شاہین ضیا

241

سینٹرل جیل کے تین آہنی گیٹ سے گزرکر خواتین جیل کی حدود میں قدم رکھتے ہی میرے چاروں طرف قیدی خواتین جمع ہوگئیں۔ مسز عبدالغفار میرے آگے آگے تالی بجاکر آوازیں لگاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں ’’چلو بھئی سب برآمدے میں جلدی جلدی جمع ہوجاؤ، باجی آگئی ہیں‘‘۔ ہر سال کی طرح اِس دفعہ بھی ربیع الاول کے موقع پر جیل میں خواتین کی تربیت کے لیے ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں جیل ہی کی قیدی خواتین تلاوتِ قرآن، نعت و حمد اور دعائیہ نظم پڑھتی ہیں۔ اور اس پروگرام کے درمیان سیرت النبی ؐ پر 45 منٹ کا ایک درس ہوتا ہے جو کئی سال سے ان خواتین کے لیے میں دینے جاتی ہوں۔ اس طرح سال کے سال ان سے ملاقات ہوتی ہے۔کچھ نئے چہرے اور کئی پرانے چہرے۔ 80فیصد خواتین کسی نہ کسی جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں اور 20فیصد بے گناہ اور اپنے ہی اقرباء یا غیروں کی سازشوں اور ظلم کا شکار ہیں۔کچھ خواتین کے ساتھ بچے بھی ہیں جو کہ جیل میں ہی پیدا ہوئے اور آٹھ اور نو برس کی عمر ہونے کے باوجود باہر کی دنیا میں کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھ سکے۔ یہ بہت عبرت انگیز دنیا ہے۔ سال کے اس دن کا تاثر دنوں تک میرے ذہن پر رہتا ہے۔ یہ بھی ایسا ہی عبرت انگیز دن تھا۔ تمام خواتین برآمدے میں بچھی چٹائیوں پر صفیں بناکر بیٹھ چکی تھیں۔ جیل کے احاطے میں خواتین کے لیے تعلیم القرآن کا مدرسہ موجود ہے۔ بڑا دیدہ زیب، صاف ستھرا، رنگ برنگے تذکیری کارڈ سے مزین جو تزئین و آرائش کے لیے لگائے گئے ہیں۔ مدرسہ کی نگراں نے تلاوت اور ترجمہ پڑھا، ایک نوجوان قیدی لڑکی نے نعتِ رسولؐ مقبول سنائی، پھر مائیک میری طرف بڑھا دیا گیا۔ لیکن آج میرا پروگرام ذرا مختلف تھا۔ سلام دعا کے بعد میں نے خواتین سے پوچھا کہ کیا آج آپ میرے ساتھ واک کرنا پسند کریں گی؟ میری اس پیش کش پر خواتین جیل سپرنٹنڈنٹ حیران و پریشان ہوگئیں۔ سب نے یک زبان ہوکر ہامی بھری۔ میں نے کہا کہ آپ کو میرے ساتھ چھ میل تک پیدل چلنا ہوگا۔ جواب ملاکہ آپ ساتھ لے کر تو چلیں، ہم ضرور چلیں گے۔ یہ ایک تمثیلی خاکہ ہے، میں نے چپکے سے شہلا کو تسلی دی۔
میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، تو آپ سب مضبو ط چپلیں پہن لیں۔ جواب ملا ننگے پاؤں چلیں۔ میں نے کہا اب آنکھیں بندکرکے چلنا شروع کریں، بس قدم قدم میرے ساتھ چلتی رہیں۔ یہاں سے ہم گیٹ کے باہر نکل کر سیدھے روڈ سے گزرکر مزارقائد کی طرف، پھر تیزتیز چلتے ہوئے تاج کمپلیکس سے گزر کر ریڈیو پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر عیدگاہ تک پہنچے(اندازاً) چھ میل۔ اب ایک بلند مقام پر چڑھائی چڑھنی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے پہاڑ کی بلندی پر کہاں پہنچے؟ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چھ میل پیدل چل کر پہاڑ کی بلندی پرکہاں پہنچے ہوں گے؟
جواب ملا ’’غارِ حرا‘‘۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ مجرم خواتین بھی اپنی دینی اساس سے واقف ہیں۔ پھر سوال کیا ’’لیکن اللہ کے نبیؐ اپنے پُرسکو ن گھر، جان مال نچھاورکرنے والی بیوی، محبت کرنے والی بچیوں کو چھوڑ کر کس وجہ سے گوشۂ عافیت میں چلے جاتے تھے؟‘‘
جواب ملا: ’’نہیں معلوم، آپ بتائیں‘‘۔ ان خواتین کا اشتیاق دیدنی تھا۔ ’’اچھا میں بتاتی ہوں، لیکن آپ سب بھی میری مدد کریں گی۔ اللہ کے رسولؐ نبی بنائے جانے سے پہلے چاروں طرف پھیلی ہوئی برائیوں کو بڑھتا ہوا دیکھ کر پریشان ہوتے اور سوچتے تھے کہ کون ان برائیوں کی اصلاح کرے گا۔ کیا ابولہب۔۔۔؟ نہیں نہیں، کیا ابوجہل؟ نہیں، وہ بھی نہیں۔ آپ سب باری باری مجھے یہ بتائیں کہ اُس وقت معاشرے میں کون کون سی برائیاں عام تھیں جو اللہ کے رسولؐ کی صالح طبیعت پر بار گراں تھیں؟‘‘
