اسلامی معاشرے کی بنیاد حقوق العباد پر ہے۔ دینِ اسلام نے تمام رشتوں سے جڑے بندوں کے حقوق کو واضح کردیا ہے، جس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم و ملزوم ہے۔ اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، اسی لیے بندوں کو بھی ایک دوسرے پر رحم کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحمن رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔ تم رحم کرو زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر وہ جو آسمان میں ہے۔‘‘ (ابو داؤد)
ایک دوسری جگہ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مہربانی نہیں چھینی جاتی مگر بدبخت سے‘‘۔ یعنی بدبخت انسان رحم اور مہربانی کرنے والا نہیں ہوتا، اور جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں، نرمی اور مہربانی کا سلوک کرتے ہیں، یقیناًوہی نیک بخت ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج ایک دوسرے کی حق تلفی عام ہوگئی ہے۔ بھائی بھائی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ آئے دن ہم میڈیا پر ایسے واقعات دیکھتے رہتے ہیں۔ کہیں جائداد کا مسئلہ، کہیں رشتوں کا معاملہ، کہیں ساس بہو پر ظلم کرتی نظرآتی ہے۔ آج کل لڑکیوں کو آگ میں جھلسا کر مارنے کے واقعات تو عام ہوگئے ہیں۔ کہیں بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس یا گھر کے سرونٹ کوارٹر تک محدود کردیا جاتا ہے، اور کہیں ایک عورت دوسری عورت کے گھروندے کو اپنی سازشوں کا نشانہ بناتی ہے اور اپنی خوشیوں کا محل تعمیر کرتی ہے، اور سمجھتی ہے کہ اسے دنیا بھر کی خوشیاں مل گئی ہیں۔ لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ رب العزت اپنے بندے کو ڈھیل ضرور دیتا ہے لیکن اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ستّر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ اپنے کسی معصوم بندے کا ظلم کی چکی میں پسنا کیسے برداشت کرسکتا ہے! اس وقت نہ سہی آگے چل کر اس ظلم پر اُس کی پکڑ کرتا ہے۔ یعنی آخرت میں تو ظلم پر پکڑ ہوگی ہی، دنیا میں بھی اسے اس کی سزا مل جاتی ہے۔
ایسا ہی ظلم و سفاکی کا واقعہ آپ کے گوش گزار کررہی ہوں، یقیناًاس میں آپ سب کے لیے عبرت کا سامان ہوگا:
’’نانی یہ لیجیے چائے۔‘‘
’’ارے دلہن جیتی رہو۔ ہاں دلہن سنو، کل تم دونوں نند بھاوج بھی ہمارے ساتھ چلنا لڑکی دیکھنے۔‘‘
’’ٹھیک ہے نانی لیکن۔۔۔ ہیں کون لوگ؟‘‘
بھئی سکینہ تو بتا رہی ہے کہ بائیس تیئس سال کی بڑی خوبصورت لڑکی ہے اور دس جماعتیں پاس بھی ہے۔ بڑے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔‘‘
رخشندہ کو اپنی نانی ساس کی بات پر بڑا تعجب ہوا، کیونکہ ماموں سسر نہ صرف چھتیس سینتیس سال کے بلکہ تعلیم سے بالکل کورے تھے اور بڑی مشکل سے دونوں ماں بیٹے کا گزارہ ہورہا تھا۔ خیر اگلے دن بوا سکینہ کے ساتھ یہ چاروں خواتین لڑکی کے گھر پہنچیں۔ واقعی، مکان اور کشادہ صحن سے اہلِ خانہ کی خوشحالی ظاہر ہورہی تھی۔ بڑے کشادہ صحن کے ایک کونے میں بچھی چارپائی پر ایک خاتون بیٹھی تھیں جن کی پیٹھ ان خواتین کی طرف تھی۔ سب نے انہیں سلام کیا، لیکن جواب نہیں ملا۔ جب مہمان خواتین اس چارپائی پر بیٹھی خاتون کے آگے سے گزریں تاکہ بیٹھک میں جائیں تو چاروں حیران رہ گئیں کہ وہ ایک چونتیس پینتیس سالہ قابلِ قبول لڑکی تھی اور اس کے پیروں میں بندھی زنجیروں سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہے۔ خاتونِ خانہ جو ایک پُرکشش تقریباً ساٹھ سالہ خاتون تھیں، بڑی محبت سے انہیں بیٹھک میں لے گئیں۔ سندھی روایتی اسٹائل سے سجا ڈرائنگ روم بھی خاصا کشادہ تھا۔ حال احوال اور تعارف ہو ہی رہا تھا کہ اندر سے ایک انتیس تیس سالہ خوبصورت لڑکی بیٹھک میں آئی۔ خاتونِ خانہ جمیلہ نے اس کا تعارف کروایا کہ یہ شاہدہ سے بڑی بیٹی ساجدہ ہے۔ نانی نے سوال کیا کہ یہ شادی شدہ ہے؟ خاتون نے جلدی سے ہاں کہا اور بیٹی کو کہا کہ شاہدہ کو لے کر آؤ اور کچھ کھانے پینے کا بھی انتظام کرو۔ پھر وہ رخشندہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔ آپ کے نواسے کی شادی ابھی ہوئی ہے، کیا رشتہ دار ہیں؟ رخشندہ کی ساس نے جواب دیا: ہاں یہ ہمارے ایک جاننے والے حاجی عبدالرحمن کی پوتی ہیں۔ حاجی عبدالرحمن خود تو اسی شہر میں زیادہ تر رہتے ہیں لیکن ان کے بیٹے صداقت اللہ کراچی میں پڑھتے تھے، پھر وہیں کاروبار کیا، وہیں اپنی کزن سے شادی ہوئی، یہ سارے بچے وہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی۔ سب نے نوٹ کیا کہ جمیلہ بی بی حاجی عبدالرحمن اور صداقت اللہ کے نام پر چونکیں اور رخشندہ سے کرید کرید کر اس کے رشتے داروں کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ آخر میں کہنے لگیں ’’تمہارے رشتے داروں کو پتا ہے کہ آج تم کہاں آئی ہو؟‘‘ رخشندہ نے گردن ہلا کر کہا ’’نہیں‘‘۔ جو خاتون کچھ دیر پہلے مہمانوں کے آگے بچھی جا رہی تھیں اب کچھ بجھی بجھی لگ رہی تھیں۔ لڑکی واقعی خوبصورت اور سلیقہ مند لگ رہی تھی۔ مہمان خواتین نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ابھی چائے پانی کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ اندر والے کمرے سے کسی لڑکی کے چلاّنے اور چیخنے کی آواز آئی اور جمیلہ بی بی اندر کی طرف بھاگیں۔ ان کی آواز آئی ’’میں نے کہا بھی تھا کہ اسے نیند کا انجکشن دیں، لیکن میری بات آپ لوگوں نے نہیں مانی‘‘۔ پھر اندر سے کھسر پھسر کی آوازیں آنے لگی اور آہستہ آہستہ لڑکی کی چیخیں بھی کم ہوتی گئیں، اور اندر بیٹھے مہمانوں کے لیے یہ صورت حال بڑی پراسرار تھی۔ ایک پاگل لڑکی باہر بیٹھی تھی، ایک اندر۔ نہ جانے وہ کون ہے! رخشندہ کی ساس نے بڑی بیٹی ساجدہ سے پوچھا ’’بیٹا آپ کہاں رہتی ہیں؟‘‘ لڑکی نے کچھ رک کر کہا۔۔۔ ’’میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے۔‘‘
’’اور تم۔۔۔؟‘‘
اتنے میں لڑکیوں کی والدہ بیٹھک میں آگئیں۔ بڑی تھکی تھکی اور اداس لگ رہی تھیں۔ نانی نے پوچھا ’’یہ اندر سے چیخنے کی آواز آرہی تھی؟‘‘
