عالم اسلام

231

سلطان محمد رابح کے تختِ شاہی سے دست بردار ہونے کے بعد عثمانی سلطنت کا تاج سلیمان ثانی کے سر پر سجایا گیا۔ سلطان محمد رابح کی شہرت ایک دیندار، پابندِ صوم و صلوٰ ۃ اور علم کے دلدادہ سلطان کی رہی۔ اس کا زیادہ تر وقت یورپ کے محاذ پر جنگ و جدل اور یورپی حکمرانوں سے مفاہمت کی کوششوں میں گزرا۔ اس کے باوجود اُس کے دور میں تجارت اور تعلیم کے میدان میں بہت کام ہوا۔ سلیمان ثانی کی خلافت کا فیصلہ بھی صدراعظم احمد فاضل کوپریلو اور شاہی خاندان کی مشترکہ مشاورت سے ہوا تھا۔ خلیفہ سلیمان ثانی سابق خلیفہ محمد رابح کا چھوٹا بھائی تھا۔ سلطان سلیمان نے محض چار سال حکمرانی کی اور 1687ء سے 1691ء تک خلافتِ عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی۔
وہ 15 اپریل 1642ء کو توپ قاپی محل، استنبول میں پیدا ہوا اور 1691ء میں اپنے انتقال تک عہدۂ سلطانی پر موجود رہا۔ اس طرح سلطان سلیمان ثانی نے پینتالیس سال کی زندگی میں اقتدار سنبھالا۔ دیگر شہزادوں کی طرح سلیمان ثانی کی زندگی بھی حرم میں ہی گزری۔ قارئین کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ عثمانی سلاطین کے دور میں شہزادوں کے حرم میں زندگی گزارنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کو اقتدار سے دور رکھا جائے، اس طرح وہ حرم کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہوجائیں کہ ان کو بغاوت اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیال تک نہ آئے۔ ان شہزادوں کو امور مملکت سے دور رکھا جاتا۔ پچھلے سلاطین نے شہزادوں کو بے دریغ قتل کرنے کی روایت قائم کی تھی۔ مگر اس کے بعد شہزادوں کو حرم کی زندگی تک محدود کرکے رکھ دیا جاتا۔
سلیمان ثانی کی خلافت کا دور بھی افراتفری کا دور تھا۔ شاہی فوج کی بغاوت جاری رہی اور ان کے مطالبات میں روزانہ اضافہ ہی ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ بغاوت کے اثرات سے وزیراعظم سیاوش پاشا تک محفوظ نہ رہ سکے۔ ان کے خلاف باغی افواج نے بہت برا سلوک کیا۔ ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور سارا سامان لوٹ لیا گیا۔
اس بغا وت کا عیسائی حکمرانوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ آسٹریا اور ہنگری کے محاذ پر انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی حملے کیے اور اہم دفاعی چوکیوں کو ترکوں کے قبضے سے واپس لینے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم یہ بھی ہوا کہ جو مذہبی مراعات عیسائی رعایا کو حاصل تھیں اس وجہ سے بہت سے علاقوں میں عیسائیوں نے اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی اور عثمانی حکومت میں بخوشی شامل ہوئے۔ اس کی اہم وجہ جہاں عیسائیوں کو ملنے والی مراعات تھیں وہیں عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے آپس میں روا رکھے جانے والے مظالم بھی تھے۔ جیسے جہاں پروٹسٹنٹ حکمران تھے وہ دوسرے فرقے کیتھولک کو زبردستی پروٹسٹنٹ بننے پر مجبور کرتے، اور جو اُن کی حکم عدولی کرتا اس کو سخت ترین اذیتوں سے دوچار کیا جاتا۔ یہاں تک ہوتا کہ ان کی آبادیوں کو آگ لگا دی جاتی۔ اسی طرح کیتھولک اثر والے علاقوں میں پروٹسٹنٹ اس عذاب کا شکار تھے۔ ان کو بھی انہی مظالم کا سامنا تھا جو وہ کیتھولک فرقے پر کرتے تھے۔ پھر پاپائے اعظم کی جانب سے مذہبی بے عقیدگی کے الزام میں بہت سے عیسائیوں کو موت کا حکم جاری ہوتا رہا، جس کی ایک بڑی مثال مورہ رومی کے علاقے کی ہے جہاں کے لوگ عیسائی تو ضرور تھے مگر نہ کیتھولک تھے اور نہ ہی پروٹسٹنٹ فرقے کے ماننے والے تھے۔ پاپائے اعظم کی طرف سے انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ کیتھولک مذہب اختیار کرلیں۔ نافرمانی کی صورت میں زندہ آگ میں ڈالنے کا حکم تھا۔
