افشاں نوید

258

غازی احمد خان اوّل کے انتقال کے وقت اُس کا سب سے بڑا بیٹا شہزادہ عثمان خان نہایت کم عمر تھا، چنانچہ اس کی خلافت پر کوئی یکسو نہیں ہو پارہا تھا۔ احمد خان اوّل نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائی مصطفی خان اوّل کے لیے وصیت کردی تھی۔ یہ پہلا اتفاق تھا کہ بیٹے کے بجائے بھائی تخت کا وارث ہوا ہو۔ یہ اس لیے ہوا، کیوں کہ سلطان احمد خان کا بیٹا عثمان اس وقت کم عمر تھا۔
عثمان خان کے چچا مصطفی خان اوّل کی خلافت کا اعلان ہو تو گیا تھا، مگر فوج اور شاہی محل اس پر راضی نہ تھا۔ مصطفی اوّل کی عمر زیادہ تر شاہی محل میں گزری تھی، اس وجہ سے امورِ سلطنت سے بے خبر تھا۔ مصطفی کی غیر دانش مندانہ پالیسیوں اور نااہلیت کی بنا پر اُمرائے سلطنت نے اس کو تین ماہ بعد16 فروری 1618ء کو تخت سے اتارکر سلطان احمد خان کے 13 سالہ بڑے بیٹے عثمان خان کو تخت پر بٹھادیا۔
مصطفی کی معزولی کے بعد فوج کی مدد سے شہزادہ عثمان خان ثانی ابن احمد اوّل خلیفہ قرار پایا۔ آپس میں چچا اور بھتیجے کے درمیان اندرونی طور پر سازشیں جاری رہیں۔ اس دوران معزول چچا مصطفی خان فوج میں بہت سے کمانڈروں کو اپنا ہم نوا بناچکا تھا، اسی طرح کچھ اُمرا بھی مصطفی خان کے ساتھ تھے، چنانچہ چار برس کے اندر اندر خلیفہ عثمان خان ثانی کو ایک مرتبہ پھر اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا اور اُس کی جگہ چچا مصطفی خان نے لے لی۔ 20 مئی 1622ء کو باغی اُمرا نے معزول سلطان خلیفہ عثمان خان ثانی کو قتل کردیا اور اگلے ایک برس تک مصطفی خان عثمانی خلیفہ رہا۔
اقتدار کی کرسی کسی کو بھی راس نہیں آئی۔ عثمانی سلطنت آپس کی سازشوں میں اس قدر مصروف ہوچکی تھی کہ اس دوران کوئی قابلِ ذکر فتح حاصل نہ ہوسکی۔ غازی مصطفی خان عثمانی سلطنت کا پندرھواں سلطان تھا۔ اسے ایک برس کے بعد ایک مرتبہ پھر معزولی کا منہ دیکھنا پڑا۔20 جنوری 1639ء کو وہ اپنی طبعی موت مرا۔
خلافتِ عثمانی کا تاج غازی مراد خان رابع (چہارم) کے سر پر سجایا گیا۔ 1623ء سے 1640ء تک وہ عثمانی سلطنت کا خلیفہ اور خادم الحرمین شریفین رہا۔ وہ سلطان احمد اوّل کا بیٹا تھا۔
اس افراتفری اور شاہی خاندان کی آپس کی سازشوں نے مملکت کا حال یہ کردیا تھا کہ فوج عملی طور پر سلطنت کو چلا رہی تھی، جہاں جس کمانڈر کا زور چلتا وہ اپنی فوج کو لوٹ مار پر مامور کردیتا۔ انہیں شاہی محل سے تنخواہ سے زیادہ مال دار تاجروں سے رقم اینٹھنے میں مزا آتا تھا۔ اس شاہی فوج نے سلطان مراد خان چہارم کو صرف چودہ برس کی عمر میں اس لیے تخت پر بٹھایا تھا تاکہ فوج اپنی من مانی کرسکے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ سلاطین کو تخت پر چڑھانے، اتارنے کے عمل میں فوج کو کھل کر اپنی من مانی کا موقع ملتا رہا۔
عثمانی سلطنت کے ازلی دشمن عباس صفوی شاہ ایران کو اچھا موقع مل گیا تھا کہ وہ عثمانی سلطنت پر حملہ آور ہو، چنانچہ اس شان دار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ ایران نے عراق میں موجود ترکی کے حاکم کو اپنے ساتھ ملایا اور غداری کے بدلے میں علاقے کی سرداری اور سرکاری زمین دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملالیا۔ اس طرح صفوی ایرانی بادشاہ نے بغداد پر حملہ کیا اور شدید ترین لڑائی کے بعد بغداد پر قابض ہوگیا۔
اس قبضے کے بعد سلطان غازی مراد چہارم اپنی نگرانی میں ایک بڑا لشکر لے کر قسطنطنیہ سے بغداد کی جانب نکلا اور بغداد کو 48 گھنٹوں کے مختصر محاصرے کے بعد فتح کرلیا۔ غدارِ ترکی حاکمِ بغداد کو سولی پر چڑھادیا گیا، یہی حال اس کا ساتھ دینے والے سپاہیوں کا بھی ہوا۔