جواب یہ تھے: ڈاکے ڈالتے، وراثت کا مال لوٹ لیتے تھے، شراب پیتے تھے، لونڈیوں کو قحبہ گری پر مجبورکرتے، اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے، قبائلی دشمنی میں قتل کرتے۔ بہت سی آوازیں بڑھ چڑھ کر اپنے اندر کے علم کو باہر لانے میں سبقت لے رہی تھیں۔ میرے لیے بہت خوشی کی بات تھی۔ دل نے کہا: الٰہی یہ بھی تیری ہی بندیاں ہیں، تُو ہی ان پر رحم فرما۔ جب اچھی طرح بول چکیں تب میں نے کہا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اردگرد پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کی راہ کی تلاش میں سوچ بچار کے لیے تنہائی حاصل کرنے غار حرا میں چلے جاتے اور پہروں سوچنے کے باوجود کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جب آپ ؐ غار میں چلے جاتے تو پہاڑ کے اردگرد شہر مکہ میں پھیلی خرابیاں آپؐ کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھیں۔ غار حرا کی بلندی سے آپؐ کو کائنات پر کچھ نشانیاں نظر آتیں۔ مثلاً دن اور رات کا باری باری آنا، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا، سورج اور چاند تارے۔۔۔ یہ تمام چیزیں گواہی دیتی تھیں کہ کوئی زبردست طاقت موجود ہے جو ایک بڑے نظام کو ترتیب سے چلاتی ہے، اور وہ ذات اس سارے نظام کو چلانے والی تنہا اور سب پر غالب ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات پر غور کرنے سے جب توحید کا ادراک ہوا تو توحید نے خود رابطہ کیا۔ جبریل امین پہلی وحی لے کر آئے ’’اقراء‘‘ (پڑھو)۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
پلٹ دی بس ایک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
رسالت کا تقرر اور قانون الٰہی کا نزول ہر زندہ فرد کے لیے ضابطۂ حیات تھا۔ قبول کرنے والوں کے لیے رحمت ہی رحمت اور رد کرنے والوں کے لیے دوجہان کی رسوائی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلام نازل ہوتا اس کی تصدیق سورۃ یٰسین کی ابتدائی آیات ہیں۔
(ترجمہ) ’’یٰسین، قسم ہے قرآن حکیم کی کہ تم یقیناًرسولوں میں سے ہو، سیدھے راستے پر ہو (اور یہ قرآن) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے۔‘‘
’’اور وہ (نبیؐ) اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے مگر وہی کچھ جو ان کو وحی کیا جاتا۔‘‘ (سورۃ نجم آیت 43)
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر نبی کی ایک دعا ہے اس کی امت کے لیے۔ میں نے چھپا کر رکھا اسے اپنی امت کی شفاعت کے لیے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
پہلے نبی آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک امت کے حق میں ایک چیک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی قبولیت کا ہر نبی کو دیا گیا۔
حضرت آدم علیہ السلام کی دعا:
’’اے ہمارے رب، ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر، اور اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ (سورۃ الاعراف آیت23)
حضرت یونس علیہ السلام کی دعا:
’’نہیں کوئی معبود سوائے تیرے، پاک ہے تُو، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔‘‘ (سورۃ الانبیاء آیت 87)‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا:
’’اے ہمارے رب، بنا اس شہر کو امن والا اور بچا مجھے اور میری اولاد کو اس سے کہ وہ عبادت کریں بتوں کی۔‘‘(ابراہیم آیت 35)
حضرت نوح علیہ السلام کی دعا:
’’اے رب، میں مغلوب ہوں، پس میری مدد فرما۔‘‘ (القمر : آیت 10)
حضرت شعیب ؑ کی دعا:
’’ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ ہم اﷲ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کردے اور تُو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف آیت89)
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا :
’’اے رب، مجھے نصیب کر کہ میں شکر کروں تیری نعمت کا، وہ جو انعام کی تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر، اور یہ کہ میں کروں نیک کام جو تُو پسند کرے، اور داخل کر مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں۔‘‘(النمل آیت 19)
یوسف علیہ السلام کی دعا:
’’اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمینوں کے، تُو ہی رفیق ہے دنیا و آخرت میں، فوت کر مجھے مسلمان، اور شامل کر مجھے نیکوں کے ساتھ۔‘‘ (یوسف آیت 101)‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا:
’’اے ہمارے رب، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دے اور میری اولاد کو بھی، اے میرے رب اور قبول کر میری دعا، اے ہمارے رب بخش دے مجھے اور میرے والدین کو جس دن قائم ہو حساب۔‘‘ (ابراہیم 40۔ 41)
حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعا:
’’میں تو اپنے غم واندوہ کا اظہار اﷲ سے کرتا ہوں۔‘‘ (سورۃ یوسف آیت 86)
موسیٰ علیہ السلام کی دعا:
’’اے رب میں اس بھلائی کا جو تُو میری طرف اتارے، محتاج ہوں۔‘‘ (القصص آیت 45)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا:
’’اے ہمارے رب، ہمیں آسمان سے کھانے کا خوان اتار دیجیے تاکہ وہ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں کے لیے خوشی کا باعث ہو، اور آپ کی طرف سے ایک نشانی بھی ہو، (اے اﷲ) ہمیں روزی عطا فرمایئے، آپ ہی سب سی بہتر رازق ہیں۔‘‘ (سورۃ مائدہ 114)
اس مختصر جائزے کے بعد دیکھیے رسول بنائے جانے کے بعد آزمائش کی ہر ہر گھڑی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے اس حق کی حفاظت کی۔ ذرا دیکھیے، طائف کی آزمائش ہو، شعبِ ابی طالب کی گھاٹی میں سوشل بائیکاٹ ہو، بوڑھی عورت کا جمع شدہ کچرا پھینکنا ہو، یا کفار کے مظالم۔ اولادِ نرینہ کے وصال کا وقت ہو، یا چچا حمزہ کے جسم کا مُثلہ کیے جانے کا منظر، یہاں تک کہ جان کنی کی تکلیف، ہر ہر مرحلے پر امت کے لیے اپنی دعا قیامت میں شفاعت کے لیے بچا لے گئے۔ نہ اپنی ذات کے لیے، نہ اولاد اور گھر والوں کے لیے، نہ خاندان والوں اور نہ قبیلے والوں کے لیے۔۔۔ اس قیمتی حق کو بچایا تو آپ کے لیے، میرے لیے بچایا۔ لیکن
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
تیرے حسنِ خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
وہ محمدؐ بن عبداﷲ جب محمد رسول اﷲ بنائے گئے تو آپؐ کی دو لختِ جگر بیٹیاں طلاق دے کر لوٹا دی گئیں۔ ظلم اور تذلیل کا کوئی موقع قوم نے نہ چھوڑا، لیکن میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شافع محشر، ساقی کوثر کے قدم دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہے۔ دشمنوں کی مخالفت پر اگر سہارا تھا تو صرف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تسلی اور دلاسا۔ سورۃ الضحیٰ، سورۃ نشرح میں اﷲ کے وعدے، جنگوں میں فرشتوں کے ذریعے اﷲ کی مدد آپ ؐ کے ساتھ رہی۔ قرآن مجید پر عمل ممکن ہی نہیں جب تک کہ آپ ؐ کی سیرتِ طیبہ کی مثال سامنے نہ ہو۔ نماز، وضو، حج، عمرہ، اخلاقِ کریمانہ، عفو و درگزر، اقامتِ دین کی جہدِ مسلسل، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمادیا کہ نبی ؐ کے لیے میں اور میرے ملائکہ جو کچھ کرتے ہیں وہ تم سب مومن بھی کرو۔
’’اﷲ اور اس کے ملائکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود وسلام بھیجو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب 56)
نبیؐ کی بعثت کا مقصد دینِ حق کا نفاذ تھا۔
فتح مکہ دینِ الٰہی کے قیام کا تاریخی اور امید سے بھرپور واقعہ ہے اور اﷲ کی طرف سے نصرت ایفائے عہد کی تکمیل کی سب سے بڑی مثال ہے۔ رسول اکرم ؐ کا جو ہتھیار تلوار سے زیادہ مضبوط تھا وہ اپنے کام میں اخلاص، جہدِ مسلسل، ناامیدی سے مبرا بلند حوصلہ، ایمانِ کامل، صبر، عفو، درگزر، یہاں تک کہ دین کا نفاذ ہوا جوکہ مشرکوں کو ناگوار ہی رہا۔ اور آج بھی ہے۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔
حدیث ہے: ’’جب اﷲ تعالیٰ کی زمین پر حکومتِ الٰہی قائم ہوگی تو مجرم کا جرم کرنا آسان نہ ہوگا، بے گناہ قید نہ کیے جائیں گے، نہ ہی بے گناہ مارے جائیں گے، اور حق دار کو اس کا حق ملے گا‘‘۔
حکمراں ہمارے حضرت عمرؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے قناعت پسند اور عوام کے لیے مخلص ہوں گے تو بھوک و افلاس کا خاتمہ ہوگا اور مسجدیں آباد اور جیل خانے ویران ہوں گے۔ اگر اپنے اپنے جرم کی معافی اﷲ سے طلب کریں اور غفلتوں سے گزری ہوئی مجرمانہ زندگی پر ندامت کے آنسو بہائیں تو شاید اﷲ تعالیٰ کو رحم آئے اور وہ ہم سب پر فضل فرماتے ہوئے اسلامی نظام زندگی سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے۔ میری دعا آپ سب قیدی اور آزاد بہنوں کے لیے ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے طریقہ اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی رسوائی سے ہمیں بچالے۔ آمین

حصہ