مورہ رومی کے معززین کا ایک وفد سلطان سلیمان سے ملا اور درخواست کی کہ ان کے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے پاپائے اعظم کے ظلم سے نجات دلائی جائے۔ چنانچہ ان کی درخواست پر مورہ رومی کے علاقے کو سلطنت میں شامل کیا گیا اور ان عیسائیوں کو مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی معاملات چلانے کا اختیار دیا گیا۔
پچاس سال کی عمر میں سلطان سلیمان غازی کا انتقال ہوا۔ سلطان سلیمان ثانی تین سال آٹھ مہینے خلیفہ رہے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، لہٰذا ان کے بھائی غازی احمد خان ثانی سلطنت عثمانی کے فرماں روا قرار پائے۔
سلطان غازی احمد خان ثانی نے اپنے بھائی کی طرح محمد کوپریلو کو صدراعظم برقرار رکھا اور ان کی مشاورت سے معاملاتِ مملکت چلائے۔
محمد کوپریلو ایک عظیم جنگجو بھی تھے۔ 19 اگست1691ء کو آسٹریا کے ایک محاذ پر وہ اپنی افواج کے ساتھ عیسائی یلغار کا سامنا کررہے تھے کہ ایک حملے میں شہید ہوگئے۔ یہ صدمہ عثمانی سلطنت کے لیے حقیقت میں بہت بڑا تھا، چونکہ جس کمالِ حکمت و تدبر کے ساتھ صدراعظم محمد کوپریلو نے معاملات سنبھالے اور اندرونی اور بیرونی محاذوں پر عثمانی سلطنت کا دفاع کیا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کے بعد عرب جی علی پاشا صدراعظم مقرر ہوئے۔
غازی احمد خان ثانی نے 54 سال کی عمر میں چار سال آٹھ مہینے خلافت کی اور دارِفا نی سے کوچ کیا۔ ان کو دادا سلمان اول کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔
ان کے انتقال کے بعد غازی سلطان مصطفی خان ثانی ابن سلطان محمد الرابح مسندِ خلافت پر سرفراز کیے گئے۔ خلافت سنبھالتے وقت غازی سلطان مصطفی خان ثانی کی عمر 32 سال تھی۔ جوانی کا جوش تھا اور جذبۂ جہاد رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ خلافت سنبھالتے ہی چوتھے دن اعلان کیا کہ وہ خود فوج کی قیادت کرتے ہوئے پولینڈ کے محاذ پر جائیں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی وہ اپنے ساتھ مجاہدین کا ایک لشکر لے کر پولینڈ کے محاذ پر روانہ ہوگئے جہاں پہلے سے عثمانی افواج برسر پیکار تھیں۔ یہاں پر روسی شہنشاہ پطرس اعظم اور اس کے اتحادیوں کو کئی معرکوں میں ناقابلِ فراموش شکستوں سے دوچار کیا۔
ان کے دورِ اقتدار کا سب سے افسوسناک واقعہ معاہدۂ کارلووٹز تھا جسے سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ہنگری سلطنت کے دائرۂ اختیار سے نکل گیا۔
یورپی مسیحیوں نے اس اثناء میں مسئلہ شرقیہ کے نام سے ایک سازش تیار کی جس کے مطابق سلطنتِ عثمانیہ کو یورپ سے بے دخل کرکے سلطنت کے یورپی حصوں پر اپنا تسلط قائم کرنا تھا۔ اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ دینِ مسیح کی حفاظت کی جائے اور مسلمانوں کو یورپی علاقوں سے نکال باہر کیا جائے۔
عثمانی سلطنت کو درپیش خطرات میں سب سے بڑا خطرہ ایک طرف روس اور آسٹریا سے تھا، تو دوسری جانب تحائف مقدسہ کے نام پر پاپائے اعظم کے پُرامن معاہدوں کا سازشی جال تھا۔ اور عثمانی سلطنت اس جال میں پھنس چکی تھی۔