صفوی شاہ عباس ایک سال تک سلطان سے صلح کی درخواست کرتا رہا اور بالآخر ایک سال بعد دونوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کے نتیجے میں شمالی ایران کا علاقہ شاہ عباس کو دے دیا گیا اور بغداد پر عثمانیوں کا تسلط قائم رہا۔
غازی مراد چہارم نے جس طرح سے عثمانی سلطنت پر صفویوں کے حملوں کا جواب دیا، اس سے صفویوں کے دلوں پر سلطان کی دھاک بیٹھ گئی۔ سلطان غازی مراد چہارم جوانی میں ہی 17 برس حکومت کرنے کے بعد 8 یا 9 فروری 1640ء کو انتقال کرگیا۔ غازی مراد چہارم نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہ چھوڑی تھی، اس لیے اس کے مرنے کے بعد متفقہ طور پر چھوٹے بھائی غازی ابراہیم خان اوّل بن سلطان احمد اوّل کو عثمانی سلطنت کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔
غازی ابراہیم خان دین دار اور صاحبِ علم سلطان کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کے دور میں یورپ کے محاذ پر جاری چپقلشوں کا خاتمہ ہوا اور صلح کے ایسے معاہدے ہوئے، جن کی بدولت یورپ کے محاذ پر دیرپا امن قائم ہوگیا، مگر پھر بھی یورپ کے ایک محاذ شہر آزوف پر ایک شدید جنگی معرکہ ہوا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پاپائے اعظم نے وہاں کے مقامی عیسائیوں کو مذہب کا واسطہ دے کر شمالی بحراسود کے بڑے شہر آزوف پر حملہ کردیا اور صلح نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر آزوف پر قبضہ کرلیا، یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے جوشِ انتقام میں سارے شہر کو آگ لگادی گئی۔اس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے غازی ابراہیم خان نے اپنی سپاہ کو وہاں روانہ کیا، جنہوں نے وہاں پر قابض عیسائی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور ازسرنو شہر آزوف پر قبضہ ختم کرکے امن و امان بحال کردیا۔
خلیفہ ابراہیم کا ایک اور کارنامہ جزیرہ کریٹ کی فتح بھی ہے۔ اس جزیرے پر عیسائی حکومت قائم تھی اور ان کا عثمانی سلطنت سے کسی قسم کا جھگڑا بھی نہیں تھا، مگر باوجود اس کے عجیب واقعہ ہوا کہ سلطان کے اکلوتے بیٹے محمد کی خادمہ اپنے شوہر قیزلر آغاسی کے ساتھ حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئی تو راستے میں عیسائیوں نے اس کے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیا اور آغاسی اور بچے کی ماں کو مذہبی جوشِ انتقام میں قتل کردیا۔ بچے کو سلطان کے بیٹے محمد کا بیٹا سمجھ کر عیسائی طریقے پر پالنا پوسنا شروع کردیا۔ اس بچے کا نام عثمان اوتمانو یعنی عثمان پادری رکھا گیا۔ پھر مقامی عیسائی اس بچے کو لے کر مقدس راہبین کے جزیرے کریٹ پہنچے تو عیسائی راہبوں نے ان عیسائیوں کی خوب آؤ بھگت کی اور بچے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
خلیفہ غازی ابراہیم خان کو اس واقعے کی اطلاع بہت دیر سے ملی، تاہم اس نے فوراً اپنا سفیر جزیرہ کریٹ بھیجا، جس نے اس بچے کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا گیا اور پاپائے اعظم نے جنگ کی دھمکی دے دی۔ اس کے ساتھ ہی پاپائے اعظم نے اپنی تمام عیسائی حکومتوں کو اپنی مدد کے لیے بحری بیڑے روانہ کرنے کی درخواست کی۔ ان بحری بیڑوں میں انگلستان اور فرانس کے بحری بیڑے بھی شامل تھے۔
سلطان ابراہیم خان نے امیرالبحر غازی یوسف کو عیسائیوں کے ممکنہ حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا۔ امیر البحر غازی یوسف نے کمالِ ہوشیاری سے تیزی کے ساتھ اپنے بحری بیڑے کو جزیرہ کریٹ پہنچایا۔ متحدہ عیسائی قوتوں کا بیڑہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امیرالبحر غازی یوسف نے جزیرے پر اپنی افواج کو اترنے کا حکم دے دیا۔ جزیرے پر موجود عیسائی افواج سے ایک سخت مقابلے کے بعد جزیرے پر قبضہ کرلیا گیا۔
