جیسے جیسے 8 نومبر 2016ء کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ویسے ویسے امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والی دونوں شخصیات کے حامیوں کے اعصاب جواب دیتے جارہے ہیں۔ دنیا کے سب سے طاقتور عہدے کے انتخابات کے لیے حسبِ روایت دو ہی امیدوار ہیں اور دونوں اپنی پارٹیوں کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے ایک طویل جدوجہد سے گزر رہے ہیں، جس میں ان کو پارٹی کے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کی روایات کے مطابق ہر پارٹی پہلے اپنے امیدوار کے انتخابات کے لیے ایک طویل عمل کا انعقاد کرتی ہے جس میں امریکا کی 50 ریاستوں میں پارٹی انتخابات ہوتے ہیں۔ اس عمل کے دوران پارٹی امیدواران کی تعداد گھٹتی رہتی ہے اور آخر میں 2،3 مضبوط امیدوار رہ جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک کا انتخاب حتمی طور پر کرلیا جاتا ہے جس کو پھر پوری پارٹی کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اِس بار ایسا نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو ری پبلکن پارٹی کے حتمی امیدوار ہیں، کو اب بھی پارٹی کے اندر سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ وہ ایک ناپسندیدہ امیدوار کے طور پر متعارف ہوئے ہیں۔ اسی طرح سابقہ امریکی صدر بل کلنٹن کی بیوی ہیلری کلنٹن کی اپنی پارٹی میں پسندیدگی اتنی نہیں ہے جیسے کہ بارک اوباما کی تھی۔ ڈیموکریٹ ارکان ان کی حمایت میں زیادہ پُرجوش نہیں ہیں۔ اسی طرح دونوں امیدواران کے لیے عوامی حمایت میں بھی خاصی کمی پائی جاتی ہے اور ان سے ووٹروں کی توقعات کا گراف اس طرح نہیں جیسا کہ سابقہ انتخابات میں امیدواران کا رہا ہے۔
ویسے بھی دو جماعتی صدارتی انتخابات میں عوامی دلچسپی اس طرح ممکن نہیں جیسا کہ کثیر جماعتی انتخابات میں ہوتی ہے۔ لوگ مجبوراً دو میں سے ایک کا انتخاب کریں گے۔ وہ یا تو زیادہ پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ دیں گے یا پھر کم برے امیدوار کو چنیں گے۔ اِس دفعہ ایسا ہی ہوگا۔ ہیلری کلنٹن کو رائے عامہ کے سروے میں شروع سے ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت حاصل رہی ہے۔ البتہ یہ سبقت کم یا زیادہ ہوتی رہی ہے، اور آہستہ آہستہ ان کی اوسط سبقت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہیلری کلنٹن بہت کم مارجن سے جیت پائیں گی، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ جس قماش کا آدمی ہے اسے دیکھتے ہوئے اُن کو بہت بڑے مارجن سے جیتنا چاہیے۔ لیکن ان کی اپنی صلاحیتوں پر امریکی قوم کو بہت زیادہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ ایک کامیاب صدر بن سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر وہ اس بار انتخابات جیت بھی جائیں تو آئندہ مدتِ صدارت کے لیے شاید ہی دوبارہ نامزد ہوسکیں۔ ان کے خلاف شروع ہی سے ای میل اسکینڈل بنا ہوا ہے جس نے ان کو پریشان کررکھا ہے۔ اس میں اب وہ ای میلز بھی شامل ہوگئی ہیں جو اُن کی دستِ راست اور انتخابی مہم کی روحِ رواں مسلم امریکی خاتون ہما عابدین نے بھیجے تھے۔ جس زمانے میں ہیلری کلنٹن سیکرٹری آف اسٹیٹ کی اہم ترین پوسٹ پر فائز تھیں اُس دور میں انہوں نے دفاعی نوعیت کی اہم ای میلز بھیجنے کے لیے نجی ID’s استعمال کی تھیں جو منظرعام پر آگئیں اور اس کو ہیلری کلنٹن کی غفلت قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومتی اداروں نے اب تک اس معاملے میں ہیلری کلنٹن کو ملوث قرار نہیں دیا لیکن اب امریکی تحقیقاتی ادارے FBI نے نئے سرے سے اس معاملے کی تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور چونکہ انتخابات میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے اس لیے ان تحقیقات کی رپورٹس انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ ان کے ارب پتی حریف ڈونلڈ ٹرمپ جو انتخاب جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اس معاملے پر ہیلری کلنٹن کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ جارحانہ رویہ ہی ہیلری کلنٹن کے حق میں جاتا ہے۔ جب صدارتی مکالموں (Debates)کے موقع پر دونوں امیدواران آپس میں براہِ راست مخاطب ہوتے تھے اور ایک دوسرے سے سوالات کرتے، جملے کستے اور طنز و تشنیع کے تیر برساتے تو اس معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ حد درجہ ناشائستہ ہوتا تھا اور وہ ہیلری پر رکیک حملے کرنے سے باز نہ آتے، اس کے مقابلے میں ہیلری زیادہ پُروقار انداز اپناتیں، جس کا ناظرین اچھا تاثر لیتے تھے اور ان کو زیادہ نمبر ملتے تھے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں اِس بار امریکا میں آباد مسلم آبادی بھی بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی مسلم ووٹروں نے بارک حسین اوباما کی حمایت میں خاصی سرگرمی دکھائی تھی، کیونکہ ری پبلکن پارٹی اوباما کے خلاف اس کی مسلم شناخت کو ہدف بنا رہی تھی، کیونکہ ان کا باپ مسلمان تھا۔ لیکن امریکی رائے عامہ نے اس نکتے کو نظرانداز کرتے ہوئے اوباما کو دو بار امریکی صدر منتخب کیا۔ اِس بار اس دلچسپی کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہ ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی تقاریر میں بار بار اسلامی انتہا پسندی کو ہدف بنایا ہے اور امریکا میں موجود مسلمان تارکین وطن کے خلاف بیانات دئیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں نے زیادہ بڑی تعداد میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کا عندیہ ظاہر کیا۔ ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن نے اپنے ایک بڑے پروگرام میں ایک مسلمان امریکی میرین کے والدین کو مدعو کیا جو عراق میں امریکی فوجیوں کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا تھا اور اس کو اپنی دلیری اور ساتھیوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے پر قومی ہیرو کا مقام دیا گیا تھا۔ ان والدین نے اپنے پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کی جو امریکی مسلم شہریوں کی ملک سے وفاداری پر شک کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو امریکا سے نکالنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس طرح گویا ڈیمو کریٹک پارٹی نے امریکی انتخابات میں مسلمان ووٹروں کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو اپنی مہم کا حصہ بنا لیا ہے۔
اس طرح خود ہیلری کلنٹن نے بھی اپنے اُس رویّے کی نفی کردی جو گزشتہ صدارتی انتخابات میں انہوں نے اپنایا تھا۔ جب وہ بارک اوباما کے خلاف پارٹی ٹکٹ کے لیے مہم چلا رہی تھیں تو ایک مسلم ادارے کی جانب سے دئیے گئے عطیہ کو انہوں نے واپس کردیا تھا۔ اِس بار انہوں نے امریکی مسلمانوں کے عطیات کو قبول کیا اور ان کو اپنی انتخابی ٹیم کا حصہ بھی بنایا۔ امریکی انتخابی فہرستوں میں اب تک مسلم ووٹرز کا تناسب 3فیصد سے زائد نہیں، البتہ بعض ایسی ریاستیں جو Swing Statesکہلاتی ہیں وہاں محض چند ووٹوں کے اِدھر اُدھر ہوجانے سے بھی خاصا فرق پڑ سکتا ہے۔ ان ریاستوں میں ایری زونا، فلوریڈا، شمالی کیرولائنا، ورجینیا اور اوہائیو شامل ہیں۔ یہاں اب تک کے عوامی سروے میں دونوں امیدوار برابر برابر نظر آتے ہیں۔ اس لیے ان ریاستوں کے الیکٹورل ووٹ کا حصول دونوں امیدواروں کے لیے بہت اہم ہے۔ امریکی انتخابات کے طریقہ کار اور نتائج کے اعلان کا بھی نرالا انداز ہے۔ ہر ریاست کے لیے مخصوص الیکٹورل ووٹ ہیں۔ صدارتی امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے اس کو الیکٹورل ووٹ الاٹ کیے جاتے ہیں جس کا سرٹیفکیٹ ریاستی گورنر جاری کرتا ہے۔ دو ریاستوں میبن اور نبراسکا میں جیتنے والے امیدوار کو سارے الیکٹورل ووٹ مل جاتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو زیادہ آبادی والی ریاستوں میں حمایت حاصل ہے، جن میں نیویارک، نیو جرسی، ایلی نائز اور کیلی فورنیا شامل ہیں۔ جب کہ ٹیکساس میں قدامت پسندوں کی اکثریت ہے جو ری پبلکن پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی انتخابی نظام کی برکت سے بارک اوباما نے 53 فیصد عام ووٹ لے کر 68 فیصد الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ ووٹروں کو ووٹ کے لیے پہلے اپنے آپ کو رجسٹر کرانا پڑتا ہے۔ اس طرح بعض ریاستوں میں آپ قبل از یومِ انتخاب بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ امریکا میں مقیم مسلم کمیونٹی کی قیادت نے اس بار زیادہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو اپنا ووٹ رجسٹر کرانے کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ انہوں نے مسلمانوں کو باور کرایا کہ اگر آپ اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں تو وائٹ ہاؤس اور کیپٹل ہل میں اپنے نمائندے بھیجیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے ووٹ رجسٹر بھی کرائیں اور وقت پر پول بھی کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے بھی مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں کردار ادا کیا اور وہ مسلمان گھرانے جو بالعموم امریکی انتخابات سے الگ تھلگ رہتے تھے انتخابی مہم میں شامل ہوگئے۔ شکاگو میں مسلم ڈیموکریٹ کے قائد جناب عبدالملک مجاہد نے ہیلری کلنٹن کے حق میں زبردست مہم چلائی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے باقاعدہ انتخابی فنڈ قائم کرکے مسلمانوں سے عطیات جمع کیے اور پھر رضاکاروں کی ایک ٹیم بناکر مسلمان ووٹروں کو ڈیموکریٹک امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کیا۔ انہوں نے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی کو مسلمانوں کے لیے مشکلات کا باعث قرار دیا، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ کئی معاملات میں ہیلری کلنٹن کی کامیابی مسلمانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے گی۔