غازی سلطان مصطفی خان ثانی ان امن معاہدوں کے نتیجے میں سلطنت کو کمزور ہوتا دیکھ رہا تھے۔ لہٰذا انہوں نے اندرونی معاملات پر توجہ دینے کی کوشش کی مگر شاہی افواج کی خودسری کے آگے کچھ نہ کرپائے۔ غازی مصطفی خان کی اصلاحی کوششیں بیکار جارہی تھیں۔ افواج باغی ہوچکی تھیں۔ اس مرتبہ افواج نے غازی مصطفی خان ثانی کا گھیراؤ کرلیا اور 15 اگست 1703 عیسوی کو انہیں معزول ہونے پر مجبور کیا۔ وہ معزول ہونے کے بعد پانچ ماہ زندہ رہے اور دسمبر 1703 عیسوی کو انتقال کرگیا۔
غازی مصطفی خان ثانی کے بعد ان کے بھائی غازی احمد ثالث بن محمد الرابح کو تخت پر بٹھایا گیا۔ یہ انکشاریہ فوج (کرائے کی فوج) کی مدد سے تخت نشین ہوئے تھے۔ اس لیے کچھ عرصہ تک فوج ان سے خوش رہی، مگر جلد ہی مزید مراعات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ مگر سلطان غازی احمد ثالث ان سے سخت طریقے سے نمٹنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ سلطان نے بہت وسیع پیمانے پر ان کے خلاف کارروائی شروع کی۔ شرعی عدالتوں سے سزائیں دلوائیں اور جو فوجی شہریوں کے قتل میں ملوث پائے گئے ان کو قصاص میں قتل کروایا۔ اس ایکشن کا فائدہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر امن قائم ہوگیا۔
ایک اور اہم کام یہ بھی کیاکہ وزیراعظم احمد نشانچی کو معزول کردیا۔ احمد نشانچی انکشاری افواج کا حمایت یافتہ تھا اور درپردہ سازشوں میں آلہ کار ثابت ہوا تھا۔ احمد نشانچی کی جگہ اپنی بہن کے شوہر حسن پاشا کو وزیراعظم نامزد کیا۔ یہ پچھلے کے مقابلے پر زیادہ قابلِ اعتماد تھے۔ حسن پاشا دیندار اور نہایت باصلاحیت وزیر ثابت ہوئے۔ مگر شرپسندوں نے ان کو کام کرنے کا زیادہ موقع نہیں دیا۔ حسن پاشا جلد ہی اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
1130 ہجری میں ابراہیم پاشا وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس دوران ایران نے ایک مرتبہ پھر افغانوں کی مدد سے عثمانی سلطنت میں مداخلت شروع کی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے بحر خزرکے پر قبضہ جما لیا۔ روس کی نگاہیں اب پورے ایران پر قبضہ کرنے پر مرکوز تھیں۔ جبکہ ایران کا بہت سا علاقہ عثمانی سلطنت میں بھی شامل تھا۔ ابراہیم پاشا نے عثمانی افواج کو پیش قدمی کا حکم جاری کیا اور روس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو عثمانی ایرانی علاقوں تک آنے سے روکے رکھا۔1724عیسوی میں روس نے اس موقع پر فرانس کو ساتھ ملاتے ہوئے ایک معاہدہ کیا کہ اب روس اپنی فوجوں کو عثمانی سلطنت میں داخل نہیں کرے گا۔
اس وقت فوج نے یہ غوغا بلند کردیا کہ وزیراعظم ایرانیوں سے مل گئے ہیں اور سازش تحت روس کو ایران پر حملہ کرنے سے روکا ہے۔ ان باغیوں نے امیرالبحر اور وزیر جنگ دونوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں دریا میں بہا دیں۔ افواج کی بغاوت نے یہ رنگ دکھلایا کہ انتہائی نازک وقت میں خلیفہ غازی احمد ثالث اپنے بھتیجے سلطان محمود اول کے حق میں1730 عیسوی میں دستبردار ہوکر کنارہ کش ہوگئے۔ کنارہ کشی کے چھ سال بعد 1736 عیسوی میں اس دنیا سے کوچ کیا۔
خلیفہ غازی احمد ثالث کے ہی دور میں ترکی میں پہلا چھاپہ خانہ (مطبع خانہ) قائم ہوا۔ اس حوالے سے اہم بات قارئین تک ضرور پہنچنی چاہیے کہ اُس وقت کے مفتی اعظم نے اس شرط پر اس کے قیام کی اجازت دی تھی کہ قرآن مجید کی طباعت کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خدانخواستہ طباعت کے دوران اس بات کا خدشہ تھا کہ شرپسند عناصر اس میں کسی قسم کی تحریف کردیں۔
( جاری ہے )

حصہ