(خواتین (قانۃ رابعہ

333

ایک تھی زارا۔۔۔گناہوں کی پوٹ!!
یہ تو میں اور آپ اسے گناہوں کی پوٹ کہتے ہیں، وگرنہ اس بے چاری کو تو گناہ اور ثواب کا پتا ہی نہ تھا۔ وہ تو ماہی منڈا ٹائپ کی لڑکی تھی جو بھائیوں اور بھائیوں کے دوستوں کے ساتھ دیواریں پھلانگتے، درختوں پر چڑھتے، پتنگیں اڑاتے، کودتے پھلانگتے، کدکڑے لگاتی بچپنے سے لڑکپن میں داخل ہوئی۔۔۔ لڑکوں کا کون سا کھیل اور کون سا داؤ پیچ تھا جو اسے نہ آتا ہو!!
لڑکیاں تو لڑکیاں، لڑکے بھی اُس سے بدکتے اور رعب کھاتے تھے۔ وہ تو۔۔۔ انہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں کہتی تھی، بس جوڈو کراٹے کی بیلٹ نے اسے گھونسا لگانے، پیچھے ’’گدی‘‘ سے پکڑنے کے فن میں طاق کردیا تھا۔
ابا تھے نہیں اور اماں دن رات اس کے کارنامے سن کر چیختی چلاّتیں۔۔۔ کبھی گود میں سر لے کر بالوں کو سہلاتے انگلیاں پھیرتے ’’میری نازک نازک پروں والی تتلی، میری معصوم مینا، میرے پیارے آبگینے‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ لڑکیوں کی عزت، حرمت، عفت، عصمت، آبرو کا مفہوم سمجھاتیں۔ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے (ماں کے لیے بیٹی کو یہ سمجھانا کتنا مشکل ہے!) اس پر واضح کرتیں کہ عورت کا اصل مقام، اس کا محافظ اس کا ’’گھر‘‘ ہوتا ہے۔۔۔ مجھے دکھ مت دیا کرو، جب تمہارے گھر میں پہنچنے سے پہلے شکایات کا ایک انبار میرے پاس پہنچتا ہے تمہارے متعلق۔۔۔
طول طویل تمہید سے بھی اس کے کانوں پر جوں نہ رینگتی، وہ چٹاخ پٹاخ جواب دیتی ’’عورت کا مقام گھر ہے اور جب میں ’’عورت‘‘ بن جاؤں گی، پھر ’’گھر‘‘ بھی لے لوں گی۔‘‘
اس کے جواب اور چاروں بھائیوں کا ماں کے سامنے ’’آہنی دیوار‘‘ بن کر کھڑے ہونا اور ایک ہی جملے میں ماں کو یہ جواب دینا ماں کو سلگا جاتا کہ
’’اماں! ایک ہی تو بہن ہے ہماری۔۔۔‘‘
اماں کرارا جواب دیتیں ’’تو بہن رہا کرے، ’’بہنوئی‘‘ نہ بنا کرے۔۔۔ اچھا لگتا ہے بن باپ کی بچی سڑکوں کی خاک چھانتی رہا کرے۔۔۔!‘‘
بس۔۔۔ بھائیوں کی ’’آہنی دیوار‘‘ جلد ہی ’’کاغذ کی دیوار‘‘ بن گئی۔ پتا ہی نہ چلا، پہلے بھائی کی شادی پر یہ دیوار زنگ آلود ہوئی، دوسری بھابھی کے آنے پر یہ دیوار سرے سے ہی ڈھے گئی۔ اماں تو آنسو پونچھتیں، سجدے میں گرجاتیں، البتہ زارا کے اندر بغاوت، فتنہ، انتقام کے آتش فشاں بھڑک اٹھے۔ بھابھیاں کون سا کم تھیں یا ’’چھوٹے‘‘ باپ کی تھیں!
