( محمد انور )

264

پاک وطن کے خلاف سازشوں کے تناظر میں اس انکشاف نے کہ بھارتی ہائی کمیشن کے افسران اپنے فرائض کی آڑ میں پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک سازشوں میں ملوث ہیں، پوری قوم کو متفکر کرڈالا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے ہندوستانی ہائی کمیشن کے 8 افسران کی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے خفیہ ایجنٹ ہونے کی بھی تصدیق کردی۔ گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں پریس بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے بتایا کہ بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات یہ خفیہ ایجنٹ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے رابطے میں اور پاکستان میں دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے دی گئی معلومات کے مطابق 6 افراد کا تعلق ’را‘ سے تھا جبکہ 2 افراد ’آئی بی‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ ترجمان نے بتایا کہ کمرشل کونسلر راجیش کمار اگنی ہوتری ’را‘ کے اسٹیشن چیف ہیں، جبکہ فرسٹ سیکریٹری کمرشل انوراگ سنگھ، ویزا اسسٹنٹ امردیپ سنگھ بھٹی، اسٹاف اراکین دھرمندر سودھی، وجے کمار ورما اور مدھاون نندا کمار ’را‘ کے لیے کام کررہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فرسٹ سیکریٹری پریس اینڈ انفارمیشن بلبیر سنگھ اور اسسٹنٹ پرسنل ویلفیئر آفس جیابالن سینتھل آئی بی کے ایجنٹ ہیں۔
دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نہ صرف پاکستان میں تخریب کاری کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے میں دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے بلکہ اپنے سفارتی وفد کو بھی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کررہا ہے۔ نفیس زکریا نے مزید بتایا کہ خفیہ اداروں کے لیے کام کرنے والے یہ اہلکار جاسوسی، حکومت کو نقصان پہنچانے، سندھ اور بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں مدد، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور صوبوں میں عدم استحکام بڑھانے میں ملوث تھے، یہ ایجنٹ گلگت بلتستان میں حالات کو متاثر کرنے، پاک افغان تعلقات کو مختلف سرگرمیوں کے ذریعے نقصان پہنچانے، فرقہ واریت بڑھانے، انسانی حقوق سے متعلق پروپیگنڈا کرکے پاکستان کو بدنام کرنے، مذہبی اقلیتوں کو اکسانے، کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے میں ملوث تھے اور ان کے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوں سے تعلقات بھی تھے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے سرکاری طور پر کیے جانے والے ان انکشافات کے بعد جہاں ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کی اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے، وہیں یہ بات بھی افشا ہوتی ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مسلسل دہشت گردی کرنے والی ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ دراصل بھارت کا تیار کردہ دہشت گردوں کا گروپ تھا، یا بن گیا ہے۔
تاہم ملک میں اس پر 25 اگست 2008ء کو پابندی عائد کردی گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس پابندی کے بعد اس گروپ نے ملک کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی پاکستان میں ہونے والی بیشتر دہشت گرد کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری سطح پر ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں روابط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 11ستمبر2001ء سے مئی 2011ء تک 35 ہزار افراد ملک میں دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوئے۔ تحریک طالبان کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے کراچی بھی محفوظ نہیں تھا۔ اگرچہ کراچی میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے کئی واقعات خصوصاً 2013ء کے انتخابات کے موقع پر ہونے والے سانحات پر شہریوں کا شبہ ایک سیاسی جماعت پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن ان واقعات پر ٹی ٹی پی کی جانب سے ذمے داری قبول کرلی جاتی تھی۔ خطرناک جرائم کے واقعات کی، ٹیلی فون کالز اور دیگر ذرائع سے، ذمے داریاں قبول کرنے کا سلسلہ بڑھا تو لوگوں کے اس شبہ کو مزید تقویت ملی کہ ان تمام خونیں کارروائیوں کے پیچھے سیاسی جماعت کا ہی ہاتھ ہے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ذمے داری قبول کرنے والی تحریک اور سیاسی جماعت کا ’’جوائنٹ وینچر‘‘ پروگرام چل رہا ہے۔ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بھی اپنے طریقوں اور بہانوں سے وہی گڑبڑ پھیلانے والے کام کیا کرتی تھی جو ایک سیاسی جماعت مسلسل کئی سالوں سے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں کیا کرتی تھی۔ وجہ یہ نکلی کہ اس سیاسی جماعت کے تانے بانے بھی بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ملا کرتے ہیں۔
