حبیب الرحمن

235

جماعت اسلامی، حلقہ خواتین (کراچی) کی جانب سے ایک پُراثر پمفلٹ کا اجرا ہوا ہے جس کا عنوان ’’ہماری اقدار ہمارا سرمایہ‘‘ ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر اس قسم کی مہم مؤثر طریقے سے چلائی جائے تو معاشرے کی بہت ساری برائیاں ختم ہوسکتی ہیں۔
اس سلسلے میں دو باتوں کا لحاظ بہت ضروری ہے، ایک یہ کہ پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ ’’ہم‘‘ کون ہیں اور اس تعلق سے ’’ہماری اقدار‘‘ اب کیا ہیں، پہلے کیا تھیں اور اب حقیقتاً کیا ہونی چاہئیں۔
’’اقدار‘‘ کہتے کسے ہیں؟ اس بات کا سمجھ لینا شاید ساری باتوں سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔
اگر میں اس بحث کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کروں تو صورتِ حال کچھ اس طرح سامنے آئے گی کہ ہر معاشرے کی اقدار ہر دوسرے معاشرے سے کسی نہ کسی حد تک اور بعض صورتوں میں بہت بڑی حد تک مختلف ہوتی ہیں۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں بھی کئی تہذیبیں اور معاشرے آباد ہیں، اور ہر تہذیب اور معاشرہ بعض معاملات میں ایک دوسرے سے یکسرمختلف ہے۔
چار تہذیبیں تو بہت ہی معروف ہیں جن میں پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچی تہذیبیں سرفہرست ہیں، لیکن ہمارے قبائلی علاقے، کشمیری، گلگتی اور بلتی تہذیبیں ایک دوسرے سے کئی اعتبار سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد ایک بہت بڑی آبادی جو ’’اتر پردیش‘‘ اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں مثلاً جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن یا بہار میں آباد تھی، وہ بھی پاکستان کی جانب ہجرت کر آئی۔ اس لیے ہم ان افراد کی اقدار و روایات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ یہ خطہ جسے پاکستان کہا جاتا ہے، اس میں کم و بیش درجن بھر بڑی بڑی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں، اور ستّر دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی اپنی اپنی اقدار اور روایات کے مطابق اپنی اپنی زندگیاں گزارنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں۔
ان مختلف تہذیبوں کے حامل معاشرے اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف بر بنائے زبان، لباس، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے کے معاملات میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں بلکہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے اس حد تک مختلف ہیں کہ ان کو پہچان لینا بھی کوئی مشکل نہیں۔ یعنی یہ چہرہ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والے کا ہے اور یہ صورت فلاں تہذیب کے حامل فرد کی ہے وغیرہ۔ اگر کسی آرٹسٹ سے کہا جائے کہ پاکستان میں بسنے والے فلاں قبیلے کی نمائندہ تصویر بناؤ تو وہ جو بھی تصویرکشی کرے گا آپ دیکھتے ہی بول اٹھیں گے کہ بلاشبہ یہ فلاں علاقے کے فرد کا چہرہ ہے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی دو چیزیں ایسی ہیں جو ہر تہذیب میں مشترک ہیں: (1) سب کا مسلمان ہونا، اور (2) یہ کہ وہ سب کے سب پاکستانی ہیں۔
’’قدر‘‘ کیا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں، اس کا جواب بظاہر بہت سادہ ہے۔ قدر کسی چیز کی قیمت کو بھی کہتے ہیں۔ کسی چیز کی مقدار کو بھی کہتے ہیں۔ عزت، توقیر اور بزرگی کے معنوں میں بھی اس لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور برابر یا یکساں کو بھی قدر کہا جاتا ہے۔ تو پھر معاشرے کی قدریں یا معاشرتی اقدار کا کیا مطلب ہوا؟
’’قدر‘‘ کے ساتھ ہم عام طور پر کچھ الفاظ بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں جیسے ’’رواج، روایت اور رسم‘‘ وغیرہ۔