وہ پلاؤ کی خواہش ظاہر کرتی تو ٹینڈے ملتے۔۔۔ کریلوں کو جی چاہتا تو دال چاول سامنے آتے۔۔۔ وہ پاؤں پٹختی، چیختی لیکن اماں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتیں۔۔۔ ہاتھ جوڑتیں۔
یونہی ہاتھ جوڑتے جوڑتے ’’پیاز کاٹ رہی تھی‘‘ کا کہہ کر اذیت سے بہنے والے آنسو پونچھتے، درد کی شدت میں خود ہی لوٹ پوٹ کر سیدھی ہوجانے والی اماں بھی ہونٹوں پر قفل لگائے قبر کے صندوق میں جا لیٹی۔
ماں کا دنیا سے جانا، زارا کے لیے ناقابلِ برداشت دکھ تھا۔ اب کس کے کندھے پر سر رکھ کر دکھ ہلکا کرتی!
دو بھائی تعلیم حاصل کرنے دوسرے شہروں میں گئے ہوئے تھے، اور دو، بیویوں کے ’’بے دام غلام‘‘ یا ’’مجبور محض‘‘ تھے۔ ڈانٹ پھٹکار نہیں کرتے تھے تو کان جھکاکر بات بھی نہیں سنتے تھے۔
انسان ہے تو بندہ بشر ہی۔۔۔ ’’مین از سوشل اینیمل‘‘ والا مقولہ آپ نے بھی سنا ہوگا۔ دوسرے کسی کو دکھ سنانے کا اپنا ہی نشہ ہوتا تھا، سو زارا بھی ایک دن بغیر بھابھیوں کو بتائے اپنی کلاس فیلو کے گھر جا پہنچی۔۔۔ اس نے ماں کے مرنے پر اپنا سمسٹر فریز کروا دیا تھا۔۔۔ اگلے سمسٹر کی معلومات لینے اور دکھ سکھ شیئر کرنے وہ اپنی کلاس فیلو کے ہاں گئی تھی۔۔۔ رکشے والے نے اسے اتار کو پوچھا ’’باجی! آپ کو کب لینے آؤں؟‘‘ رکشے والا جدی پشتی ان کا واقف کار تھا۔۔۔ بھلے وقتوں میں بڑے بھیا اور اس رکشے والے نے اکٹھے دس کلاسیں پاس کی تھیں۔ امی کا بس اسی رکشے والے پر اعتبار تھا۔ آدھی رات کو بھی بلا بھیجتیں تو وہ سر کے بل حاضر ہوجاتا۔
’’نذیر بھائی مجھے بس دو ڈھائی گھنٹے میں لینے آجانا‘‘۔ اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔ مغرب میں ابھی تین ساڑھے تین گھنٹے باقی تھے اور اسے ہر صورت میں مغرب سے پہلے گھر پہنچنا تھا۔ کیسے وقت میں اماں کی یاد آئی کہ وہ کہا کرتی تھیں’’مغرب کے بعد تو پرندے بھی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، مغرب کے بعد منہ چھپائے گھر آنے والی عورت بھی مشکوک سمجھی جاتی ہے۔‘‘
’’اچھا جی۔۔۔ میں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
زارا نے سماویہ کے گھر پہنچ کر فون کروا دیا بھابھیوں کو کہ زارا ہمارے ہاں آئی ہوئی ہے۔۔۔!! لیکن بھولی زارا کو نہیں پتا تھا کہ بھابھیوں کو بغیر بتائے گھر سے نکلنے والا پہلا قدم کتنا مہنگا پڑے گا۔ اسے سماویہ کے ہاں زیادہ سے زیادہ چالیس پینتالیس منٹ ہوئے تھے جب اس کی زندگی میں آنے والا طوفان آسمان پر جا پہنچا۔ کالی سیاہ آندھی، پھر تیز موسلا دھار دو گھنٹے کی بارش، ژالہ باری اور قریبی محلے میں گرنے والی آسمانی بجلی جسے شاید زارا کے مقدر پر گرنا تھا۔