انہوں نے بڑے کرب سے بتایا کہ ’’یہ میری چھوٹی سترہ اٹھارہ سالہ بیٹی ہے‘‘۔ اس کے بعد مہمانوں کا وہاں بیٹھنا بیکار تھا۔ اب سب کو اندازہ ہوا کہ ایک غریب بڑی عمر اور ان پڑھ شخص کو اپنی بیٹی دینے کے لیے کیوں راضی ہوگئی۔ بعد میں بھی اس نے بوا سکینہ کے ذریعے کہلوایا کہ ہم آپ کی ہر شرط ماننے کے لیے تیار ہیں، آپ یہ رشتہ کریں۔ بعد میں بوا سکینہ نے بتایا کہ بڑی بیٹی کو بھی طلاق ہوچکی ہے اور دو بیٹیاں پیدائشی پاگل ہیں۔ چار پانچ مہینوں کے بعد رخشندہ کراچی آئی تو ایک دن اتفاقاً جمیلہ کے خاندان کا ذکر نکلا۔ رخشندہ نے تمام تفصیل ماں کو بتائی اور کہا: نہ جانے وہ عورت مجھ سے یہ کیوں کہہ رہی تھی کہ تمہارے والدین کو تمہارے یہاں آنے کے بارے میں معلوم ہے؟ رخشندہ کی والدہ نے لڑکیوں کے والدین کے نام پوچھے تو رخشندہ سے کہا: ’’بیٹا واقعی تمہیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا، لیکن تمہیں کچھ معلوم بھی تو نہ تھا۔‘‘
’’کیا معلوم نہ تھا اماں؟‘‘
’’یہی کہ جمیلہ کا شوہر رب نواز تمہاری بوا زینب کا شوہر تھا۔‘‘
رخشندہ کے لیے یہ خبر بڑی چونکانے والی تھی۔
’’لیکن اماں بوا تو۔۔۔‘‘
’’ہاں بیٹا یہ بڑی دردناک کہانی ہے‘‘۔ اماں ماضی کے دریچے کھولتی گئیں، پھر گویا ہوئیں:
’’بیٹا یہ بہت پرانی بات ہے، میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی، تمہارے بابا اسکول میں پڑھتے تھے۔ ہم سب ایک بڑے گھر میں مل جل کر رہتے تھے۔ تمہاری دادی کا تو بہت پہلے جب دونوں بہن بھائی بہت چھوٹے تھے، انتقال ہوچکا تھا۔ دونوں بہن بھائیوں کی پرورش چچی، تائی اور پھوپھیوں نے کی۔
زینب شروع سے ہی خاموش طبع اور حد سے زیادہ سنجیدہ تھی۔ جب جوان ہوئی تو تمام خاندان کو اس کے رشتے کی فکر ہوئی، کیونکہ اس خاندان کی اُس وقت یہ روایت تھی کہ اپنے خاندان سے باہر شادی نہیں کی جاسکتی تھی۔ بڑی بھاگ دوڑ کے بعد رب نواز کا رشتہ نظر آیا جو تمہارے دادا کے دور پرے کے رشتہ دار تھے۔ گھر میں صرف ایک بیمار بڑا بھائی اور ایک بھاوج تھی۔ خوشحال کنبہ تھا۔ جیسے ہی رشتہ آیا سب نے غنیمت سمجھا اور زینب رخصت ہوکر دوسرے شہر چلی گئیں۔ بن ماں کی بیٹی تھی اس لیے سب کو اپنی بیٹیوں سے زیادہ زینب کی فکر تھی۔ اس کی شادی سے سب کو سکون مل گیا۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اُس وقت فون یا خط کی اتنی زیادہ سہولت نہ تھی۔ شادی کو تین چار مہینے ہوگئے تھے، سب نے سوچا کہ دو تین مہینے کے بعد اسے کچھ دنوں کے لیے کوئی جاکر لے کر آئے گا۔ اتفاقاً ان کے محلے کی ایک خاتون کو سکھر جانے کا اتفاق ہوا۔ بھانجے کی شادی کے بعد فارغ ہوئی تو ایک دن اس کی بہن نے اسے بتایا کہ تمہارے محلے کی کوئی لڑکی شادی کرکے یہاں آئی ہے، بیچاری بڑی مظلوم ہے، اس کی جیٹھانی کو تو سمجھو مفت کی نوکرانی مل گئی ہے، بیمار شوہر ہے، خود دیور کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے اور وہ بیچاری اللہ میاں کی گائے۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دیور کی شادی کروانے کی ضرورت ہی کیا تھی! شوہر کے مجبور کرنے پر اس نے دیور کی شادی کروائی، شاید وہ بھی بیوی کے کرتوتوں سے واقف تھا۔ خیر وہ خاتون بہن کے ساتھ ایک دن زینب کے گھر گئی تو زینب کو پہچان لیا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوچکی تھی۔ اس کی اداس آنکھوں میں بہت سے پوشیدہ راز تھے۔ خاتون نے اس کی جیٹھانی جمیلہ سے پوچھا: ’’اسے کیا ہوگیا، کیا یہ بیمار ہے؟‘‘ یہ سننا تھا کہ جمیلہ شروع ہوگئی ’’پاگل کو ہمارے سر منڈھ دیا ہے، نہ کام کی نہ کاج کی، پوری پاگل ہے‘‘۔ زینب کی حالت دیکھ کر اس کی پڑوسن کو بڑا دکھ ہوا۔ اس کی سہمی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اسے مارا پیٹا بھی جا رہا ہے۔ خیر ایک مہینے کے بعد وہ کراچی لوٹی تو اس نے تمام ماجرا زینب کے گھر والوں کو بتایا۔ سب کو بہت صدمہ ہوا۔ سب نے مشورے کے بعد طے کیا کہ اس کے شوہر رب نواز سے بات کی جائے اور کچھ عرصے کے لیے اسے یہاں لے کر آئیں۔ زینب کے چچا اور چاچی اسے لے کر آئے۔ وہ آنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے آنے کے بعد کچی ڈور سے بندھا یہ بے نام رشتہ بھی ٹوٹ جائے گا، جو وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایسا ہو۔ جب وہ آئی تو اس کی حالت دیکھ کر سب کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ پہلے تو وہ اپنے حالات کسی کو بتانے کے لیے تیار ہی نہیں تھی، پھر اپنے اتنے ہمدردوں اور محبت کرنے والوں کی وجہ سے اسے کچھ اعتماد ملا اور اس نے جو حالات بتائے اُن کے مطابق نہ صرف اسے مارا پیٹا جاتا بلکہ ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کا ذہن مفلوج ہوگیا، اس میں خوداعتمادی کی کمی ہوگئی بلکہ احساسِ کمتری کی وجہ سے اس میں جینے کی تمنا بھی ختم ہوگئی، رہی سہی کسر اس کی طلاق نے پوری کردی۔ وہ مشرقی عورت کسی صورت میں بھی طلاق لینا نہیں چاہ رہی تھی۔ اس صدمے نے اس کی ذہنی حالت کو تہس نہس کردیا۔ علاج معالجے سے دن بہ دن اس کی حالت بگڑتی گئی۔ اس نے اپنے آپ کو ہر فکر اور پریشانی سے آزاد کردیا۔ گھنٹوں خلاؤں میں گھورتی رہتی، زبردستی کھانا کھلایا جاتا، نہلا دھلا کر کپڑے بدلوائے جاتے۔ دوسری طرف جمیلہ نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد اپنے دیور رب نواز سے شادی کرلی۔ آس پڑوس میں سب یہی کہتے تھے کہ جمیلہ نے اپنے بیمار شوہر سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسے زہر دے کر مارا۔ واللہ علم۔ وہ اس بے زبان اور بدنصیب زینب کے گھروندے کو مسمار کرکے اپنی خوشیوں کے محل کو تعمیر کرنے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، کبھی نہ کبھی برسے گی ضرور۔ زینب کو تو تمام دکھوں سے نجات مل گئی۔ اس کے مرنے کے بعد سب نے سمجھا کہ یہ داستانِِ غم یہیں ختم ہوگئی۔ لیکن نہیں۔‘‘
رخشندہ کی زبانی تمام واقعات سن کر اس کی والدہ نے کہا ’’یہ ایک مظلوم کی آہ تھی، کیونکہ وہ سب کچھ بھلانے کے باوجود کبھی کبھار بیٹھے بیٹھے خلاؤں میں گھورتے گھورتے گویا ہوتی ’’رب نواز تُو عیش کررہا ہے، تُو نے یہ کیا کردیا‘‘۔
اس ’’آہ‘‘ نے جمیلہ کو تاحیات ایسے دکھ اور عذاب میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ پل پل اپنی بیٹیوں کی حالتِ زار پر دکھ کے آنسو روئے گی اور پچھتاوے کی آگ اسے بے سکون رکھے گی۔ کاش کہ ظلم کرنے والا دنیا و آخرت کے عذاب کے ڈر و خوف سے خبردار رہے اور اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے۔
nn