رواج کیا ہے؟ رواج کا درست تلفظ ’’ رَوَاج ‘‘ ہے جو اب عام طور پر ’’ رِوَاج‘‘ کہہ کر ادا کیا جاتا ہے، اور اس کے معنی عام دستور، ریت، رسم، ضابطہ، قاعدہ اور معمول کے ہیں۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ معاشرہ اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اپنے پہننے، اوڑھنے اور کھانے پینے کے طور طریق پر عمل کرکے ہی اسے اطمینانِ قلب ملتا ہے۔ اسی لیے معاملہ خوشی کا ہو، غم کا ہو یا روزمرہ کے معاملات کا۔۔۔ ہر معاشرے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے تشخص کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ اس کو جتنا بھی ممکن ہو نمایاں انداز میں پیش کرسکے، چنانچہ ہم اپنے ملکِ پاک کے چمن میں مسکرانے والے بے شمار رنگوں، خوشبوؤں اور ہمہ اقسام کے پھولوں کی طرح درجنوں تہذیبوں کے بکھرتے، نکھرتے اور مہکتے رنگ دیکھ سکتے ہیں۔
زمانہ بدلتا ہے تو ہر تہذیب اور معاشرے میں بہت ساری تبدیلیاں ضرور آتی ہیں۔ کیا زبان، کیا لباس، کیا کھانے پینے کا انداز، کیا کھاجے، کیا استعمال کی اشیاء، کیا شادی بیاہ کے طور طریق، کیا اٹھنا بیٹھنا اور کیا ادب و آداب کے انداز۔۔۔ مختصر یہ کہ ہر چیز میں، آنے والے دور میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے۔
اب کہاں گئے وہ بڑے بڑے پلنگ، ان پر بچھنے والے کھیس، وہ تلائیاں، وہ رضائیاں، وہ تکیوں پر شعر و شاعری اور چادروں پر کشیدہ کاری، وہ طرح طرح کے ہاتھ کے پنکھے، وہ صراحیاں، وہ مٹکے، وہ تشلے، وہ پراتیں، وہ سینیاں، وہ چنگیریاں، وہ موہڑے، وہ چٹائیاں، وہ چقیں، وہ بھگونے، وہ مٹی کی ہانڈیاں، وہ دیواروں اور فرش کا پوتنا، وہ صحن کی لپائیاں، وہ ہاون دستے، وہ پتھروں کی چکیاں، وہ سل بٹّے، وہ چرخے، وہ پیمائش کرنے کے سیر، پاؤ، چھٹانک، وہ ہاتھ دھونے کے لیے چلپ چیاں، وہ گڈولنیاں۔۔۔ سب کے سب قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں۔
وقت بدلتا ہے تو وہ ہر چیز کو بدلتا چلا جاتا ہے۔ نئی نئی ایجادات پرانی چیزوں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ اب ’’تار‘‘ کا کون انتظار کرتا ہے! خط بھی کوئی کوئی ہی لکھتا، بھیجتا اور پڑھتا ہوگا۔ لوگ گراموفون کو بھول چکے ہیں، اس کی جگہ پہلے ’’کیسٹ‘‘ نے لی، پھر ’’سی ڈی‘‘ آگئیں، اور اب ان پر ’’یو ایس بی‘‘ اور میموری کارڈ چھاتے جارہے ہیں۔ ’’وی سی پی‘‘ اور ’’وی سی آر‘‘ اب پرانی بات ہوچلی ہے، ریڈیو تو اب اُن علاقوں میں رہ گیا ہے جہاں ٹی وی کی لہریں نہ لہراتی ہوں۔
غالب کا یہ شعر کبھی کسی کو خواب و خیال ہی لگتا ہوگا جس میں انھوں نے کہا تھا:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
لیکن اب یہ دنیا ایک بچے کی چھوٹی سی مٹھی سے بھی کہیں زیادہ چھوٹی ہوگئی ہے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے پوری دنیا کی سیر کی جاسکتی ہے، بس ذرا سا کمپیوٹر کے ماؤس کو جنبش دو اور پھر دنیا کا جو شہر چاہے گھوم لو۔
ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر دراصل میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ جس تیزی سے دنیا اپنے آپ کو بدل رہی ہے اور جس رفتار سے انسان کا سفر تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے، اسی رفتار سے ہر معاشرے میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور ان تبدیلیوں کی زد میں ہماری اقدار، روایات اور رسوم و رواج بھی آتے جارہے ہیں، جس سے اس بات کا خطرہ لاحق ہوچلا ہے کہ کہیں ’’آگہی‘‘ کے اس سراب میں ہم اپنی ہر کہنہ قدر، رواج اور روایت کو بھلا کر ایک ایسے معاشرے کا روپ نہ دھارلیں جہاں ہماری پہچان ہی ختم ہوکر رہ جائے اور ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے بہت دور نکل جائیں، بلکہ اتنی دور نکل جائیں کہ پھر (خدانخواستہ) واپسی ہی ممکن نہ ہوسکے۔
میں نے مضمون کے آغاز میں اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ ہمیں یہ بات بھی طے کرنا ہوگی کہ ’’ہم‘‘ کون ہیں؟ یہ طے کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاشرہ خواہ کسی بھی رنگ، نسل، زبان، ذات، علاقے یا ملک سے تعلق رکھتا ہو، اس میں کوئی ایک قدر ایسی ضرور ہوتی ہے جو ان سارے امتیازات کے باوجود مشترک ہوتی ہے۔ وہ قدرِ مشترک مذہب بھی ہوسکتا ہے اور ملک بھی۔