یہ خبر پہلے ہی آچکی ہے کہ ملک کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف پاکستان میں بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے شواہد پیش کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ فضل اللہ کی انڈین آرمی سے گفتگو کا ریکارڈ پیش کرچکے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کی رپورٹ آنے کے بعد یہ کہنا بہت آسان ہوگیا ہے کہ پاک وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت نے ہر طریقے اپنائے اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ ہی بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے کبھی ’’امن کی آشا‘‘ کے نام پر ایک میڈیا گروپ کے ساتھ مل کر پاکستانیوں میں گھل مل کر اطلاعات جمع کیں، کبھی اپنے مختلف وفود بھیج کر اپنے مقاصد حاصل کیے۔ حیرت تو ہماری ایجنسیوں پر ہوتی ہے کہ جنہوں نے بھارتی ایجنٹوں کو پہچاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ بآسانی ملک میں آتے جاتے اور قیام کرتے رہے۔
دو سال قبل بھارت کے ایک مشہور بزرگ کے مزارکے سجادہ نشین کے نام پر بھی ایک شخصیت کا آنا جانا رہا۔ یہ شخصیت ملک کی اہم ترین آئینی شخصیت تک رسائی حاصل کرگئی مگر ہمارے اداروں کو احساس تک نہیں ہوا کہ مذکورہ شخص کس وجہ سے ملک کی آئینی شخصیت میں دلچسپی لے رہا ہے۔ ممکن ہے کہ بزرگی کی آڑ میں مذکورہ شخص کے کوئی ناپاک ارادے نہ ہوں، تب بھی ہمارے اداروں کو ایسے بھارتی شہری کو اہم لوگوں اور حساس عمارتوں تک رسائی نہیں دینی چاہیے تھی۔
پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بھارت سمیت دیگر ممالک سے غیر معمولی ذاتی دلچسپی اور تعلقات کی وجہ سے حساس اداروں کو بھی اپنا کام آزادی سے کرنے نہیں دیا گیا۔ نتیجے میں کبھی ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی جاسوس ملک میں پہنچ گئے تو کبھی کل بھوشن یادیو مسلمان بن کر ملکی راز معلوم کرتا رہا۔ یاد رہے کہ دسمبر 2010ء میں ڈرون حملے کے متاثرہ ایک شخص کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدمے میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جوناتھن بینکس کی شناخت منظرعام پر آگئی تھی جس کے بعد امریکا نے اسے واپس بلالیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ریمنڈ ڈیوس معصوم نوجوانوں کے قاتل کی حیثیت سے لاہور میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے کے باوجود پنجاب میں شہبازشریف اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے تعاون سے بآسانی واپس اپنے ملک امریکا روانہ ہوگیا تھا۔
ملک میں رونما ہونے والے یکے بعد دیگرے واقعات کے بعد پاکستان میں بھارتی سفارتی اہلکاروں کا بطور خفیہ ایجنٹ منظرعام پر آنا انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور حساس اداروں سے وابستہ اہم شخصیات کو چاہیے کہ گزشتہ آٹھ سال کے دوران آنے جانے والے ایسے تمام سفارت کاروں اور دیگرافراد کے بارے میں گہرائی سے چھان بین کریں۔ جبکہ ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات پر بھی گہری نظر رکھی جائے جن سے غیر ملکی خصوصاً امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور بھارت کے سفارت کار اور دیگر مسلسل رابطے کرتے ہیں۔ جبکہ وفاقی اداروں کے ساتھ صوبائی اداروں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ ملک میں آنے اور جانے والے افراد کے بارے میں جدید تقاضوں کے مطابق نہ صرف چھان بین کی جائے بلکہ ان کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جائے۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کے ہر شعبے اور اس سے وابستہ اداروں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ بعض غیر ملکی خبر رساں ایجنسیاں ملک کے بارے میں فیچر اسٹوریز کی آڑ میں ایسی فوٹیج حاصل کررہی ہیں جن کی مدد سے خصوصاً بھارت اپنے اہداف تک رسائی حاصل کررہا ہے۔ اس لیے میڈیا کے نام پر ایسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ملک میں کئی ایسے نجی پروڈکشن ہاؤس بھی کام کررہے ہیں جو ملکی قوانین پر بھی عمل درآمد نہیں کرتے۔ کسی ادارے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی پروڈکشن کس کس ملک کو بھیجی جاتی ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی میڈیا آزادئ صحافت کی آڑ میں ملکی قوانین اور پالیسیوں کی دھجیاں اڑا دیا کرتا ہے، کیونکہ میڈیا سے وابستہ افراد کو ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔ حال ہی میں ملکی سلامتی سے متعلق بے بنیاد خبر کی اشاعت اس بات کا ثبوت ہے۔ اگرچہ اس خبر کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات کے بعد وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید کو عہدے سے فارغ کردیا گیا ہے لیکن سب ہی کو شبہ ہے کہ بوجوہ اصل چہرے اب تک سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔
حالیہ واقعات کے نتیجے میں ملک کے ہر شعبے خصوصاً این جی اووز، میڈیا اور سیاست سے وابستہ شخصیات کا ڈیٹا جمع کرنا ضروری ہے۔ ان کے طرزِ زندگی اور ذرائع آمدنی کی جانچ کرنا سب سے اہم ہوگا۔ ایسے میں مشکلات پیش آسکتی ہے لیکن یہ دنیا میں کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی جو ہمارے ملک میں ملکی سلامتی کی خاطر نہ کی جاسکے۔ اس بات کی تشہیربھی ضروری ہے کہ ملک کے لیے قربانی دینے سے پہلے ملک کی سلامتی کے اصولوں پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

حصہ