کو توقع تھی کہ ہیلری کلنٹن کی فتح ہوگی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کیے مگر امریکہ کے انتخابات میں اصل اہمیت پاپولر ووٹ کی نہیں، الیکٹورل کالج کی ہے۔ اس میدان میں ڈونلڈ ٹرمپ فاتح رہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو ہیلری کلنٹن کی فتح اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامی کا یقین کیوں تھا؟ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ امریکہ کے ذرائع ابلاغ اور رائے عامہ کے جائزے ہیلری کی فتح اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کا اعلان کررہے تھے۔ ہیلری اور ٹرمپ کے درمیان تین مباحثے ہوئے اور تینوں مباحثوں میں ہیلری کی فتح کا اعلان کیا گیا۔ چنانچہ امریکیوں ہی کو نہیں باقی دنیا کے لوگوں کو بھی یہی محسوس ہوا تھا کہ فتح ہیلری کی ہوگی۔ لیکن مسئلہ صرف ذرائع ابلاغ اور رائے عامہ کے جائزوں کا نہیں، انسان بعض اوقات تجزیے سے زیادہ خواہشات کا اسیر ہوجاتا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج سے متعلق توقعات کے ضمن میں بھی یہی ہوا۔ ہیلری کی فتح اور ٹرمپ کی شکست تجزیے سے زیادہ لوگوں کی خواہش تھی۔ اور اس کی وجہ تھی۔ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کررہے تھے، چنانچہ مسلمان اُن کے خلاف تھے۔ ٹرمپ تجارت کے دائرے میں چین کو للکار رہے تھے اور چینی اُن کو شکست کھاتے دیکھنا چاہ رہے تھے۔ ٹرمپ عورتوں کے خلاف رواں تھے اور عام خیال تھا کہ امریکہ کی عورتوں کی اکثریت ٹرمپ کو ووٹ نہیں دے گی۔ ٹرمپ سیاہ فاموں کے سلسلے میں سفید فاموں کے روایتی مؤقف کی عَلم برداری کررہے تھے اور لوگ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ کے سیاہ فام انھیں ناپسند کرنے کی وجہ سے ووٹ نہیں دیں گے۔ ٹرمپ کے اسکینڈلوں کی ’’بہار‘‘ اس کے علاوہ تھی۔ یہاں تک کہ ہالی ووڈ کے اداکار، اداکارائیں، اور امریکہ کے گلوکار اور گلوکارائیں بھی ٹرمپ کے خلاف صف آراء تھے۔ مذکورہ صورت حال یہ ’’تاثر‘‘ پیدا کرنے کے لیے کافی تھی کہ ہیلری کلنٹن فتح کے جھنڈے گاڑنے والی ہیں اور ٹرمپ کے منہ پر شکست کی سیاہی مَلی جانے والی ہے۔ لیکن جو کچھ ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہیلری کی شکست اور ٹرمپ کی فتح کا مفہوم کیا ہے؟
ایک فقرے میں اس سوال کا جواب دیا جائے تو کہا جائے گا: امریکہ کے صدارتی انتخابات میں امریکہ کا باطن جیت گیا اور امریکہ کے ظاہر کو شکست ہوگئی۔ تو کیا ٹرمپ امریکہ کا باطن اور ہیلری کلنٹن امریکہ کا ظاہر ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟
اقبال نے کہا ہے؂
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
لیکن یہ مسئلہ مغرب کی صرف جمہوریت تک محدود نہیں۔ مغرب آزادی چاہتا ہے مگر صرف اپنے لیے۔ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے لیے اسے غلامی پسند ہے۔ مغرب جمہوریت چاہتا ہے مگر صرف اپنے لیے۔ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے لیے اسے آمریت ہی بھاتی ہے۔ مغرب مساوات چاہتا ہے مگر اپنے لیے۔ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے لیے اسے عدم مساوات ہی عزیز ہے۔ مغرب علم چاہتا ہے مگر صرف اپنے لیے۔ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے لیے اسے جہل ہی بھلا محسوس ہوتا ہے۔ مغرب ترقی چاہتا ہے مگر صرف اپنے لیے۔ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے لیے اسے پسماندگی ہی درکار ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کا باطن کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور۔ مغرب نے جب 18 ویں صدی میں نوآبادیاتی دور کی ابتدا کی تو یہ زمانہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں مغرب انسان کی عظمت کے گن گا رہا تھا۔ آزادی کے ترانے مغرب کے لبوں پر رقصاں تھے۔ اس اعتبار سے مغرب کو اپنی حدود میں رہ کر اپنے مثالیوں یا Ideals کا تحفظ کرنا چاہیے تھا، مگر ایک دو نہیں چھ سات یورپی اقوام دنیا پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ کہیں ’’عظیم برطانیہ‘‘ کا پرچم بلند ہوا، کہیں فرانسیسیوں نے اپنی تہذیب کا جھنڈا گاڑا، کہیں اطالوی غاصب قرار پائے، کہیں جرمنوں اور ولندیزیوں نے دوسری اقوام کو اپنا غلام بنایا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کی نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی مغرب کا ظاہر تھی اور نوآبادیاتی تجربہ مغرب کا باطن۔ مغرب کے باطن اور ظاہر کا یہ سلسلہ اور یہ تضاد نوآبادیاتی تجربے تک محدود نہ رہا۔ مغربی اقوام نے بیسویں صدی کے ابتدائی نصف حصے میں دو عالمی جنگیں ایجاد کرلیں۔ ایک طرف مغرب کی انسان مرکز کائنات تھی اور یہ مغرب کا ظاہر تھا، دوسری جانب دو ہولناک عالمی جنگیں تھیں، یہ مغرب کا باطن تھا۔ یہ باطن آٹھ دس کروڑ لوگوں کو نگل گیا مگر اس سے مغرب کے ظاہر کی حرمت پر کوئی آنچ نہ آئی۔ مغرب دو عالمی جنگیں ایجاد کرنے کے باوجود مہذب، روشن خیال اور انسان کی عظمت کا عَلم بردار رہا۔ یہی کہانی امریکہ کے جغرافیے میں دہرائی گئی۔ امریکہ کے سفید فام قابضین نے امریکہ پر قبضے کی جنگ میں امریکہ کے اصل مالکوں یعنی ریڈ انڈینز کے دو کروڑ افراد مار ڈالے۔ اس کے باوجود بھی امریکہ آزادی کی علامت ہے۔ جمہوریت کا استعارہ ہے۔ انسانی حقوق کا پاسدار ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ کے باطن کا شعور امریکیوں کو فراہم ہی نہیں۔ امریکہ کی ممتاز دانشور آنجہانی سوسن سونٹیگ نے اپنے ایک مضمون میں اس امر کا اعتراف کیا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کُشی پر رکھی ہوئی ہے۔ اس پر امریکہ کے ذرائع ابلاغ نے سوسن سونٹیگ کو ’’غدار‘‘ قرار دے کر اُن کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ امریکہ کے ممتاز دانشور نوم چومسکی کئی بار امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست قرار دے چکے ہیں۔ یہ لوگ امریکہ کے باطن پر مطلع لوگ ہیں، مگر ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہیلری کلنٹن امریکہ کا ظاہر ہیں، اس کا چہرہ ہیں، اس کا عام تعارف ہیں۔ چنانچہ وہ “Diplomatic” ہیں۔ وہ دل کی بات کبھی زبان پر نہیں لاتیں۔ انھیں بھی اسلام اور مسلمان زہر لگتے ہیں مگر وہ کبھی اس بات کا اعلان کرتے ہوئے نہیں پائی گئیں۔ ہیلری کلنٹن کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کا معاملہ یہ ہے کہ جو امریکہ کے لوگوں کی اکثریت محسوس کرتی ہے اُس کو زبان دیتے ہیں۔ امریکہ کے لوگوں کی اکثریت مسلمانوں کو اپنے درمیان نہیں دیکھنا چاہتی، چنانچہ ٹرمپ امریکہ کے دروازے مسلمانوں پر بند کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے لوگوں کی اکثریت چین کی معاشی طاقت سے خوف زدہ ہے، چنانچہ ٹرمپ اعلان کرتے ہیں کہ وہ چین سے آنے والی درآمدات پر ڈیوٹی کو 15 سے بڑھا کر 35 فیصد کردیں گے۔ امریکہ کے عوام کی اکثریت میکسیکو کے باشندوں کو حقیر خیال کرتی ہے، چنانچہ ٹرمپ کھل کر انھیں جرائم پیشہ، یہاں تک کہ Rapist کہتے ہیں۔ امریکہ کے لوگوں کی اکثریت یورپ کے تحفظ پر خرچ ہونے والی رقم کو اپنی جیبوں پر ناروا بوجھ سمجھتی ہے، چنانچہ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ یورپ اب اپنے تحفظ کا بوجھ خود اٹھائے۔ امریکہ کے لوگوں کی اکثریت بھارتی باشندوں کو اپنی نوکریاں چھیننے والا باور کرتی ہے، چنانچہ ٹرمپ بھارت کو اپنا اتحادی قرار دینے کے باوجود امریکہ کے روزگار پر امریکہ کے لوگوں کا حق جتاتے ہیں۔
ظاہر اور باطن کا یہ مسئلہ صرف امریکہ تک محدود نہیں۔ یورپی ممالک بھی اس مسئلے کا اشتہار بنے ہوئے ہیں۔ ایک جانب یورپی ممالک آزادی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور وہاں ’’ننگوں کے کلب‘‘ اور ’’ننگوں کے ساحل‘‘ بھی موجود ہیں، مگر جو اقوام آزادی کی اس انتہا پر جا چکی ہیں وہ مسلم خواتین کو برقع کیا اسکارف تک اوڑھنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ یہاں تک کہ انھیں مساجد اور ان کے بلند مینار بنانے پر بھی اعتراض ہے۔ یورپی اقوام انسانی حقوق کی چیمپئن ہیں مگر اس کے باوجود جرمنی کے سوا تمام یورپی ملکوں نے شام کے خانماں برباد پناہ گزینوں کو اپنے یہاں آباد کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یورپی ملکوں میں ہیلری اور ٹرمپ کی کشمکش تیزی کے ساتھ نمایاں ہورہی ہے۔ یورپی ممالک کی ہیلریز پسپا ہورہی ہیں اور یورپی ممالک کے ٹرمپ تیزی کے ساتھ مقبول ہورہے ہیں۔ چنانچہ وہ دن دور نہیں جب تمام یا اکثر یورپی ممالک میں دائیں بازو کے اُن انتہا پسندوں کا غلبہ ہوگا جو یورپ کا باطن ہیں۔
مغربی ممالک کہتے ہیں کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے، مگر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اس عالمی گاؤں میں نہ مسلمانوں کو قبول کیا جائے گا اور نہ میکسیکو کے لوگوں کو۔ مغربی دنیا کہتی ہے کہ وہ آزاد تجارت کی قائل ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ہم چین کو اپنی منڈی پر چھا جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب یہ باتیں اُس وقت کررہا ہے جب وہ ہر طرف غالب ہے۔ اگر دو صدیوں کے غلبے کے باوجود مغرب کی کمزوری کا یہ عالم ہے تو پھر اُس وقت مغرب کا کیا حال ہوگا جب دنیا اُس کے ہاتھ سے نکل جائے گی! مغرب کا المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں یا چین کے خلاف ہے، بلکہ مغرب کا اصل المیہ یہ ہے کہ مغرب نے خود اپنے مثالیوں یا Ideals یعنی آزادی، جمہوریت، مساوات اور آزادانہ تجارت کو بے توقیر کردیا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ہیلری کے حامی کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ ہمارے صدر نہیں ہیں۔ اپنی اصل میں یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں۔ امریکہ کے بہت سے لوگوں کے سامنے اچانک امریکہ کا بھیانک، سطحی، رکیک اور غیر عقلی باطن آکر کھڑا ہو گیا ہے، اور انھیں اپنے اس باطن کو قبول کرنے میں تکلیف ہورہی ہے چنانچہ وہ کہہ رہے ہیں: یہ ہم نہیں ہیں۔ یہ ہم نہیں ہیں۔
nn

حصہ