اس جزیرے کی فتح میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ قسطنطنیہ سے روانہ ہونے والی کرے کی فوج (انکشاری فوج) نے روانہ ہونے میں تاخیری حربے استعمال کیے تھے تاکہ ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوسکے۔ اس دوران عثمانی سلطنت کے مرکز میں فوج نے شدید انتشار پھیلایا ہوا تھا۔ سلطان ابراہیم خان کے خلاف شورش برپا ہوچکی تھی، جس کی وجہ سے غازی ابراہیم خان اوّل کو اپنے سات سالہ بیٹے محمد الرابح کے حق میں دست بردار ہونا پڑا۔
28 اگست 1648 عیسوی کو ہنگامے اتنے شدید ہوچکے تھے کہ باغی افواج نے سلطان غازی ابراہیم خان اوّل کو ایک حملے میں شہید کردیا۔ سلطان غازی ابراہیم خان اوّل کی مدتِ خلافت 8 برس 9 ماہ رہی۔
عثمانی سلطنت کا سلطان اب سات برس کا ایک بچہ تھا، جس کا نام غازی محمد سلطان خان رابع تھا۔ اس کی عمر کا خیال کرتے ہوئے سلطنت مفتی اعظم اور صدراعظم محمد کوپریلو کے حوالے کردی گئی۔ صدراعظم محمد کوپریلو نے انتظامی اور جہادی معاملات بہت حکمت و دانش مندی کے ساتھ نبھائے، حالاں کہ اُس وقت اندرونی خانہ جنگی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ صدر اعظم محمد کوپریلو نے آسٹریا، ہنگری، پولینڈ اور دیگر یورپی علاقوں میں امن و امان کو ممکن بنایا اور مرکز سلطنت میں بھی باغیوں کے ساتھ معاملات درست رکھے۔ پولینڈ، ہنگری اور آسٹریا بدستور عثمانیوں کو خراج ادا کرتے رہے۔ روس نے اس دوران چھوٹے بڑے کئی حملے کیے، مگر اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔
پاپائے اعظم نے بھاگ دوڑ کرکے ان عیسائی ریاستوں کو ایک مقدس معاہدے کے بندھن میں باندھ دیا، جو درحقیقت عثمانیوں کو کمزور کرنے کی سازش تھی، جس میں پاپائے اعظم نے تمام عیسائی ریاستوں کو عثمانی سلطنت کے مقابلے پر آمادہ کیا۔ جنگیں ہوئیں، مگر عثمانیوں کے مقابلے میں عیسائیوں کو خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی، دوسرا نقصان انہیں یہ ہوا کہ یہ عیسائی سلطنتیں آپس کی جنگوں میں الجھ گئیں، البتہ فرانس کو کچھ مقامات پر عثمانیوں کے خلاف کامیابی ضرور حاصل ہوئی۔ عثمانی یورپی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوچکے تھے، یہاں تک کہ چیکوسلواکیہ کے دفاعی اعتبار سے ایک بہت اہم قلعے ناؤ نازل پر صدراعظم محمد کوپریلو کے محاصرے کے سبب کامیابی حاصل کی اور یہ قلعہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ قلعہ میں موجود عیسائی فوج نے امیرالبحر محمد کوپریلو سے استدعا کی کہ ہمیں جان کی امان دے دی جائے تو ہم اپنا اسلحہ چھوڑ کر بنا جنگ کیے علاقہ چھوڑ دیں گے۔ محمد کوپریلو نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا اور جان بخش دی۔
ستمبر 1686 عیسوی میں ہنگری کے ایک شہر بوڈا کو آسٹریا کے ڈیوک آف لورین نے فتح کیا۔ اس وقت عثمانی افواج ہنگری میں موجود اپنی فوج کی مدد کے لیے بروقت نہیں پہنچ پائیں۔ اسی طرح 1687 عیسوی میں عیسائیوں کی مشترکہ فوج کے مقابلے میں ایک اور شکست کھائی، جس کا اثر مرکز عثمانی میں پڑا اور کرائے کی فوج کی بدانتظامی بڑھتی چلی گئی، مرکز میں فسادات پھوٹ پڑے اور بالآخر سلطان محمد الرابح کو تخت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا۔ نومبر 1687ء کو سلطان تخت سے دست بردار ہوگیا اور گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ 1692 عیسوی میں 53 برس کی عمر میں سلطان نے دنیا سے کوچ کیا۔
(جاری ہے)

حصہ