(اجمل سراج آپ کو بھی گلہ رہ گیا (ظہیر خان

801

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب آرٹس کونسل میں رضوان صدیقی ’’دھنک‘‘ نام سے ایک مشاعرہ کیا کرتے تھے۔ دھنک کے سات رنگوں کی طرح شعرا کرام کی تعداد بھی سات ہوا کرتی تھی ہر مرتبہ کسی ایک نوجوان شاعر کو بھی دعوتِ سخن دی جاتی تھی اس بار جس نوجوان کو دعوت دی گئی تھی وہ تھے آج کے معروف شاعر جناب اجمل سراج۔ میرا اس مشاعرے میں جانے کا پہلا اتفاق تھا جناب جمیل الدین عالی صدرِ مشاعرہ تھے اجمل سراج نے غزل پڑھنی شروع کی سامعین ہر شعر پر دل کھول کر داد دے رہے تھے غزل اچھی ہو اور سامعین اہلِ ذوق تو داد دل کھول کر ہی دی جاتی ہے غزل کا مطلع کیا چُبھتا ہوا طنز ہے آج کے اور اُس وقت کے حکمرانوں کے لیے جب یہ غزل پڑھی گئی تھی بحر چھوٹی ہے مگر معنٰی کے اعتبار سے بہت بڑی۔
یہ اندھیرا نظر نہیں آتا
آپ کو کیا نظر نہیں آتا
اگلا شعر حقیقت سے کتنا قریب ہے۔
درد تو خیر کس نے دیکھا ہے
زخم بھی کیا نظر نہیں آتا
شاعر کے احساسات اس کا تخیُّل عام انسانوں جیسا نہیں ہوتا اس کی نظر بہت دور تک دیکھتی ہے وہ آنے والے کل کے خطرات کو قبل از وقت بھانپ لیتا ہے اگلے شعر میں کسی طوفان کا ذکر ہے اس کی آمد کی اطلاع ہے۔ کون سا طوفان؟ موسمی طوفان یا وہ جو زندگی میں پیدا ہوتا ہے بقول علاّمہ اقبال۔۔
’’خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے‘‘
بہر حال اجمل سراج کا تخیّل قابلِ تحسین ہے اور قاری کے لیے مقامِ فکر۔
کوئی طوفان آنے والا ہے
رُخ ہوا کا نظر نہیں آتا
۱۴ اگست پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے اب یہ بھی حُسنِ اتفاق ہے کہ اجمل سراج کی پیدائش کا دن بھی ربّ العالمین نے یہی رکھا ۱۴ اگست ۱۹۶۸ ؁ء کو کراچی کے ایک ایسے ادبی اور علمی گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں وا لدِ محترم اور والدہ محترمہ دونوں ہی شاعر تھے۔ اس موقع پر ان کی والدہ محترمہ رضیہ خاتون صاحبہ کا ایک شعر لکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جو انہوں نے بسترِ مرگ پر کہا تھا۔
حد سے بڑھکر درد جب درماں نظر آنے لگا
ہر طرف سے موت کا ساماں نظر آنے لگا
شاعری کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے موروثی کہا جائے مگر جب گھر کا ماحول ہی شاعرانہ ہو تو کچھ نہ کچھ اثر توآئے گا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اجمل سراج نے صرف تیرہ برس کی عمر سے شعر کہنے کا آغاز کیا ان کی زندگی کا پہلا شعر ملاحظہ کیجیے۔۔
ہم نے طے کیں منزلیں ایسی بھی راہِ عشق میں
قافلہ بھی لُٹ گیا، پھر بھی سفر جاری رہا
اور یہ سفر آج بھی جاری و ساری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ سفر راہِ عشق کا سفر نہیں رہا بلکہ ادبی سفرمیں تبدیل ہوچکا ہے۔
اجمل سراج اپنا تخلّص ’اجمل‘ کرتے ہیں۔ معنیٰ ہے خوبصورتی تو ماشاء اﷲ اشعار بھی خوبصورت کہتے ہیں ذرا اس شعر پر غور تو کریں۔
نگاہ کے لیے نظّارۂ جہاں کم ہے
سو یہ کھلا کہ مری عمر، رائگاں کم ہے
اسی غزل میں اس شعر کا جواب بھی دے رہے ہیں۔
ہر اک جا وہی عالم ہے بے ثباتی کا
بلا خرامیِ عمرِ رواں کہاں کم ہے
اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں اشعار کا جواب اسی غزل کے مقطع میں موجود ہے۔
نگار خانۂ نیرنگ ہے زمیں اجملؔ
کہ اس کی جلوہ نمائی کو آسماں کم ہے
اجمل کا ایک شعر جس میں مجھے تھوڑا سا ابہام ہے۔
اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا
شعر میں لفظ ’اس‘ کی وضاحت نہیں کی گئی کہ حال پوچھنے والا کون تھا۔ عموماً اردو شاعری میں تین کردار ہوتے ہیں۔ پہلا شاعر دوسرا محبوب اور تیسرا رقیب اگر حال پوچھنے والا محبوب ہے تو شاعر کے لیے عیدِ سعید اور اگر خدانخواستہ حال پوچھنے والا رقیب ہے تو پھر شامِ غریباں۔
مندرجہ بالا شعر کے مصرعہ ثانی نے اجمل کے مجموعہ کے عنوان کی جگہ حاصل کرلی ۲۰۰۵ ؁ء میں مجموعہ شائع ہوا۔ دنیائے شعر و ادب میں ایک اچھے شعری مجموعہ کا اضافہ ہوا۔ ادبی حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔
۲۰۱۰ ؁ء میں آرٹس کونسل آف پاکستان نے اس مجموعہ کی دوبارہ اشاعت کی اور ساتھ ہی ساتھ تقریبِ پذیرائی بھی۔ اجمل سراج کے لیے یہ ایک اعزاز ہے۔
