پروفیسر مسلم سجاد
حافظ محمد ادریس
28 اگست 2016ء کو اچانک رات کے وقت اطلاع ملی کہ جناب مسلم سجاد نائب مدیر ماہنامہ ’’عالمی ترجمان القرآن‘‘ وفات پاگئے ہیں۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اسی روز میں نے مغرب کی نماز میں ان کے بیٹے سے پوچھا کہ مسلم صاحب دو دن سے مسجد میں نظر نہیں آرہے، تو اس نے کہا کہ ابو غسل خانے میں گر گئے تھے اور ان کے کچھ چوٹیں لگ گئی ہیں۔ میں نے تشویش سے پوچھا کہ ایکسرے وغیرہ کرایا ہے؟ کہیں کوئی فریکچر تو نہیں ہوا؟ تو اس نے جواب دیا: ہاں ایکسرے کروایا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ میں نے کہا: رات کے وقت تو مناسب نہیں، کل دن کے وقت میں ان شاء اللہ ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوں گا۔ کسے معلوم تھا کہ اگلا دن طلوع ہونے سے پہلے مسافر اپنی منزل پہ جاچکا ہوگا۔ یہی انسان کی داستانِ حیات ہے اور یوں ہی اس عالم فانی سے مسافرانِ عدم اپنی منزل کو چپ چاپ سدھار جاتے ہیں۔
مرحوم منصورہ مسجد کے پانچوں وقت کے مستقل نمازی تھے۔ جس روز مسجد میں نظر نہ آتے تو یقین ہوجاتا کہ موصوف یا تو شہر سے باہر ہیں یا صاحبِ فراش ہیں۔ آخری دنوں میں جب چلنا پھرنا خاصا مشکل ہوگیا تھا تو بھی اپنے بیٹے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر مسجد پہنچتے، حالانکہ ان کی رہائش مسجد سے چند قدم کے فاصلے پر جماعت کے فلیٹ میں تھی۔ اگلی صبح فجر کی نماز میں ان کے بیٹوں انس اور زید سے ملاقات ہوئی۔ ان کے والد مرحوم کی وفات پر ان سے تعزیت کی اور ان سے پوچھا کہ تدفین وغیرہ کے انتظامات میں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو بلاتکلف بتا دیں۔ انھوں نے بتایا کہ سارے انتظامات کے بارے میں تحریکی ساتھیوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ البتہ ہم سب کی خواہش ہے کہ نمازِ جنازہ آپ پڑھائیں۔ میں نے کہا یہ سعادت ہے کہ میں آپ کے عظیم والد اور اپنے محترم بھائی کے جنازے میں شریک ہوں گا۔
مسلم بھائی کی تعزیت کے لیے دوست احباب ان کے گھر کے پڑوس میں جناب مظہرمحمود صدیقی (شعبہ مالیات) کے مکان میں بیٹھے تھے۔ وہاں حاضری دی تو مسلم صاحب کے سسرالی خاندان کے ارکان ملتان سے تشریف لاچکے تھے۔ ہر شخص ان کی یادوں کے دریچے وا کررہا تھا اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے ایمان افروز واقعات سے مجلس میں چراغاں کا سماں تھا۔ نماز ظہر کے بعد جنازہ تھا۔ شدت کی گرمی اور حبس تھا۔ یہ طے ہوا کہ نمازِ جنازہ مسجد ہی میں ادا کی جائے۔ مرحوم کے ورثا کی درخواست تھی کہ جنازہ بالجہر پڑھا جائے۔ محترم امیر جماعت منصورہ میں موجود نہیں تھے، قیم جماعت جناب لیاقت بلوچ صاحب نے مرحوم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم بھائی ہرشخص کا بے لاگ احتساب کرتے تھے۔ بعض اوقات احباب ان کی مداخلت کو بے جا اور بلاجواز بھی قرار دیتے، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی رائے ان کے اخلاص پر مبنی ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے منفرد شخص تھے۔ اس طرح کے افراد سے یقیناًبہت سارے لوگوں کو بعض اوقات شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں، مگر اس بات کی ہر شخص گواہی دے گا کہ مرحوم جو بات بھی کہتے، نیک نیتی کے ساتھ کہتے تھے۔ اگر کسی کا ان کے ساتھ لین دین ہو تو ان کے ورثا اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ اگر کوئی رنجش ہو تو اسے اللہ کی خاطر معاف کردینے کی درخواست ہے۔ قیم جماعت اسلامی کی گفتگو کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی۔
مسلم بھائی کی وفات پر ان کے بہت سے چاہنے والوں نے مضامین لکھے ہیں۔ اکثر وبیشتر احباب نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ مسلم بھائی ہرچیز کو ناقدانہ اور احتسابی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ پھر زبان اور قلم سے فوراً اس کا اظہار کرتے اور یہ بھی اصرار فرماتے کہ اس کا جواب انھیں ضرور ملنا چاہیے۔ اکثر احباب ان کے خطوط کو اپنے پاس محفوظ کرلیتے اور جواب دینے سے اجتناب برتتے۔ مجھے بھی مسلم بھائی اکثر لکھتے رہتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ ان کا نقطۂ نظر یک طرفہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ تنقید کے ساتھ جہاں انھوں نے کسی بات کو تحریر یا گفتگو میں پسند کیا اس کی تحسین میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ زیادہ تر وہ اپنی ناپسندیدہ چیزوں پر گرفت کرتے تھے، مگر یہ کہنا کہ ان کی سوچ محض یک طرفہ اور منفی تھی، بے انصافی ہوگی۔ وہ صلہ کی تمنا اور ستائش کی آرزو سے بالاتر ہوکر ایک ناصح کا کردار ادا کرتے تھے۔
مسلم صاحب سے ابتدائی تعارف اپنے دورِ طالب علمی میں ہوا۔ اس زمانے میں وہ جمعیت سے فارغ ہوچکے تھے اور غالباً ملازمت بھی شروع کردی تھی۔ انگریزی لباس میں ملبوس بالکل بابو نظر آرہے تھے۔ ان سے کراچی میں جمعیت کے دفتر عبدالمالک شہید روڈ پر سرسری سی ملاقات ہوئی اور اس پہلی ملاقات میں یہ محسوس ہوا کہ وہ خاموش طبیعت ساتھی ہیں۔ اگلی ہی ملاقات میں یہ تاثر زائل ہوگیا۔ یہ ملاقات بھی کراچی میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں انھوں نے بعض ساتھیوں کو بڑی کڑوی کسیلی باتیں سنائیں اور ساتھ ہی نصیحت کے انداز میں کہا کہ جمعیت کو علمی میدان میں اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے کتاب سے رابطہ پھر سے جوڑنا پڑے گا۔ تم لوگ کھیل کود وشہرت کے پیچھے بھاگ رہے ہو ۔ یہ کسی عام تنظیم کا کام ہوسکتا ہے جو جمعیت کو زیب نہیں دیتا۔ اس کے بعد طویل مدت تک ان سے نہ کوئی ملاقات ہوئی نہ نامہ وپیام۔ میں بیرونِ ملک چلا گیا اور وہاں سے واپسی پر مرکز جماعت میں ذمہ داریوں میں پھنس گیا۔ اسی عرصے میں مَیں ستمبر1988ء میں ملائشیا کے دورے پر گیا، وہاں سے واپسی پر کراچی میں رکا۔ انھی دنوں کراچی جمعیت کے ایک ساتھی عامرسعید شہید کردیے گئے تھے۔ میں نے ان کی شہادت کے واقعات جسارت میں پڑھے، پھر ان کی والدہ کا ایک خط بھی نظر سے گزرا۔
