بلاشبہ اپنے آئینی، سیاسی حق کے لیے احتجاج ایک جمہوری عمل ہے، لیکن کوئی ایسے دھرنے کے بارے میں کیا لکھے جس میں کارکن تو پولیس کے ڈنڈے کھا رہے ہوں اور لیڈرشپ کیمروں کے سامنے آکر پولیس کی مذمت کررہی ہو، گھر کے لان میں ایکسرسائز کررہی ہو! کاش یہ لوگ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف قاضی حسین احمد کا دھرنا دیکھتے، جس میں قاضی حسین احمد پولیس گردی کا نشانہ بنے اور شدید زخمی ہوئے۔ اُس دھرنے کا نتیجہ کچھ بھی نکلا ہو، مگر لیڈرشپ پر کارکن کا اعتماد نہیں ٹوٹا۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) حکومت کے خلاف دوسری بار دھرنا دیا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی مرکزی لیڈرشپ ایک سنجیدہ سیاست کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے پارٹی میں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ عمران خان کو دھرنے پر اکسانے والے کون تھے؟ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے اس کے مؤقف میں وزن تھا اور ہے، لیکن جب معاملہ وہ خود ہی عدالت میں لے گئی ہے تو پھر عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر احتجاج کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ اب روزانہ کی بنیاد پر اس مقدمے کی سماعت کرے گی اور عدالت میں دونوں فریق تحریری طور پر لکھ کر دے چکے ہیں کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے فیصلے سے پہلے فریقین سے کہا ہو کہ وہ فیصلے کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ یہ نوبت اس لیے آئی کہ تحریک انصاف عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت ہر ملکی ادارے کو دباؤ میں لاتی رہتی ہے اور ہر ریٹائرڈ ملازم طرح طرح کی کہانیاں لے کر عمران خان کے پاس پہنچا ہوتا ہے۔ عمران خان بھی ان کی ہر بات پر یقین کرکے دھرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ اداروں کے لیے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہے۔ یہی تو وہ معاملہ ہے جس سے تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کیوں ایمپائر کی جانب دیکھتے ہیں اور عمران خان کا ایمپائر ہے کون؟ اسلام آباد کے سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ دھرنے کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف پسپا ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کہاں پسپا ہوئے؟ جو تلاشی لینے آئے تھے وہ غلط حکمت عملی کے باعث اپنی جیب کٹواکر واپس چلے گئے ہیں۔