والی عاصی کو نہ جانے کن خوابوں کا اندیشہ تھا کہ ساری ساری رات جاگ کر گزارتے تھے۔
تجھ کو کن خوابوں کا اندیشہ ہے اے والیؔ بتا
جاگتا رہتا ہے ساری رات سوتا کیوں نہیں
مگر اجمل کا مسئلہ اس سے مختلف ہے بقول ان کے ان کا سہارا ہی خواب ہے اب یہ کون سا خواب ہے؟ کہیں سعید آغا والا خواب تو نہیں ہے۔
میں نے بھی اپنے شوق کا اظہار کردیا
کل رات مجھ پہ خواب نے کیسا غضب کیا
جو آپ کہہ رہی تھیں وہ سنتا تھا صرف میں
اور میں جو کہہ رہا تھا وہ بیوی نے سن لیا
بہر حال خواب جیسا بھی سہی مگر اب مسئلہ نیند کا ہے ’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘۔
اب مجھے نیند ہی نہیں آتی
خوب تھا خواب کا سہارا بھی
مرزا غالب کی طرح اجمل سراج کے یہاں بھی کہیں کہیں ظرافت کا رنگ نظر آتا ہے غلام محمد قاصر، مرزا غالب اور اجمل سراج، ان سب نے عشق کو ایک کام بتایا ہے اور اپنے اپنے انداز سے اسے پیش کیا ہے غلام محمد قاصر اپنے مستقبل کے لیے بہت زیادہ فکر مند ہیں کہ اگر خدانخواستہ عشق میں ناکامی ہوگئی تو کیا کریں گے وہ کہتے ہیں۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اور چچا غالبؔ نے اپنے نکمّے ہونے کے لیے عشق کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے وہ فرماتے ہیں۔
عشق نے غالبؔ نکمّا کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اجمل سراج چچا کے خیالات سے قطعاً اتفاق نہیں کرتے ان کی نظر میں عشق ہی وہ شے ہے جس نے ان کو مصروف رکھا ہوا ہے ورنہ ان کے لیے ’’صبح کرنا شام کا‘‘ جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔ اجمل سراج کہتے ہیں۔
عشق نے اجملؔ لگا رکھا ہے ہم کو کام سے
جانے کیا تھا جس نے غالبؔ کو نکمّا کردیا
اجمل سراج کا مجموعہ پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بھائی اجمل کچھ کچھ ماہرِ فلکیات بھی ہیں اور علمِ نجوم سے بھی اچھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں جا بجا ان کے اشعار اس بات کے گواہ ہیں۔ مجموعہ کی پہلی غزل کے مطلع میں مجھے علمِ فلکیات کی جھلک محسوس ہوئی۔۔ ایک بات عرض کرتا چلوں کہ شاعر شعر کہتے وقت اپنے ذہن میں کون سا خیال رکھتا ہے اور مجھ جیسا ناقص العقل شعر پڑھتے وقت اپنے ذہن میں کون سا وبال رکھتاہے دونوں کے سوچنے کا معیار فرق فرق ہے۔
اور تو خیر کیا رہ گیا
ہاں مگر اک خلا رہ گیا
ممکن ہے بھائی اجمل بذریعہ راکٹ آسمان کی سیر کو نکلے ہوں اور وہاں پہنچے ہوں جہاں ہوا ختم ہوجاتی ہے اور خلا شروع ہوجاتا ہے اس وقت ساتھ میں بیٹھے ہوئے پائلٹ سے ہم کلام ہوں اور یہ شعر کہہ دیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوا ہے تو بھائی اجمل تخیُّل میں وہاں پہنچ گئے ہوں گے کیونکہ شاعری کا سارا کاروبار تخیُّل پر ہی منحصر ہے اور اگر تخیُّل میں بھی نہیں پہنچے تو پھر خواب میں ضرور پہنچے ہوں گے۔ کیونکہ اجمل ہی تو کہتے ہیں۔
نیند میں جاگتے ہوئے اجملؔ
خواب کو خواب سے زیادہ دیکھ
علمِ نجوم یعنی ستاروں کا علم۔۔۔ بات کا آغاز اجمل کے اس شعر سے کرتے ہیں۔
بھرا ہوا ہے ستاروں سے آسماں اجملؔ
ابھی زمین پہ ہونے ہیں حادثات بہت
ستارہ شناسی کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب ایک روز ستارے بھی ٹوٹ جائیں گے
یہ آسمان بھی آسودۂ زمیں ہوگا
ہمایوں کو اختر شناسی کا شوق تھا سو وہ قلعہ کے اوپری حصّہ پر جا کر ستارے دیکھتا تھا۔ بھائی اجمل نے بھی اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کوئی جگہ ضرور مختص کی ہوگی اپنی آپ بیتی اس طرح بیان کرتے ہیں۔
بجھ گیا رات وہ ستارہ بھی
حال اچھا نہیں ہمارا بھی
ظاہر ہے جب کوئی شے بُجھ جاتی ہے توبھلا حال کیسے اچھا رہ سکتا ہے آگے فرماتے ہیں۔
یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں
اس میں کچھ دَخل ہے تمہارا بھی
’تمہارا‘ سے مراد ممکن ہے بجھا ہوا ستارہ ہو۔
مذاق مذاق میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی اب اس سلسلۂ فلکیات اور ستاریات کو بند کرتے ہیں ورنہ اجمل ہی کا یہ شعر کہنا پڑے گا۔۔
ہم بھی آخر پشیماں ہوئے
آپ کو بھی گلہ رہ گیا
nn

حصہ