رپورٹ : ادبی ڈیسک الخبر

547

گزشتہ دنوں عالمی اردو دھنک الخبر اور الخبر سوشل فورم نے گلف دربار ریستوران میں ایک ایسی ہی شاندار تقریب کا اہتمام کیا، جس میں پنجابی زبان کے منفرد شاعر فقیر فیصل آبادی کی الوداعی تقریب اور ان کے تیسرے شعری مجموعے’’ہنجو موتی‘‘ کی رونمائی کا اہتمام کیا۔ تقریب کی صدارت شاعر، فکاہ نگار اور افسانہ نگار محمدایوب صابر نے فرمائی۔ مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر منفرد لہجے کی شاعرہ و سفرنامہ نگار اور ادبی خاندان کی چشم و چراغ، بزمِ کامرانی کی روحِ رواں غزالہ کامرانی اور اردو ٹوسٹ ماسٹرس کے خازن محمد مظفر احمد متمکن تھے، جبکہ مہمانانِ اعزازی کی نشست پر صاحبِ جشن فقیر فیصل آبادی تشریف فرما تھے۔ نظامت کے فرائض الخبر سوشل فورم کے روحِ رواں سرفراز حسین نے اپنے مخصوص انداز میں ادا کیے۔
محفل کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت سرفراز حسین ضیا نے حاصل کی۔ اس کے بعد صدرِ مجلس نے ’’ہنجو موتی‘‘ کی رونمائی فرمائی۔ عالمی اردو دھنک الخبر اور الخبر سوشل فورم کی جانب سے فقیر فیصل آبادی کو ایک خوشنما شیلڈ پیش کی گئی۔ بزمِ کامرانی کی جانب سے مسعود جمال نے فقیر فیصل آبادی کو روایتی سندھی اجرک پیش کی۔ محفل دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں فقیر فیصل آبادی کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالی گئی اور کلامِ شاعر بزبان شاعر پیش کیا گیا۔ سرفراز حسین ضیاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فقیر فیصل آبادی منطقہ شرقیہ میں پنجابی زبان کا نمائندہ شاعر ہے جس نے تسلسل کے ساتھ اپنا ادبی سفر جاری رکھا ہے۔ اِن کی شاعری پُراثر اور دلپذیر ہے۔ صادق کرمانی نے کہا کہ فقیر فیصل آبادی جس لگن اور ہمت کے ساتھ شعری میدان میں کھڑے ہیں یہ جذبہ قابلِ تحسین ہے۔ عبدالسلیم نے کہا کہ مجھے پنجابی زبان پر عبور نہیں اس کے باوجود میں فقیر فیصل آبادی کی شاعری سن کر پنجابی زبان کی چاشنی محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ محمدمظفر احمد نے کہا کہ میں تقریباً 15برس سے فقیر فیصل آبادی سے آشنا ہوں، انہوں نے ناسازئ طبع کے باوجود ادبی محفلوں میں شرکت کرکے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غزالہ کامرانی نے کہا کہ میں جب فقیر فیصل آبادی کی شاعری سنتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں خود پنجاب کے کسی گاؤں میں پہنچ گئی ہوں اور وہاں کے رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ اس کے بعد کلام شاعر بزبانِِ شاعر کے لیے فقیر فیصل آبادی کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنے متعدد گیت اور غزلیں پیش کرکے محفل کو گرما دیا۔ صدرِ مجلس محمدایوب صابر نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کرنے پر صادق کرمانی، سرفراز حسین ضیا اور عقیل آصف کو مبارکباد دی اور منتظمین کی اِس کاوش کو سراہا جنہوں نے فقیر فیصل آبادی جیسے درویش صفت انسان کے لیے اس قدر اہتمام کیا۔ انہوں نے کہا کہ فقیر فیصل آبادی کی شاعری وارداتِ قلبی کی مظہر ہے، اِن کی شاعری پڑھنے سے یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ انہوں نے خود پر جبر کرکے کچھ نہیں لکھا بلکہ معاشرے کے جبرو استبداد کو سپردِ قرطاس کیا ہے، انہوں نے پنجاب کے صوفی شعرا کی زبان میں اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اِس کا اندازہ اِن کے گیتوں کی کتاب ’’ہنجو موتی‘‘کا مطالعہ کرنے سے ہوتا ہے۔ ہنجو (آنسو) کے ساتھ انسان کا پیدائش کے بعد پہلا اور موت سے پہلے آخری رابطہ ہوتا ہے۔ زندگی میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں جب ہنجو موتی بن کر آنکھوں کی منڈیر سے ڈھلک جاتے ہیں۔ وہ ہنجو جو آنکھ سے بے اختیار نکل پڑے، موتی بن جاتا ہے، اور جو ہنجو آنکھ کے اندر جذب کرنا پڑجائے وہ بے پناہ ضبط کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تقریب کا پہلا حصہ اختتام پذیر ہوا۔ اب شعری نشست کا آغاز ہوا۔ شعرا نے اپنے کلام سے محفل کو ایک یادگار موقع میں تبدیل کردیا۔ سامعین نے دل کھول کر داد دی۔ ہال تالیوں اور مکرر ارشاد کی آوازوں سے گونجتا رہا۔ قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے شعرا کے کلام سے منتخب اشعار پیش ہیں۔
سرفراز حسین ضیا
بھلا مانس بھی شاطر ہو گیا ہے
یہاں ہر شخص تاجر ہو گیا ہے
قیامت کے ہیں یہ آثار صاحب
یہاں ہر جرم وافر ہو گیا ہے
رانامحمد اقبال:
سیاست اِنج ای چلدی رہنی
کِسے دی منجھی ٹْھکنی نئیں
جنھے مرضی رپھڑ پئے جان
اے دنیا داری رکنی نئیں
سلیم حسرت :
لانا نہ کبھی بھول کے کولا مرے آگے
رکھو تو فقط ساغر و مینا مرے آگے
لیڈر میں بڑا ہوں میں کرپش پہ اڑا ہوں
ڈاکو بھی بہت اس سے ہے اچھا مرے آگے
باقر عباس فائز :
زندگی مجھ کو کبھی عشق سے آزاد نہ کر
وصل میں رہنے دے مجھ کو کبھی برباد نہ کر
روند مت قدموں تلے یوں مرے سپنوں کا محل
مرے ارمانوں کی تُو کھوکھلی بنیاد نہ کر
عقیل آصف :
اپنی پرواز آسمان میں رکھ
لمس لیکن زمیں کا دھیان میں رکھ
یوں بکھر جا کہ سب سمٹ جائے
لامکانی کو اب مکان میں رکھ
مسعود جمال :
پھیلا ہے وحشتوں کا اندھیرا چہار سُو
کوئی دیا جلاؤ غزل کہہ رہا ہوں میں
روشن ہے کائنات یہ جس کے جمال سے
اُس کو بھی تو سناؤ غزل کہہ رہا ہوں میں
ضیاالرحمن صدیقی :
میں جانتا ہوں یہ روشن جہان میرا ہے
زمیں نہیں ہے مگر آسمان میرا ہے
مرا یہ جسم کسی کا اسیر ہو تو رہے
میرا ضمیر مگر پاسبان میرا ہے
صادق کرمانی :
اِس قدر مدہوش ہیں دنیا کی رنگینی میں ہم
ہم سے اک لمحہ بھی اب ذکرِ خدا ہوتا نہیں
عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے اس کی یاد بھی
دور ہو کر جب کوئی دل سے جدا ہوتا نہیں
غزالہ کامرانی:
ہو کے انسان پھر غرور اتنا؟
اُڑ رہے ہو کیوں آسمانوں پر
کوئی انمول بِکنے آیا ہے
اِس لیے بھیڑ ہے دکانوں پر
فقیر فیصل آبادی:
مِل لؤ وِیر گلے اَج مینوں مڑ کے مِلنا نال سبب
یاداں چاہت پیار محبت ساڈے دلاں چ رکھے رب
میں نہیں بْھلنے ہیرے وِیرے نہ اِس ادب نظارے نوں
جاندی وار سلام فقیر ؔ دا ادب قبیلے سارے نوں
محمدایوب صابر :
چاک پر رکھ کر مرے اندر کا گھاؤ بھر دیا
جانے کیا خاکِ شفا ہے کوزہ گر کے ہاتھ میں
ساری بستی کے لیے ہے روشنی کا وہ سفیر
ایک مٹی کا دیا ہے کوزہ گر کے ہاتھ میں

حصہ