سماویہ کے گھر میں سوائے بوڑھی ماں کے کوئی نہ تھا۔۔۔ سگنل سارے آف تھے یا شاید زارا کی تقدیر آف تھی۔ قدرتی طوفان تھا۔ سماویہ نے گلی کی طرف جھانکا، چاروں جانب پانی ہی پانی تھا جسے اب زارا کے مقدر کو بہا لے جانا تھا۔
رات کے دس ساڑھے دس بجے ایک ضعیف ناتواں بیمار عورت دو ہم عمر ہم جولیوں کے ساتھ گہرے ٹھنڈے اولوں ملے پانی میں، سرد ہواؤں میں شڑپ شڑپ کرتے، دانت کٹکٹاتے، بغلوں میں ہاتھ دینے کے بجائے ایک دوسرے کو پکڑے، پائنچے اوپر کرکے گزر رہی تھیں تو گاڑیوں اور موٹر سائیکل چلانے والوں نے سر پھیر پھیر کر دیکھا اور کہا ’’کیا سر پھری عورتیں ہیں، اس موسم اور شدت کی سردی میں آدھی رات کو مٹرگشت کرکے کیا نمونیا کروانا ہے۔۔۔؟
۔۔۔*۔۔۔
اللہ نے رکشا تو بھیج دیا لیکن اس نے دگنے نہیں تگنے کرائے کی ڈیمانڈ کی۔ زارا کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر چھلانگ لگاکر رکشا میں بیٹھ گئی۔۔۔ سماویہ نے ہچکچکانے کا مظاہرہ کیا اور اٹک اٹک کر بولی ’’بھائی! ہم دونوں کو واپس اسی کالونی میں آنا ہے، اسے ہاؤسنگ کالونی میں چھوڑ کر۔۔۔ کتنا کرایہ لو گے؟‘‘
کبھی کبھی دور آسمانوں پر چمکنے والی بجلی میں تینوں سواریوں نے رکشا ڈرائیورکی آنکھوں میں ’’مکار لومڑی‘‘ والی چمک دیکھ کر دل ہی دل میں حفظ و امان کی دعائیں زبان پر جاری کردیں۔
زارا پندرہ منٹ تک مسلسل دروازے پر بیل کرتی رہی۔ کبھی بھائیوں اور کبھی بھابھیوں کے موبائل پر بیل کرتی رہی لیکن سیل فون پر ’’نو رسپانڈنگ‘‘ اور بیل خود ہی بول بلارا کرکے چپ ہوجاتی رہی۔
ہر لمحہ رکشا والے کے تیور اور سماویہ اور اس کی امی کے دانت بجنے کی آواز میں اضافہ ہورہا تھا۔ ’’بیٹے تم واپس ہمارے ساتھ چلو، اب رات یہاں نہیں گزار سکتے‘‘۔ بہ دقت تمام سماویہ کی ماں نے کہا۔
’’نہیں خالہ جان! آپ اپنے گھر جائیں، میں دروازہ کھلوا لوں گی۔ بچپن میں دیوار پھلانگنے کا اعلان رکشا ڈرائیور کو ’’خطرے کا الارم‘‘ بنا دیتا۔۔۔ سو اس نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹا۔۔۔ آج اس کے مقدر کا دروازہ بھی بند ہی رہا۔
اس نے پھر کہا ’’پلیز خالہ جان آپ چلی جائیں۔۔۔ آپ کو نمونیا ہوجائے گا۔۔۔ آپ۔۔۔‘‘
’’کیسے جاؤں تمہیں یہاں چھوڑ کر۔۔۔؟‘‘ انہوں نے لاچاری ظاہر کی۔ ایک دم اس کی آنکھوں میں ستارہ سا چمکا۔۔۔
مقدر کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے والا، تقدیر کی بربادی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے والا۔۔۔ امی کہا کرتی تھیں مشکل وقت میں کیا کرنا چاہیے۔۔۔ کوئی وظیفہ تھا شاید۔
’’ہاں، سچ۔۔۔ بالکل۔۔۔ درودِ ابراہیمیؑ ‘‘ اس نے اونچی آواز میں کہا۔
’’ہمارا ایک بغلی دروازہ بھی ہے، میں وہاں سے چلی جاتی ہوں، اِدھر سے شاید آواز نہیں جارہی اور شاید بیل بھی خراب ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے گھر کے عقبی حصے میں جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔ چند ہی لمحوں میں بچپن کا ہنر کام آیا۔
