آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول اور اس سے ملحقہ ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی طرف سے گولہ باری اور فائرنگ اب معمول بن چکی ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب ان علاقوں میں آباد معصوم شہری، ان کے جانور اور فصلیں بلااشتعال اور بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری کے شکار نہ ہوتے ہوں۔ تازہ واقعہ میں بھارتی فوج نے یکم نومبر کو چارواہ، چپراڑ، ہرپال، مراجکے اور شکرگڑھ سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے چارواہ سیکٹر میں ایک خاتون شہید، جب کہ ایک دوسری خاتون سمیت دو شہری زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر سی ایم ایچ سیالکوٹ منتقل کردیا گیا۔ بھارتی فوج نے اُس روز ایل او سی پر بھمبر کے سماہنی سیکٹر میں بھی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی، جس کا پاکستانی فوج نے حسبِ معمول بھرپور جواب دیا اور بھارتی توپوں کو خاموش کرا دیا۔ اس سے محض ایک روز قبل 31 اکتوبر کو بھی بھارتی فوج کی اس طرح کی فائرنگ اور گولہ باری سے چھ شہری شہید اور آٹھ زخمی ہوگئے تھے۔ قبل ازیں 23، 25، 26 اور 27 اکتوبر کو بھی بھارتی فوج نے سول آبادیوں پر سینکڑوں مارٹر گولے پھینکے اور خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی، جس سے ان دیہات کے آٹھ شہریوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں ایک ڈیڑھ سالہ بچی اور دو خواتین بھی شامل تھیں، جب کہ چالیس سے زائد شہری زخمی ہوئے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کے مطابق ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر یکم نومبر کو پاکستان میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا اور ایک احتجاجی مراسلہ بھی انہیں دیا گیا جس میں بھارت سے جنگ بندی معاہدے کے احترام، اور خلاف ورزیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ نے بھی یکم نومبر کو ایل او سی کا دورہ کیا اور اس علاقہ میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے متاثر ہونے والے شہریوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاک فوج کی جانب سے اس موقع پر فوجی مبصر گروپ کے ارکان کو سرحدی صورت حال پر بریفنگ دی گئی اور حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بھارتی فوج نے رواں سال میں 178 بار جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جس میں بچوں اور خواتین سمیت 19 افراد شہید اور 80 زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے اس فوجی مبصر گروپ نے کوٹلی ہسپتال کا بھی دورہ کیا اور بھارتی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی عیادت بھی کی۔
سرحدی دیہات میں آئے روز کی اس گولہ باری اور فائرنگ کے باعث جہاں انسانی جانی نقصان ہوتا ہے وہیں ان دیہاتوں کے مویشی بھی نشانہ بنتے ہیں، فصلیں تباہ ہوتی ہیں اور ان علاقوں کے باسیوں کو زبردست مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں سرحدی دیہات میں نصف صد کے قریب سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے مجبوراً بند پڑے ہیں اور ہزاروں طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں۔ سرحدی دیہات میں آباد بہادر اور غیور لوگ یقیناًحوصلے اور زندہ دلی سے اس صورت حال کا مقابلہ کررہے ہیں اور اُن کی طرف سے تمام تر مصائب و مشکلات اور جانی و مالی نقصان کے باوجود کبھی کسی کمزوری یا بزدلی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، مگر سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں بسنے والے پاکستانی شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا کیا حکومتِ پاکستان اور ہماری مسلح افواج کی ذمہ داری نہیں ہے؟ یہ بات اپنی جگہ درست اور قابلِ توجہ ہے کہ بھارتی فوج کے طرزِعمل کے برعکس ہماری مسلح افواج جنگ و امن کے بین الاقوامی قوانین کا احترام اور پاسداری اپنے لیے لازم سمجھتی ہیں اور شہری آبادی کو نشانہ بنانا ان قوانین کے علاوہ اسلامی جنگی احکام کی رو سے بھی جائز نہیں، جب کہ ان کی ایک بڑی اور عملی مجبوری یہ بھی ہے کہ اس علاقہ میں جنگ بندی لائن کے اُس پار مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لوگ بھی مسلمان ہیں، جنہیں اپنی جوابی گولہ باری کا نشانہ بنانا پاکستانی مسلح افواج کے لیے ممکن نہیں۔ ان زمینی حقائق نے یقیناًبھارتی ہندو فوجیوں کے حوصلے بہت بڑھا دیئے ہیں اور وہ بلا دریغ جب چاہتے ہیں جنگ بندی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے سرحدی دیہات کے شہریوں کو اپنی اشتعال انگیزیوں کا نشانہ بناتے اور ان کو جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ جواب میں پاکستانی فوج کی جانب سے عموماً ایسی کارروائی کی اطلاع پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے کہ بھرپور جوابی کارروائی کی گئی اور دشمن کی توپوں کو خاموش کرا دیا گیا۔
لائن آف کنٹرول پر تعینات ہمارے فوجی جوانوں اور پالیسی سازوں کی یہ تمام عملی مجبوریاں اور ان کو درپیش زمینی حقائق اپنی جگہ درست، مگر یہ سوال بھی اہم ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کے انتہا پسند حکمرانوں اور مسلح بھارتی دستوں کو آخر کب تک اس بات کی کھلی چھوٹ حاصل رہے گی کہ ایک جانب تو وہ خودارادیت کا پوری دنیا سے تسلیم شدہ اپنا حق مانگنے کے جرم میں اپنے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے کے معصوم شہریوں، بچوں اور عورتوں کو اندھا دھند اور وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہیں اور دوسری طرف ایل او سی کے دوسری جانب آباد کشمیری مسلمانوں سے بھی امن اور چین سے جینے کا حق جب چاہیں، چھین لیں! پاکستانی حکمرانوں اور مسلح افواج کے پالیسی سازوں کو اس ضمن میں جلد از جلد کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں محض جوابی کارروائی کرکے دشمن کی توپوں کو خاموش کرا دینے اور زبانی احتجاج سے آگ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرکے پاکستانی سرحدی علاقوں میں گولے داغنے والے بھارتی فوجیوں کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ پاکستانی سرحد یا ایل اوسی کے پار گولہ پھینکنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی بہرحال پیش نظر رہنی چاہیے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔
nn