ملک کی موجودہ صورت حال میں نوجوانوں کی قیادت ناگزیر بھی ہوچکی ہے اور فائدے سے خالی بھی قرار نہیں دی جاسکتی۔ نوجوان کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔ نوجوان نسل کے ہاتھوں میں قیادت سے ملک نہ صرف تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا بلکہ موجودہ حالات میں کچھ غلطیوں کا بھی ازالہ ممکن ہوپائے گا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر موجود گروپ رائٹرز کلب کے تحت ’’پاکستانی قومی اقدار کی حفاظت اور فروغ میں نوجوانوں کا کردار‘‘ کے نام سے ایک سروے کیا گیا۔ سروے میں تعلیم، صحت، صحافت سمیت دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی آراء قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔
ارم فاطمہ(لاہور)
آج کے نوجوان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی شناخت اور پہچان پاکستان سے ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہوں انہیں اپنے قول اور عمل سے ایک اسلامی مملکت کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے ملک کے لیے فخر کا باعث بننا چاہیے، کیونکہ ہماری پہچان پاکستان ہے۔ اپنی تہذیب اور ثقافت کے رنگ کو اپنے لباس، زبان اور اپنے کردار سے اقوام عالم میں پیش کریں، خود بھی اپنے وصف کو پہچانیں اور پاکستان کی پہچان بنیں۔
عدیلہ سلیم (بورے والہ)
(1) نوجوان جس طرح اپنے گھر کی حفاظت کرتے ہیں، گھر کو چوری، ڈکیتی سے محفوظ کرتے ہیں، اسی طرح پاکستان کے لیے جدوجہد کریں۔ دیکھیں کہ اردگرد کوئی اجنبی انسان ہے تو اس پر توجہ مرکوز کریں۔ (2) جس طرح آپ گھر کو کوڑا کرکٹ سے محفوظ رکھتے ہیں، اسی طرح اپنے ملک میں آپ جہاں بھی جائیں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ اپنی جانب سے اس جگہ کو بھی صاف رکھیں گے۔(3) جس طرح آپ اپنے بچوں، بڑوں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح ہمسایوں، غریبوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ (4) نوجوان نسل اگر پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرے تو ہمارا ملک ہر مسائل سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ بس بات توجہ مرکوز کرنے کی ہے کہ پاکستان کو بھی اپنا گھر سمجھیں۔ پاکستان میں امن کی کنجی پاکستان کی نوجوان نسل کی جانب سے اصولوں اور ضوابط پر عمل کرنا ہے۔ (5) پاکستان میں موجود لوگ اگر کہیں حادثہ دیکھیں تو مدد کے لیے آگے بڑھیں،کیونکہ بعض اوقات اپنوں کا پیارا آپ کی مدد نہ ملنے پر ان سے جدا ہوجاتا ہے۔ (6) اگر آج آپ خود کو بدلیں گے تو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ ابتدا دوسروں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے کریں، آپ کو دیکھ کر بہت سے دوسرے لوگ آپ کی مدد کو بھی آگے بڑھیں گے اور آپ کی دیکھا دیکھی باقی لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔ پاکستان بیش بہا قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ پاکستان کی قدر کریں۔ ’’آزادی‘‘ لفظ سمجھنے کے لیے بہت سی باتیں ذہن نشین کرنا پڑتی ہیں تب جاکر سمجھ میں آتا ہے کہ کتنے لوگوں نے اس وطن عزیز کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اپنے ملک کی قدر کریں اور آگے بڑھیں نئی سوچ، نئی امنگ کے ساتھ۔ اس بات پر یقین رکھیں کہ آپ کے اچھے کام کی طرف اٹھے قدم کبھی بھی ناکامی کا باعث نہیں بنیں گے۔
ناہید اختر بلوچ (ڈیرہ اسماعیل خان)