عامرسعید کی شہادت نے مجھے بہت متاثر کیا اور اس سے زیادہ ان کی والدہ کے خط نے۔ میں نے شہید کے بارے میں ایک تاثراتی مضمون قلم برداشتہ لکھا جو اخبارات میں چھپا۔ مسلم بھائی نے میرا وہ مضمون ’’روزنامہ جسارت‘‘ میں پڑھا اور پڑھتے ہی مجھے ایک خط لکھا جس میں اس تحریر کی بہت زیادہ تحسین کی گئی تھی۔ میرا یہ مضمون میری کتاب ’’مسافرانِ راہِ وفا‘‘ میں شامل ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1993ء میں منظرعام پر آیا۔ یہ مضمون ’’عامرسعید، قافلۂ شہدا کا ایک نیا ساتھی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا تھا۔ مسلم بھائی کی وفات کے بعد اس مضمون کو ایک بار پھر پڑھا تو مسلم صاحب کا وہ خط یاد آیا جو ڈھونڈنے کے باوجود نہ مل سکا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً کراچی سے ان کے خطوط آتے رہتے تھے۔ اکثر خطوط میں شدید تنقید ہوتی تھی، مگر کبھی کبھی کسی بات پر تعریف بھی کردیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ خط بھیجا اور اس کے آخر میں اپنے قلم سے لکھا ’’یہ خط میں نے اپنے بیٹے عدی کو لکھوایا ہے۔ وہ اس وقت چھٹی جماعت میں پڑھ رہا ہے۔‘‘ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ عدی کا خط اپنے والد کے مقابلے میں بڑی آسانی سے پڑھا جاسکتا تھا۔ مسلم بھائی کا خط اگر کمپوز شدہ نہ ہوتا تو اسے پڑھنا خاصا مشکل ہوا کرتا تھا۔
جب مسلم صاحب کراچی سے لاہور منتقل ہوئے تو منصورہ میں ان سے ہر روز کئی ملاقاتیں ہوجاتی تھیں۔ ماہنامہ ترجمان القرآن کی ادارتی نشست میں بھی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر طبع شدہ رسالے کے محاسن ونقائص، فنی، ادبی اور کتابت کے امور پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوتی اور اگلے شمارے کے لیے موضوعات بھی طے کیے جاتے۔ اس کے علاوہ ادارتی عملے کی غفلت اور تسامحات زیربحث آتے اور اچھی چیزوں پر تحسین بھی کی جاتی۔ مسلم صاحب بعض اوقات ساری مجلس کی متفقہ رائے کے علی الرغم اپنی اختلافی رائے کے بارے میں نظرثانی کے لیے آمادہ نہ ہوتے۔ ایسے مواقع پر میں ہمیشہ ساتھیوں سے یہی کہتا کہ آپ نے اپنا فرض ادا کردیا، اب ایجنڈے کے اگلے نقطے پر گفتگو کرلیں۔ مسلم صاحب نے ترجمان القرآن کی اشاعت بڑھانے اور اس کا معیار بہتر کرنے کے لیے جو تگ ودو کی اس کا ہر ساتھی معترف ہے۔ وہ اپنی بیماری کے باوجود ان تھک کارکن تھے۔
منصورہ کے اندر رہنے والے کسی کارکن یا ذمہ دار کو انھوں نے خطوط لکھ کر جھنجھوڑا نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ وہ لکھتے بھی اچھا تھے اور مطالعہ بھی خوب تھا۔ ان کی تحریریں دل چسپی سے پڑھی جاتی تھیں۔ جب کوئی پسندیدہ کتاب یا رسالہ نظر سے گزرتا، یا کہیں کتب کی فہرست دیکھ لیتے تو ضرور اصرار کرتے کہ فلاں فلاں چیزیں خریدو اور معارف کی لائبریری میں رکھو۔ بعض اوقات ان کی تجاویز پر مشکلات کے باوجود ہم نے کئی مطبوعات خریدیں۔ مسلم صاحب نے منشورات کو جس محنت اور لگن کے ساتھ ایک ادارے کے طور پر منظم کیا وہ بھی یادگار ہے۔ جس کام کے پیچھے لگ جاتے جنون کی حد تک اس کی تکمیل میں کوشاں رہتے۔ ایسے لوگ اب ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کا ایک وسیع حلقۂ احباب تھا۔ ان کی وفات پر یہ سارے احباب غم زدہ اور دل برداشتہ ایک دوسرے سے تعزیت کررہے تھے۔
مسلم سجاد، جناب خرم مراد مرحوم کے بھائی تھے۔ یہ خاندان سرگودھا پنجاب میں بھی مقیم رہا اور پھر بھوپال میں مستقل طور پر آباد ہوگیا۔ خرم صاحب کے والد جناب منظورعلی مراد تھے۔ خرم بھائی کے دیگر برادران جناب سعیداخترمراد، حسن قاسم مراد، مسلم سجاد اور اسامہ اسماعیل تھے۔ غالباً مسلم صاحب کی پانچ بہنیں بھی تھیں۔ ایک بہن کی شادی بنگلہ دیش میں ہوئی تھی جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ آغاز میں مسلم صاحب کی سب سے بڑی پہچان جناب خرم مراد مرحوم ومغفور کا چھوٹا بھائی ہونا تھا۔ بعد میں انھوں نے خود اپنا نام پیدا کیا اور بہت وسیع حلقۂ تعارف بنالیا۔ وہ اتنی خط کتابت کرتے تھے کہ تعجب ہوتا ہے مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ وہ اس کے لیے کیسے وقت نکال لیتے تھے۔ ایک دوست نے ان کی زندگی میں مزاح کے انداز میں ان سے کہا: مسلم بھائی! جس روز آپ دو تین تنقیدی خطوط نہ لکھ لیں آپ کا کھانا مشکل سے ہضم ہوتا ہوگا۔ اس پر وہ قدرے جھنجلائے، مگر فوراً سنبھل کر کہنے لگے: میری ساری کاوش کے باوجود تم جیسے لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ قبرستان میں اذان دے رہا ہوں۔ یہ سن کر سب دوست خوب محظوظ ہوئے۔
مسلم صاحب کو اللہ نے چار بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ بڑے بیٹے انس اور ان کے بعد حسان، زید اور عدی ہیں۔ دو بیٹیاں تیمیہ اور طوبیٰ ہیں۔ عدی کی شادی ابوظہبی میں مقیم ہمارے دوست ڈاکٹر شمس الدین مرحوم کی بیٹی سے ہوئی۔ آج کل وہ وہیں مقیم ہیں۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے اولاد سے محروم رکھا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس سعادت مند جوڑے کو نیک اولاد سے نوازے۔ زید کی شادی ہوئی تھی، مگر بدقسمتی سے وہ ناکام ہوگئی، وہ منصورہ میں مقیم ہے۔ باقی دوبیٹوں اور دو بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا ہے۔ اللہ سب کو سلامت رکھے۔ انس میاں ہری پور میں حطار کے صنعتی شہر میں ایک بسکٹ فیکٹری میں ملازمت کررہا ہے۔ حسان کی شادی اپنے ننھیال مقیم ملتان میں ہوئی ہے۔ وہ رأس الخیمہ میں ملازمت کررہا ہے۔ ایک بات عرض کرتا چلوں کہ مسلم صاحب کے سبھی بیٹوں سے بہت مانوسیت ہے، مگر سب سے چھوٹا بیٹا عدی میرا قریبی دوست ہے۔ عمر کے اتنے تفاوت کے باوجود وہ میرے پاس جب بیٹھتا ہے تو یوں ہم اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے کو سناتے ہیں، جیسے ہم عمر جگری یار ہوتے ہیں۔
nn