زارا ماہی منڈا نے گھر کی دیوار سے چھلانگ لگاکر اپنے گھر میں قدم رکھا۔ گھر جو عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت بنتا ہے، سکون کا لمبا سانس سماویہ اور اس کی ماں نے لیا اور رکشا کے چلنے کی آواز سنائی دی۔
دبے پاؤں چلتی کانپتی زارا نے اپنے گھر میں جانا چاہا۔
’’خبردار اس گھر میں تم کیسے آگئیں؟‘‘ نوید بھائی نے چٹاخ سے تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔۔۔ ’’بغیر بتائے کہ کہاں جارہی ہو، تمہیں پتا نہیں، اور یہ بک بک پہلے کتنی دفعہ کرچکا ہوں کہ شریف عورت راتوں کو گھر سے باہر نہیں جاتی۔۔۔ سب کچھ بھلا دیا بے غیرت۔‘‘
زارا کا بچپن کہیں دور افق کے اُس پار جا سویا۔۔۔ اس کا ’’حال‘‘ زندہ تھا۔۔۔ بس اس کے ہونٹوں پر درود کے الفاظ تھے۔۔۔
’’بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔۔ کہاں سے آئی ہو؟ شرم نہ آتی تھی اس وقت آتے ہوئے! جہاں گئی تھیں وہیں رہ جاتیں۔۔۔ کیا منہ دکھائیں گے ہم دنیا کو؟‘‘
آہستہ سے زارا نے کہا ’’بھیا میں اتنی مجرم ضرور ہوں کہ بھابھی کو بتاکر نہیں گئی، لیکن خدا گواہ ہے جاتے ہی سماویہ نے اطلاع دے دی تھی۔۔۔ نذیر کے رکشے پر گئی تھی اور طوفان میں اس سے مسلسل رابطہ کیا لیکن اس کا موبائل آف تھا۔۔۔ بھیا مجھے سماویہ اور اس کی امی چھوڑ کر گئی ہیں، بیس منٹ ہم لوگ بیل کرتے رہے آپ لوگوں نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔۔۔‘‘ نمکین آنسوؤں کی ایک جھیل اس کی آنکھوں سے بہہ رہی تھی۔
اتنے میں عدنان بھیا بھی کود پڑے۔۔۔ ’’میری مانو، میری جگنو‘‘ کہنے والے۔۔۔! ان کے عقب میں طنز اور حقارت بھری چار آنکھیں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ’’ہمیں تو اب یہ مکان بیچنا پڑے گا بدنامی کے ڈر سے، یہ تو پتا کریں آئی کہاں سے ہے منہ کالا کرکے۔۔۔‘‘ فقرے کا پہلا حصہ بلند آواز میں، آخری حصہ نسبتاً پست آواز میں تھا۔۔۔ اتنی بھی پست نہیں، سننے والے دس کانوں میں آواز پہنچ جانے کا خیال رکھا گیا تھا۔
درود پڑھتی زارا کا رنگ فق ہوا۔۔۔ ٹانگیں لڑکھڑائیں۔۔۔ اس نے چاہا منہ توڑ جواب دے کر چاروں شانے چت کردے۔۔۔ پتا نہیں کیسے۔۔۔ کیسے اس کے ذہن میں بچپن کی پڑھی حدیث آگئی۔ نماز روزے کا کبھی کبھار اہتمام کرنے والی، دینی تعلیمات سے بہت حد تک ناواقف زارا کو کیسے یہ واقعہ یاد آگیا۔۔۔ جزئیات یاد تھیں، نام یاد نہیں تھا۔
