(مسئلہ یہ ہے (زاہدعباس

318

یہ اسکول کے زمانے کی بات ہے جب ماسٹر صاحب کہا کرتے تھے ’’کل کٹنگ کروا کر آنا۔‘‘ لفظ ’’کٹنگ‘‘ سنتے ہی میرا دھیان اپنے سر کے بڑے بالوں کی طرف جاتا۔ چھٹی کے بعد مجھ پر یہ لازم تھا کہ میں کسی حجام کے پاس جا کر اپنے بالوں کی کٹنگ کرواؤں۔ لفظ کٹنگ میرے لیے حجامت بنوانے سے زیادہ کچھ نہ تھا یا پھر کبھی والد صاحب مالی سے کہتے آج کٹنگ کرکے جانا میں یہاں بھی دیکھتا شام تک مالی پودوں کو تراش خراش کرنے میں مصروف ہوجاتا۔ لہٰذا میری زندگی میں کٹنگ سے مراد پودوں کی تراش خراش یا پھر کسی حجام کے پاس جا کر بالوں کو ترشوانے کا نام تھا۔
یہ ترقی بھی بڑی عجیب چیز ہوتی ہے‘ ہمارے پڑوسی ملک چین کی مثال ہی لے لیجیے جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کم وقت میں دنیا کی مارکیٹ میں اپنا ایسا نام بنایا کہ سارے جہان کو حیران کر دیا اس ترقی کی وجہ کم وقت اور مناسب قیمت میں تیار ہر قسم کے اشیائے ضرورت کا عالمی منڈی میںآنا ہوسکتا ہے۔ تیزی سے سستے داموں مصنوعات کا خریدار تک پہنچنا ہی اس ترقی کا راز تھا۔ چین کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے کوئی متاثر ہو نہ ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ ہمارے شہر کے وہ قبضہ مافیا ضرور متاثر ہوئے جنہوں نے بڑی تیزی سے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ اتنی جلدی اور سستے داموں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ ہوتے دیکھ کر کسی منچلے نے اس کاروبار کو ’’چائنا کٹنگ‘‘ کا نام دے دیا۔ اس طرح لفظ ’’کٹنگ‘‘ کے ایک اور معنی میرے سامنے آئے اب میں کٹنگ فرسٹ فام‘ سیکنڈ فام اور تھرڈ فام اچھی طرح جان چکا ہوں۔
میں نے ملک بھر میں جہاں بھی زمینوں‘ جائدادوں کی خریدوفروخت دیکھی یا سنی‘ رائج قوانین کے مطابق وہ مربوں‘ گزوں اور ایکڑوں میں ہوا کرتی ہے اور آج بھی اسی کلیے کے تحت کی جاتی ہے لیکن کراچی میں پلاٹوں کی فروخت اتنی مشہور اور کامیاب ہوئی کہ یہاں رہنے والا ہر شخص چائنا کٹنگ کے نام سے بخوبی واقف ہے۔ اب تو اسٹیٹ ایجنسی والے بھی جائداد کی لین دین یہ کہہ کر کرتے ہیں ’’جناب پلاٹ کے ڈی اے کا چاہیے یا پھر چائنا کٹنگ والا‘‘ اب یہ خریدار پر منحصر ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے۔
میری معلومات کے مطابق چائنا کٹنگ کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے لوگ چائنا کٹنگ پلاٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بات بھی ٹھیک ہے سڑک کنارے فرنٹ پر سستا پلاٹ لینا ہر کسی کی تمنا ہوا کرتی ہے یہ ساری خوبیاں صرف اس اسکیم میں ہی مل سکتی ہے۔ ستر سے اسی لاکھ روپے دے کر الاٹ شدہ مکان سے بہتر نہیں کہ صرف دس سے پندرہ لاکھ روپے ادا کرکے پاک چین دوستی سے منسوب سستے رہائشی علاقے کے مکین بن جائیں۔ مکان کے کاغذات ہوں نہ ہوں اس سے کیا غرض اور اس بات سے فرق بھی نہیں پڑتا صرف مکان خریدو بجلی کے لیے کنڈا لگاؤ‘ سڑک کے ساتھ جاتی سولہ سے اٹھارہ انچ قطر کی لائن میں کنکشن لگا کر پانی لے لو اور ٹھاٹ سے زندگی بسر کرو اس سے زیادہ عیش شاید ہی کسی کی زندگی میں ہوں۔
چائنا کٹنگ منصوبے کی خاصیت یہ بھی ہے کہ ہر مکان سڑک کے ساتھ ہی بنایا گیا ہوتا ہے اس منصوبے کے مکان کی یہ اہمیت بھی ہوتی ہے کہ مکین کسی بھی کاروبار کے لیے روڈ پر دکانیں بھی بنا سکتا ہے۔ کاروباری و رہائشی چائنا کٹنگ میں پہلے آئیے‘ پہلے پائیے کی بنیاد پر پلاٹ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کاروبار کراچی میں ہر آنے والے دن کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے۔ شاید ہی کسی اور کاروبار میں اتنی جلدی ترقی مل سکتی ہو جیسی چائنا کٹنگ کے نتیجے میں ہوتی جارہی ہے۔ قبضہ مافیا کو اس بات کی پوری خبر ہے کہ ملک عوام کا ہوا کرتا ہے اسی طرح یہ شہر بھی عوام کا ہی ہے‘ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے قبضہ مافیا سرکاری زمینوں کو فروخت کرتی جارہی ہے۔ ان کے نزدیک جب شہر اپنا ہے تو اپنی زمین فروخت کرنے میں کیا حرج ہے اس فلسفے کے تحت دھرتی کے یہ بیٹے کراچی کا چپہ چپہ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔
ماضی میں کی گئی چائنا کٹنگ کو چھوڑیے میں آج کی بات کر رہا ہوں۔ تیزی کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں قبضہ مافیا کی جانب ہوتی چائنا کٹنگ بتا رہی ہے کہ یہ مافیا ایک مرتبہ پھر تازہ دم ہو کر پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ زمینوں پر اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہوچکے ہیں‘ انہیں کسی ادارے کا ڈر ہے نہ قانون کی پروا‘ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ماضی میں اس کالے کاروبار کے نتیجے میں حکومت یا انتظامیہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ حکومت کی ناک کے نیچے ہوتے اس جرم پر اداروں کی خاموشی صاف بتا رہی ہے کہ یا تو حکمران اس مافیا کے سامنے کمزور ہیں یا پھر یہ سارا کھیل حکومت کے آشیرباد سے کھیلا جارہا ہے۔
قارئین! میں نے اس سلسلے میں کئی علاقوں کا سروے کیا تاکہ میں اصل مجرم تک پہنچ کر عوام کے سامنے ان حقائق کو لے آؤں جس سے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ان اداروں کا پتا چلے جو درپردہ کسی نہ کسی حوالے سے ان قومی مجرموں کے ساتھ ہیں۔ میرا دوسرا مقصد کراچی کے معصوم عوام کو ان علاقوں کے بارے میں بتانا ہے جہاں جہاں یہ چائنا کٹنگ کا جن ایک مرتبہ پھر بے قابو ہو چکا ہے‘ ان جگہوں کی نشاندہی کرکے عوام کو یہ بھی بتانا ہے کہ کس طرح اور کہاں کہاں پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضہ مافیا اب تک قابض ہوچکے ہیں۔
اس مرتبہ اس گھناؤنے کام کا آغاز نارتھ کراچی‘ کورنگی‘ گلستان جوہر اور سرجانی ٹاؤن سے ہوچکا ہے۔ یہ علاقے قبضہ مافیا کے لیے جنت بن چکے ہیں۔ اس مافیا کی ساتھ کرپٹ افسران نے شہر کی قیمتی اراضی کو لوٹ کا مال سمجھتے ہوئے ٹھکانے لگانے کی مہم تیز کردی ہے اس طرح شہر کے رفاہی پلاٹ سروس روڈ اس مافیا کی نظر میں ہیں تیزی کے ساتھ قبضہ مافیا کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر شہری سراپا احتجاج ہیں۔ ذرائع کے مطابق نارتھ کراچی میں شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے درخواست متعلقہ محکمے میں جمع کروائی وہ درخواست ردی کی ٹوکری کی نذر کردی گئی۔ حکام بالا اب تک کوئی بھی کارروائی کرتے دکھائی نہیں دیے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شہر قائد میں اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں کی لوٹ سیل لگ چکی ہے۔ نارتھ کراچی سیکٹر 10 اور 11 کے طراف رفاہی پلاٹ پر لینڈ مافیا کی جانب سے قبضے شروع کروائے گئے ہیں۔
اسی طرح سرجانی ٹاؤن سیکٹر 8 کے انڈسٹریل پلاٹس پر 80 اور 120 گز کے پلاٹوں کی چائنا کٹنگ جاری ہے۔ جب کہ لانڈھی‘ کورنگی میں بھی درجنوں پلاٹ 25 سے 30 لاکھ روپے میں فروخت کیے جارہے ہیں۔ ان تمام صورت حال کا علم ہونے کے باوجود ڈائریکٹڑ جنرل کے ڈی اے ناصر عباس کے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کراچی لینڈ ڈپارٹمنٹ اسی ساری صورت حال میں کہاں ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ کراچی کی زمینوں پر قبضے کیے جارہے ہیں‘ حکمران بے خبر چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں۔