کسی ملک کی ثقافت، سماجی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت اس ملک کے نوجوانوں کا فرضِ اوّلین ہے، کیونکہ نوجوان ہی کسی ملک کی باگ ڈور سنبھالتے اور اس کے ورثے اور ثقافتی اقدار کے محافظ اور امین ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوان بھی کسی سے کم نہیں ہیں، اور یہ اپنی اقدار کی حفاظت اور اس کے احیاء کی اہمیت سے بخوبی واقف و آگاہ ہیں۔ پاکستانی نوجوان چاہے کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اپنے خداداد ٹیلنٹ سے اپنے وطن کا نام روشن کررہے ہیں۔ پاکستانی نوجوان دورِ جدید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ثقافتی، سماجی، مذہبی اقدار کی حفاظت میں بھی پیش پیش ہیں۔ آج کا نوجوان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی دھرتی اور مٹی سے جڑی روایات کی پاسداری کتنا اہم فریضہ ہے۔ صورت حال اتنی مایوس کن نہیں ہے جتنی کہ زیبِ داستاں کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے۔ بلاشبہ ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے، مگر جو کچھ کیا جا چکا ہے اسے سراہنا بھی ازحد ضروری ہے۔ بزرگوں کا اس سلسلے میں کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انہیں اپنے تجربات کی روشنی میں نئی نسل کی نئے راستوں کی طرف راہنمائی کرنی چاہیے۔ صرف تنقید اور نکتہ چینی کے بجائے مثبت رویّے سے نئی نسل کی تربیت کرنا ہم سب کا فرض ہے اور اسی طرح مل جل کر اتحاد سے اپنی ثقافتی اقدار کی حفاظت ممکن ہے۔
ثناء واجد (فیصل آباد)
آج کی نوجوان نسل کو اپنی قومی اقدار کی حفاظت کے لیے شعور کی ضرورت ہے، اور وہ شعور تعلیم سے اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تعلیم پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، کیونکہ تعلیم ہی ہے جو عقل و فہم کے در کھولتی ہے۔۔۔ محنت، لگن اور ہمت پر انسان کو اکساتی ہے، تعلیم کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح تعلیم اعتماد پیدا کرتی ہے اور بات چیت کا سلیقہ پیدا کرتی ہے۔ اگر آج کی نسل صحیح اور غلط کا فرق کرتے ہوئے اپنی عقل و فہم کو بروئے کار لائے تو یقیناًاپنی اسلامی اور قومی اقدار کی حفاظت بھی کرسکتی ہے اور اس کے فروغ کے لیے اہم کردار بھی ادا کرسکتی ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں کسی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، کمی ہے تو بس وسائل کی۔۔۔ اور یہ امر حکومتی سطح پر توجہ کا طالب ہے۔ اگر حکومتی سطح پر توجہ دی جائے تو بے شک آج کی نوجوان نسل کو قومی، اخلاقی اور دینی اقدار کی حفاظت اور فروغ سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آسیہ شاہین
پاکستانی اقدار کی حفاظت اور فروغ کا مرحلہ تو بعد میں آتا ہے۔ اس سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ ان اقدار کو نوجوان نسل سمجھے اور ان پر عمل پیرا ہو۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ نوجوان نسل تو اقدار کے نام تک سے ناآشنا ہے۔انگریزی نظام تعلیم نے ہمیں ان اقدار سے دور کردیا ہے۔
کہکشاں صابر (فیصل آباد)
قومی اقدار کے حصول کی پہلی کڑی اخلاقی اقدار ہے۔ ایک انسان کا اخلاق اچھا ہوگا تبھی وہ قومی اقدار بھرپور طریقے سے اپنا سکتا ہے۔ کیونکہ قومی اقدار کی پہلی سیڑھی ہی اخلاقی اقدار ہے۔ اخلاق کا ہر خوبصورت پہلو ہم لوگ اپنے اندر چھپا کر رکھتے ہیں۔ ہم لوگ ہمدرد دل تو رکھتے ہیں لیکن ہمدردی کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم لوگ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کی حدیث سے تو واقف ہیں لیکن ہم ہاتھ باندھ کر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ اگر یہ حکومت کا کام ہے تو پھر شاید یہ ملک، ہمارا پیارا پاکستان، ہمارے بزرگوں کی قربانیاں بھی حکومت کے لیے ہی ہوں گی۔ آج کے نوجوان، پاکستان کے نوجوان جو ہر جگہ سب سے آگے ہیں، ہر قدم مثبت ہے، پھر ہم اپنی ترقی کو قوم کی ترقی سے الگ کیوں سمجھتے ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے بھی اپنے سماجی، ثقافتی رسم ورواج کے لیے اپنے خون کی قربانیاں دی تھیں، ہمیں تو صرف اس کی حفاظت کرنی ہے۔ ہمیں اپنی آنکھیں اور کان کھول کر اپنے اندر تہوں میں دبے اخلاق کو قومی اقدار کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔کیونکہ کچھ پتھر رگڑ کھانے کے بعد قیمتی ہیرا بن جاتے ہیں اور ہمارے پاکستان کے نوجوان بھی وہی ہیرے ہیں۔