’’ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آدمی جھگڑ پڑا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ خاموشی سے سنتے رہے، دوسرا فریق گالی گلوچ کرتا رہا۔۔۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پاس کھڑے مسکراتے رہے۔۔۔ ایک دم اس آدمی کی کسی بات کا جواب ابوبکر صدیقؓ نے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور آپؐ وہاں سے چل دیے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریشانی سے پیچھے بھاگے۔
’’کیا ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ وہاں سے کیوں آگئے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ’’ابوبکرؓ جہاں ایک آدمی لڑ رہا ہو دوسرا خاموش رہے تو اللہ اس کی طرف سے فرشتہ مقرر کردیتا ہے جو اس کی طرف سے لڑنے والے کو جواب دے دیتا ہے، اور جب آدمی خود بدلہ لے تو فرشتے کے بجائے شیطان آجاتا ہے۔ (جھگڑا اس کی طرف سے ہوتا ہے) اور اے ابوبکرؓ جہاں شیطان ہو۔۔۔ وہاں پیغمبر کا کیا کام۔۔۔؟‘‘
زارا کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ’’فرشتہ! او مائی گاڈ۔۔۔‘‘ وہ سناٹے میں آگئی۔ الفاظ اس نے سینے میں دفن کردیے۔ معافی مانگی اور جب بول بول کر سارے تھک گئے تو اس نے اپنے کمرے میں جا کر پانی نچڑتے کپڑوں سے نجات حاصل کی۔
سردی کی شدت، جان لیوا تہمت، بہتان کا دکھ، سر کا درد، ماں کی یاد، چائے کی طلب، کتنا زیادہ سرمایہ جمع ہوگیا تھا۔۔۔ درود پڑھتے پڑھتے اس نے سوچا اور لحاف میں منہ چھپا لیا۔
بھلا لحاف میں رونے کا سوائے اس کے اللہ کے، کسے پتا چلے گا! وہ خوب روئی۔ رات گزرتی جارہی تھی، رونے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ آج زندگی میں پہلی دفعہ اسے پتا چلا تھا کہ دکھ کسے کہتے ہیں اور دل پگھل کر آنکھوں سے کیسے بہتا ہے۔
آج پہلی دفعہ اسے پتا چلا تھا کہ اس کائنات میں جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا اللہ ہوتا ہے۔۔۔ اللہ۔۔۔ روتے روتے اس نے پہلی دفعہ اللہ کو اپنے دل سے قریب پایا۔۔۔ درود پڑھتے پڑھتے پہلی دفعہ احساس ہوا۔ اسلامیات کی کتابوں میں اور ٹیچرز کے لیکچرز میں جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے سبھی دکھوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔۔ جانے انہوں نے اتنے ڈھیر سارے دکھ اور اذیت کیسے سہی ہوگی؟
جانے جب سگی چچی نے راستے میں کانٹے بچھائے تو ان کا دل بھی پگھلا ہوگا۔۔۔ سگے چچا جان نے دشمن بن کر آپؐ کے بیٹے کی وفات پر خوشیاں منائیں اس پر آپؐ کو کتنی ذہنی اذیت ہوئی ہوگی۔
پہلی دفعہ اسے اپنے اوپر رشک آیا، وہ کس کی امتی ہے۔ ’’صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پڑھتے پڑھے نہ جانے کب نیند نے اسے دبوچ لیا۔
۔۔۔*۔۔۔
یہ پہلی صبح تھی جب تیرہ، چودہ دنوں کی دھند کے بعد صبح سویرے سورج نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔۔ اس کی ہر کرن نکھری اور صاف شفاف تھی۔۔۔ اس کا چہرہ اتنا چمک دار اور روشن تھا کہ سردیوں کے ڈسے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