دنیا کا کوئی بھی ملک ہو، اس میں درجنوں قسم کی تہذیبیں اور معاشرے آباد ہوتے ہیں۔ کوئی ملک بھی ایسا نہیں ہوگا جس میں ایک سے زیادہ زبانیں نہ بولی جاتی ہوں، ایک سے زیادہ تہذیبیں موجود نہ ہوں، ایک سے زیادہ قبائل آباد نہ ہوں جو بہ لحاظِ رنگ و نسل و مذہب اور زبان ایک دوسرے سے یکسر مختلف نہ ہوں، پھر بھی وہ سب کسی نہ کسی ایک مشترک قدر پر اتفاق کرکے اپنی زندگی کو کسی اصول اور قانون کے تابع کرلیتے ہیں۔ اس یکجہتی کی بنیاد محض رنگ بھی ہوسکتا ہے، علاقہ پرستی بھی ہوسکتی ہے، دہریت بھی بنیاد بن سکتی ہے، مختلف قسم کے ’’ازم‘‘ بھی مختلف معاشروں کو متحد رکھ سکتے ہیں، اور مذہب بھی اس اتحاد کا ایک بڑا سبب ہوسکتا ہے۔
فی زمانہ مذہب اتحاد و یک جہتی کے لیے کوئی اہم کردار ادا کرتا نظر نہیں آرہا سوائے اسلام کے، جس کی بنیاد پر دنیا میں کم و بیش پچاس سے زائد ممالک بظاہر اسلام کے نام کی پہچان پر اس کرۂ ارض میں موجود ہیں۔ وہ مسلمانوں کے ممالک تو ضرور ہیں لیکن ان میں مروج آئین اور قانون اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ تو ان ممالک میں رہنے والوں کو اندازہ ہو پارہا ہے کہ اسلام ان سے کس نظام حکومت کا مطالبہ کرتا ہے، اور نہ ہی دنیا یہ جان پارہی ہے کہ اسلام کا نظامِ حکومت کے سلسلے میں حقیقی منشا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہماری حقیقی اقدار و روایات کیا ہیں اور کیا ہونی چاہئیں۔
اسلام نے زندگی گزارنے کا ایک پورا ضابطۂ حیات دیا ہے جس کو ’’دین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ضابطۂ حیات کیونکہ قیامت تک کے لیے ہے اس لیے اس کے بہت سارے ضابطے کسی پتھر کی لکیر کی طرح نہیں کھینچ دیئے گئے ہیں کہ ان سے سرمو دائیں یا بائیں نہیں ہوا جاسکتا، بلکہ اس نے زندگی گزارنے کی کچھ حدود مقرر کرنے کے بعد ہر فرد کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ان حدود میں رہتے ہوئے وقت اور حالات کے مطابق اپنے لیے جو طریقۂ کار طے کرنا چاہے وہ طے کرسکتا ہے۔
اسلام نے تجارت یا لین دین پر کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن اس کو حلال اور حرام کا پابند کردیا ہے۔ حلال و حرام کی حدود مقرر کرنے کے بعد اسے مکمل آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے کے ساتھ لین دین کرے۔ اسی طرح زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتے ہوئے اسے اجازت ہے کہ وہ اپنی دولت کو جتنا چاہے فروغ دے، گوکہ ارتکازِ زر کو اسلام بہت پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتا، مگر اس کو حرام بھی نہیں قرار دیتا۔
اسی طرح وہ ستر کی حدود کا تعین کرنے کے بعد لباس کی کوئی قید نہیں لگاتا، البتہ وہ اس سلسلے میں مزید دو باتوں کا لحاظ رکھنے کی ہدایت دیتا ہے، ایک یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی پہچان نہ ہو اور دوئم یہ کہ خواتین مردوں کا سا اور مرد خواتین کا سا لباس نہ پہنیں۔ ان قیود کی پابندی کے ساتھ بلوچی، سندھی، مکرانی، پنجابی، پشتوں، ہندوستانی، گلگتی یا کشمیر ی پوشاک کی شرط ختم ہوجاتی ہے۔ کھانے پینے پر فقط ایک قید ہے اور وہ یہ کہ حرام نہ ہو۔ پھر حرام ہونے یا نہ ہونے کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ گوشت میں کون سا گوشت نہ کھایا جائے، ذبیح میں کیا بات لازم ہے، حلال جانوروں، پرندوں اور آبی جانوروں کی یا تو صریح وضاحتیں بیان کردی گئیں یا پھر نشانیاں بتاکر آزاد چھوڑ دیا گیا۔ رہے کھانے پکانے کے طور طریق، ذائقے، انداز۔۔۔ ان سب میں ہر فرد کو اُس کی مرضی کے مطابق آزادی دے دی گئی۔ معاشرے میں کیسے رہنا ہے۔۔۔ ماں، باپ، بیوی، بچوں، پڑوسیوں اور ریاست کے فرد پر، اور فرد کے ریاست پر کیا حقوق اور فرائض ہیں، ان سب کا ذکر کردیا گیا۔ ناپ تول سے لے کر لین دین تک کے اصول بیان کردیے گئے۔
(جاری ہے)

حصہ