امریکا میں اسلاموفوبیا ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے جس سے معاشرے میں مذہبی رواداری کا خاتمہ اور منافرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بحیثیت صدر مسلمانو ں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں یا ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان دے سکتے ہیں جو مسلم کمیونٹی کے لیے ضرر رساں ہو۔ وہ ایک منہ پھٹ اور متکبر انسان ہیں اور کسی وقت بھی گالم گلوچ کرسکتے ہیں یا کسی پر پھبتی کس سکتے ہیں۔ اس انتخابی مہم کے دوران وہ ایسا کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ دونوں پارٹیوں میں یکساں طور پر ان کا مخالف ہے اور ان کی کامیابی کو امریکا کی تباہی قرار دیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس کے باوجود ہیلری کلنٹن سے برابر کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ہیلری کلنٹن کی نسبتاً کمزور شخصیت بھی ہے۔ بہت سے لوگ ان کو پسند کرتے ہیں لیکن وہ ایک مضبوط امریکی صدر چاہتے ہیں جو ان کی صورت میں نہیں مل سکتا۔ اگر ڈیموکریٹک پارٹی دوسرے نمبر پر موجود صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کو اپنا امیدوار بناتی تو وہ زیادہ عوامی مقبولیت حاصل کرسکتے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی جس کو تارکینِ وطن، سیاہ فام لوگوں اور مزدور طبقات کی نسبتاً زیادہ حمایت حاصل ہے، سینڈرز کی شکل میں وہ غریبوں اور نوجوانوں کے لیے زیادہ کشش رکھتی۔ سینڈرز اقتصادی اصلاحات اور مظلوم طبقات کے مسائل پر بات کرتے تھے لیکن ہیلری کلنٹن اس معاملے میں زیادہ مقبول نہیں، البتہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے صدر بارک اوباما کے پہلے دور میں انہوں نے اپنی حیثیت منوائی تھی اور سفارتی میدان میں ان کی ریٹنگ کافی بہتر رہی تھی۔ جیتنے کی صورت میں وہ پہلی امریکی خاتون صدر ہوں گی۔ ان سے پہلے کسی امریکی خاتون کو یہ عہدہ نہیں ملا ہے۔ اس سے پہلے بارک اوباما بھی پہلے سیاہ فام امریکی صدر بنے تھے۔ یعنی امریکی معاشرے میں روایت شکنی کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ جنگ و جدل سے نفرت بھی امریکیوں میں رواج پارہی ہے اور طاقت کا بے تحاشا استعمال اب ان کے لیے اس طرح پسندیدہ نہیں رہا جیسا کہ ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ عراق کی جنگ میں کودنے کا فیصلہ اب وہاں کا ایک غیر مقبول عمل ہے جس کی مثال دی جاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ رونالڈ ریگن اور جارج بش کی طرح جنگی رویہ رکھتے ہیں اور طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، اور یہی ان کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔ قدامت پسند امریکی اور مذہبی فرقہ پرست انہیں طاقت اور قوت کی نشانی تصور کرتے ہیں اور ان کے صدر بننے کی صورت میں امریکی شوکت و سطوت کا عروج دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اپنے عروج تک بہت پہلے پہنچ چکا ہے۔ وہ دنیا کو یک قطبی بنا چکا ہے۔ اب تو اُس کے زوال کا دور شروع ہے۔ شام میں وہ اپنی مرضی چلانے میں ناکام رہا ہے۔ عراق میں بھی اس کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ افغانستان میں اس کی فوجی موجودگی متنازع ہے۔ امریکی شہری جو سہولتیں اور شہری آزادی چاہتے ہیں وہ جنگی صورت حال میں ان کو نہیں مل سکتی۔ وہ حالتِ امن ہی میں ممکن ہے۔ منگل8 نومبر2016ء کو امریکی صدارتی انتخابات میں گدھے اور ہاتھی کا مقابلہ ہوگا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے جب کہ ری پبلکن پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ دنیا بھر میں ان انتخابات کا چرچا ہے اور لوگ بڑی دلچسپی سے انتخابی عمل کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہے ہیں۔ عالم انسانیت اس وقت جس گرداب میں ہے اور جو تنازعات علاقائی جنگوں کی صورت میں اٹھ رہے ہیں اس کا جواب امریکی صدر کے انتخاب کی صورت میں کیسے مل سکتا ہے، اس کا سب کو انتظار رہے گا۔