معجزوں کے ذریعے انسان کو ایمان لانے پر مجبور کرنا اللہ کی اسکیم میں شامل نہیں۔ آیت نمبر 34، 35 میں ارشاد ہوا:
(ترجمہ)’’اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔‘‘
اس کائنات میں زمین کی حیثیت ہی کیا ہے؟ اور اس زمین پر دوسری تمام مخلوقات کے سامنے انسان کی حقیقت ہی کیا ہے؟ بس فرق یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو ارادے کی آزادی بخشی ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اپنے آزاد ارادے سے کون اس کی طرف آتا ہے۔ داعی کا کام دعوت کا ابلاغ ہے۔۔۔ اس سارے کام کی نگرانی اللہ خود کررہا ہے۔ اب جس پر حق منکشف ہوجائے اور وہ دعوتِ حق کے لیے اپنا سب کچھ لٹاکر کھڑا ہوجائے، اسے دعوت کی قبولیت کی جلدی ہونا فطری بات ہے۔ اس کے لیے وہ ہر طریقہ آزماتا ہے۔۔۔ ہر دروازہ کھٹکٹاتا ہے۔ اس بے صبری کی اللہ کی اسکیم میں گنجائش نہیں۔ اس طرح داعی اور دعوت کے غلط راہوں پر چلے جانے کے امکانات ہیں۔ اِسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ۔ معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس حسین معاشرے کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمود کو توڑنے کے لیے کسی محسوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا۔ مگر ہم سے امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے، کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ (حاشیہ نمبر :23)
آیت نمبر 111 میں ارشاد ہوا:
’’اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کردیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، اِلّا یہ کہ مشیّتِ الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں۔‘‘
یعنی یہ لوگ اپنے اختیار و انتخاب سے تو حق کو باطل کے مقابلے میں ترجیح دے کر قبول کرنے والے ہیں نہیں۔ اب اِن کے حق پرست بننے کی صرف ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ عملِ تخلیق و تکوین سے جس طرح تمام بے اختیار مخلوقات کو حق پرست پیدا کیا گیا ہے اسی طرح انھیں بھی بے اختیار کرکے جِبلّی و پیدائشی حق پرست بنا ڈالا جائے۔ مگر یہ اُس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا تمہارا یہ توقع کرنا فضول ہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اپنے حکم سے ان کو مومن بنائے گا۔(حاشیہ نمبر :78)
کسی دوسرے کے اعمال کی ذمہ داری داعی پر نہیں
داعی کی خواہش ہوتی ہے کہ معاشرے کے اوپینین لیڈرز دعوت قبول کرلیں تاکہ ان کے پیچھے چلنے والے لوگ آپ سے آپ دعوت قبول کرتے چلے جائیں۔ اس لیے اُس کی توجہ ہر طبقے کے لیڈروں پر زیادہ ہوتی ہے، اور عام لوگوں پر کم۔۔۔ بلکہ بعض اوقات انہیں نظرانداز بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن اس طرزِ فکر وعمل کو مسترد کرتا ہے، اور ہدایت کرتا ہے کہ دعوت پیش کرنے میں کسی قسم کا امتیاز نہ برتو، سب کے سامنے دعوت پیش کرو اور جو لوگ دعوت قبول کریں، چاہے وہ کمزور ہوں، لیکن تمہاری توجہ ان کی جانب ہونی چاہیے۔ آیت نمبر 52 میں ارشاد ہوا:
’’اور جو لوگ اپنے ربّ کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو۔ اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار اُن پر نہیں۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
ہر شخص اپنے اچھے اور برے عمل کا ذمہ دار خود ہی ہے۔کسی کی جوابدہی کے لیے داعی کو کھڑا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی داعی کی جواب دہی کے لیے کوئی اور کھڑا ہوگا۔ وہاں کوئی کسی کی نیکی چھین نہیں سکتا اور نہ اپنے حصے کی کوئی بدی کسی پر ڈال سکے گا۔ اس لیے جو طالبِِ حق بن کر آئے اسے گلے لگاؤ، انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو۔ اور نافرمانوں کے پیچھے نہ پڑو، اہلِ دعوت پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے، نہ ان کا فرض ہے کہ ان سے بحث و مناظرہ کرکے ضرور انہیں قائل کرکے ہی چھوڑیں۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات اُن کے سامنے پیش کردیں۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اتر آئیں تو اہلِ حق کا یہ کام نہیں ہے کہ اُن کے ساتھ دماغی کُشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں۔ گم راہی پسند کرنے والوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو اُن لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنا چاہیے جو خود طالبِ حق ہوں۔ (ماخوذ از حاشیہ نمبر :35 :45)
اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے والوں کے پاس نہ بیٹھو
اسلام مکہ مکرمہ میں کمزور حالت میں تھا، جیسا کہ آج کمزور ہے۔۔۔ لوگ اپنی مجلسوں میں اسلام کا، پیغمبرِ اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ اہلِ ایمان کو وہاں بیٹھنے اور بحث و مباحثہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ انہیں ہدایت کی گئی کہ ایسی جگہ نہ بیٹھو جہاں ہماری آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ آج الیکٹرانک میڈیا پر ڈراموں اور ٹاک شوز میں اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور مسلمان انہیں یکطرفہ طور پر دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس طرح بار بار ایک چیز کو سن اور دیکھ کر دلوں میں شک پیدا ہونا یقینی ہے۔ اس لیے ہمیں اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایسے پروگراموں کو دیکھنے سے بچنا چاہیے۔ آیت نمبر 68، 69 میں ارشاد ہوا:
’’اور اے محمدؐ، جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کررہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ، یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھُلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہوجائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔ اُن کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمہ داری پرہیزگار لوگوں پر نہیں ہے، البتہ نصیحت کرنا اُن کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں۔‘‘
داعی کا کام
آیت نمبر 104 میں ارشاد ہوا:
’’دیکھو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا، اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں۔‘‘
آیت نمبر 106 اور 107 میں ارشاد ہوا:
’’اے محمدؐ! اُس وحی کی پیروی کیے جاؤ جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، کیونکہ اُس ایک رب کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ اور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو۔ اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔‘‘
داعی کا کام بس اتنا ہی ہے کہ وہ نورِ ہدایت کو لوگوں کے سامنے پیش کردے۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا لوگوں کا اپنا کام ہے۔ داعی کے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کررکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولے، اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انھیں دکھا کر ہی چھوڑے۔ داعی کا کام دراصل دعوت کا ابلاغ ہے، اسے تھانیدار نہیں بنایا گیا۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اِس روشنی کو پیش کرے اور اظہارِ حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمہ داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقۂ دعوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ اگر فی الواقع حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا ایک ہی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست بنا سکتا تھا۔ مگر مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کرکے اُس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ نورِ ہدایت کے اُجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انھیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں اُن کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجامِ بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مُصِر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دو۔ (ماخوذ از حاشیہ نمبر :69:71)
دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو گالی نہ دو
آیت نمبر 108 میں ارشاد ہوا:
’’اور اے ایمان لانے والو! یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔‘‘
یہ نصیحت نبیؐ کے پیروؤں کو کی گئی ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ بھی اتنے بے قابو نہ ہوجائیں کہ مناظرے اور بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقائد پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشواؤں اور معبودوں کو گالیاں دینے تک پہنچ جائے، کیونکہ یہ چیزیں ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دور پھینک دیں گی۔ (حاشیہ 72)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین۔