یہ سورج زارا کی زندگی کا پہلا دن تھا۔۔۔ ماہی منڈا زارا ’’کل‘‘ دفن ہوگئی تھی۔۔۔ صبح جب زارا کی آنکھ کھلی تو وہ گم سم، ہکا بکا۔۔۔ چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ شر سے خیر کیسے برآمد ہوگئی؟ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے روشنی میں کیسے بدل گئے؟ اس کی تقدیر، کاتبِ تقدیر نے اتنی بخت بھری بنائی؟
ہائے میں آنکھیں کیسے چوموں۔۔۔ اللہ نے یہ کیا کرم کیا۔۔۔ چند گھنٹوں کی نیند میں بس ایک لمحہ ہی تو تھا جب اسے وہ چہرۂ مبارک نظر آیا۔ لوگوں کے ہجوم کو چیرتی پھاڑتی، جگہ بناتی زارا ہجوم کے اندر پہنچی کہ دیکھے بھلا کیا ہورہا ہے۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ خوش خصال و خوش جمال چہرہ۔۔۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر کہیں جارہے ہیں، جونہی زارا پر نظر پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔ اور۔۔۔ زارا کی آنکھ کھل گئی۔۔۔ اسے کمرے کی ہر چیز مسکراتی محسوس ہوئی۔ صبح ہوئی تو سورج روشن، نکھرا۔۔۔
وہ کیسی من موہنی صورت تھی؟ منا سا آنسو اس کے چہرے پر ٹپکا۔۔۔ جسے اللہ نے روشن چراغ کہا۔۔۔ جس کے چہرے کی چمک سے چاند جگمگاتا ہے، جس کے ابروؤں سے ہلال صورت تراشتا ہے، جس کی مسکراہٹ سے کلیوں نے مسکرانا سیکھا۔۔۔ جس کی گفتگو سے بلبل و مینا نے نغمے گائے۔۔۔ جس کے لفظوں سے ہدایت کے چراغ جلتے ہیں، وہ جس کی آنکھوں کی پتلیوں سے رات سیاہی پکڑتی ہے، جس کی آنکھوں سے ستارے ٹمٹاتے ہیں، وہ جس کی خاطر صحابہؓ نے گردنیں کٹوا دیں۔۔۔ وہ جس کے دانتوں کی چمک سے ہیرا چمکتا ہے۔۔۔ وہ جس کے قدموں میں وحی چل کر آئی، جس کے جمال سے بادِ نسیم چلتی ہے، وہ جس کے جلال سے بجلیاں کڑکتی ہیں۔۔۔ وہ ماہ و مہرِ تاباں، جس سے بڑھ کر کسی ماں نے حسین بچہ نہ جنا۔۔۔ وہ شاہِ لولاک جسے الم نشرح لک صدرک کا تمغا رب ذوالجلال نے دیا۔۔۔ وہ جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے لنا شمس ولا فاق شمس قرار دیا۔۔۔
زارا دنگ تھی۔۔۔ جس کے روشن چہرے کی خواب میں ایک جھلک نے اس کی کایا پلٹ دی، اس کی صحبت میں صحابہ جب رہتے تھے تو ان کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی؟؟ ان کی صحبت میں انہی کی محبتوں کو قبول کرکے اللہ نے ان کو رضی اللہ عنہا کا سرٹیفکیٹ تھمایا۔
آسمان اور زمین نے دیکھا آج زارا جب بھتیجی کی انگلی تھامے واپس گھر میں داخل ہورہی تھی تو اس کی چال میں تمکنت اور وقار تھا، اس کا وجود سیاہ عبائے میں ملبوس تھا۔ اس کے لبوں پر ایک ہی ترانہ تھا ’’صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔‘‘
nn

حصہ