قارئین! ماضی میں جب کبھی کچی آبادیوں کی شکل میں زمینوں پر قبضے ہوئے تو کے ڈی اے نے بھرپور کارروائی کی اس وقت ادارے مضبوط اور بااختیار ہوا کرتے تھے۔ لائنز ایریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جب جب مزارِ قائد کے اطراف جھگیاں ڈالی گئیں کے ڈی اے نے اس کا فوری سدباب کرتے ہوئے کراچی میں مختلف ٹاؤن بنا کر ان غریبوں کو مکانات دیے۔ لانڈھی‘ کورنگی‘ نئی کراچی‘ ناظم آباد‘ ملیر اسی طرح درجن بھر ٹاؤن بنا کر شہر اور مزار قائد کے اطراف بنی جھگیوں کو ہٹایا جاتا رہا ہے آخری مرتبہ قبضہ کی کی گئی زمین کو انہی لوگوں کے نام الاٹ کرکے اس مسئلے سے جان چھڑا لی گئی ماضی میں کے ڈی اے کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں اب نظر نہیں آتیں شاید حکمرانوں نے ادارے اتنے کمزور کر دیے ہیں کہ وہ کسی بھی غیر قانونی کام پر بولنے یا کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتے اسی طرح حکمران اور متعلقہ ادارے اس لوٹ کھوسٹ میں برابر کے شریک ہوچکے ہیں۔ میرے نزدیک چائنا کٹنگ کے تحت پلاٹوں کے خریدار بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے اس دھندے سے وابستہ لوگ ہیں۔ بات سیدھی سی ہے ہر شہری یہ جانتا ہے کہ 70 سے 80 لاکھ روپے مالیت کا پلاٹ خریدار اگر 20 یا 25 لاکھ میں خریدے گا تو دال میں کچھ کالا ہوسکتا ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہوسکتی ہے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کا یہ اقدام لالچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ زمین کی مالیت کے خبر رکھنے کے باوجود خریدار بھی اسی کالے کاروبار کا حصے دار ہی کہلائے گا۔
کراچی میں تیزی کے ساتھ ہوتی اس غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے یہاں قانونی آبادیوں کو جس قدر نقصان ہوا وہ صرف اس سے متاثر ہونے والا ہی جان سکتا ہے۔ شہر میں پانی‘ بجلی‘ گیس کی بڑھتی قلت اسی طرح کی غیر قانونی آبادیوں کی وجہ سے ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی کی ان آبادیوں میں جو باقاعدہ کے ڈی اے نے بسائی تھیں‘ بنیادی ضروریات زندگی کی قلت ہوچکی ہیں۔
اگر حکومت نے فوری اس عذاب پر‘ جو کراچی میں مسلط کر دیا گیا ہے‘ کارروائی نہ کی تو آنے والے وقت میں یہاں بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے فساد پھوٹ سکتے ہیں حکمرانوں کو اس حساس مسئلے پر فوری دھیان دینا ہوگا۔ چادر اور چار دیواری ہر شہری کا کا حق ہے اس سلسلے میں حکومت اور کے ڈی اے کو اپنی ان رہائشی اسکیم پر آباد کاری کی ضرورت ہے جو کئی سالوں سے غیر آباد ہیں‘قائدآباد سے آگے کی طرف نکلیں تو درجنوں ٹاؤن کے ڈی اے کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے سنسان پڑے ہیں حکومت اگر ان اسکیموں پر سستے پلاٹوں کے نام سے آبادیاں بسائے تو قبضہ مافیا سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر کراچی میں اس مافیا سے بچے پلاٹوں پر توجہ کرنی ہوگی خالی پڑے میدان کھیل کے لیے الاٹ کرنا ہوں گے‘ سڑکوں کے ساتھ سروس روڈ اور گرین بیلٹ بنا کر کافی حد تک اس ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کو لینڈ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے گرا کر لینڈ مافیا کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ آئندہ وہ غیر قانونی کام کرنے سے باز رہیں جب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی یہ مافیا اسی طرح کراچی کی زمینوں پر قبضہ کرتا رہے گا۔ قانون کی طاقت اور نفاذ سے ہی لینڈ مافیا کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے وگرنہ یہ قابض گروپ ہمیشہ کراچی کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس کی ایک ایک انچ زمین فروخت کر ڈالے گا۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اس عوامی مسئلے پر تھوڑی سی بھی توجہ دے تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی کا یہ مسئلہ حل نہ ہو۔

حصہ