فلپائن کی امریکی تسلط سے آزادی ؟

209

16013165 اس تنازعے کو ثالثی عدالت کے سپرد کرنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا، اس طرح اس نام نہاد فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ اور ایشیا میں اُن کے تنخواہ دار نشریاتی اداروں نے اسے اس انداز میں پیش کیا گویا یہ قانون کا حکم رکھتا ہے اور چین اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس ’’فیصلے‘‘ کے اجراء سے قبل امریکی صدر بارک اوباما اور بھارت کے جنونی ہندو وزیراعظم نریندر مودی نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں جنوبی بحیرہ چین میں حقِ جہاز رانی کے حصول کے لیے اشتراکِ عمل کا اعلان کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ گویا عوامی جمہوریہ چین اس سمندری شاہراہ پر اپنا حق جتانے کے لیے غیر ملکی بحری جہازوں کے اس سے گزرنے میں مزاحمت کررہا ہے۔ اس بیان میں بین السطور یہ دھمکی دی گئی تھی کہ امریکہ اور اس کا پٹھو بھارت چین کی مزاحمت کا مقابلہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں، اور اس گٹھ جوڑ میں فلپائن، ویت نام ، تائیوان، برونائی اور ملائشیا کو بھی شامل کرلیا۔ اس طرح اس خطے میں غیر علاقائی طاقتوں بھارت اور امریکہ کی مداخلت سے بڑی کشیدگی پیدا ہوگئی، کیونکہ کمبوڈیا اور لاؤس نے امریکہ اور فلپائن کی حمایت کے بجائے اس تنازعے پر علاقائی ریاستوں کے مابین مذاکرات کی حمایت کی جس کی پیش کش چین پہلے ہی کرچکا تھا۔ یہ امریکہ کی گھناؤنی سازش تھی جو اوباما انتظامیہ اور فلپائن کی سابق پٹھو حکومت نے چین کو تنہا کرنے کے لیے کی تھی۔ اس کے لیے امریکہ نے کالا جادو جگایا اور اس ملک کے سابق حکمرانوں سے اس ملک میں 1950ء کے عشرے میں کیے گئے فرسودہ فوجی معاہدے SEATO کے تحت SUBIC BAY کے بحری اور اس کے علاوہ فضائی اڈے کے استعمال کی اجازت لے لی۔ چنانچہ بات پکی کرنے کے لیے امریکہ کے وزیردفاع ایشٹن کارٹر نے فلپائن کا دورہ کیا اور اس کے جنرلوں کو لالچ دے کر پٹا لیا۔ اسی وقت میں میڈیا میں ایشٹن کارٹر کی فلپائن کے دورے کی فلم دکھائی گئی اس حال میں کہ وہ طیارے سے لڑکھڑاتے ہوئے اتر رہا تھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُسے اس کا ادراک ہوگیا تھا کہ فلپائن میں امریکہ مخالف ہوا چل پڑی ہے۔ کیونکہ جلد ہی فلپائن کے عوام نے اپنی سرزمین میں واقع بحری اور فضائی اڈوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کی شدید مخالفت کی۔ انہیں اپنے ملک کی SEATO میں شمولیت کے باعث خطے میں تنہائی کا شکار ہونا پڑا تھا کیونکہ انڈونیشیا، ملائشیا کسی صورت ویت نام پر امریکی جارحیت کے حامی نہ تھے جبکہ اس معاہدے کی رو سے وہ امریکہ کے اتحادی بن گئے تھے اور انہیں ویت نام میں اشتراکیت کے خاتمے کے لیے اس جنگ میں شریک ہونا لازمی تھا۔ یوں بھی فلپائن کو امریکی استعمار کا تلخ تجربہ ہے جس نے 1898ء میں اس ملک کی سابق نوآبادیاتی طاقت ہسپانیہ سے جنگ کرکے ایشیائی بحرالکاہل میں فلپائن، جب کہ مغربی کرہ ارض میں بحیرہ کریبین میں کیوبا پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنگِ عالمگیر ثانی میں جاپان نے ساحلی چین سمیت انڈونیشیا (جو اُس وقت ولندیزی نوآبادی تھا)، فلپائن، ہند چینی (جو فرانس کی نوآبادی تھا)، ملایا (جو اُس وقت برطانیہ کی نوآبادی تھا اور سنگاپور اس کی بندرگاہ تھی اور آزادی کے بعد ملائشیا کہلانے لگا) پر قبضہ کرلیا۔ جاپان کی شکست کے بعد امریکہ نے فلپائن پر دوبارہ قبضہ کرلیا لیکن وہاں کے عوام نے اس کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ انہیں ہسپانوی، جاپانی اور امریکی نوآبادیاتی ادوار کے مظالم یاد تھے، لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد ایشیا اور افریقہ کی نوآزاد قومیں تباہ اقتصادی حالت اور حکمراں طبقے کی بدعنوانی کے باعث امریکی استعمار کی حلقہ بگوش بن گئیں۔ ان میں فلپائن، تھائی لینڈ اور پاکستان خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ مشرقی پاکستان کے باعث متحدہ پاکستان جنوب مشرقی ایشیائی ریاست بھی کہلاتا تھا، اس وجہ سے امریکہ نے فلپائن، تھائی لینڈ اور پاکستان کو سیٹو میں شامل کرلیا تاکہ انہیں عوامی جمہوریہ چین کے خلاف صف آراء کیا جا سکے۔ ان ممالک کے حکمران تو امریکہ کے ساتھ تھے جب کہ ان کے عوام ان معاہدوں سے نجات چاہتے تھے۔ پاکستان پر تو 1971ء کی جنگ میں امریکی فوجی معاہدوں کا فریب بخوبی واضح ہوگیا اور وہ اس قید سے آزاد ہوگیا، یہ دوسری بات ہے کہ ایک غاصب آمر کی غداری کے باعث وہ دوبارہ امریکہ کے جال میں پھنس گیا، تاہم اس کی مسلح افواج امریکہ سے تعاون میں قومی مفاد کا سودا نہیں کرتیں۔ آخر انہوں نے الشمسی اور اس سے قبل بڈبیر کے اڈوں سے امریکہ کو نکال باہر کیا اور اس کی مخالفت کے باوجود اپنا دفاعی جوہری نظام ترک نہیں کیا۔ سیاسی سطح پر پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔
لیکن فلپائن میں امریکی استعمار کے خلاف ایسی کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی اور اس کے سارے منتخب صدور امریکہ کے حلقہ بگوش رہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور عسکری طاقت کے باعث فلپائن کے عوام کو چین میں ایک قابلِ اعتماد حلیف کا وجود محسوس ہونے لگا اس لیے ان کا حکمران طبقہ امریکہ کی خاطر چین جیسی عظیم طاقت سے دشمنی نہیں مول لینا چاہتا۔ اس لیے وہاں سیاسی تبدیلی کے کچھ آثار نمایاں ہونے لگے ہیں جو ایشیائی بحرالکاہل میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔ ماؤزے تنگ کا مقولہ ہے: ’’ہوا کبھی مغرب سے چلتی ہے تو کبھی مشرق سے‘‘۔ تو اب مشرق سے پورویہ (پوربی محاورے میں پورب سے چلنے والی ہوا کو پورویہ کہا جاتا ہے) چل رہی ہے۔ ان سے کہیں پہلے انقلابِِ روس کے تناظر میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا
وہ آفتاب تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
اور انقلابِ چین کی یوں پیشن گوئی کی تھی
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالیہ کے سوتے ابلنے لگے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
شاید اسی لیے ڈر کے مارے پاکستان کے نودولتیے حکمرانوں نے علامہ اقبال کی یادگار میں دی گئی تعطیل کو منسوخ کردیا۔ وجہ؟ دولت کی پیداوار (Production) کا عمل متاثر ہو گا۔ تو کیا ہفتے کو چھٹی دے کر پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے؟ بظاہر یہ باتیں نفسِ موضوع سے ہٹی ہوئی ہیں لیکن ان سے کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہوجاتی ہے۔ ان نادانوں کو نہیں معلوم کہ برطانیہ کی طرح اب امریکہ کا بھی آفتاب غروب ہونے والا ہے۔ اور مشرق سے آفتابِ تازہ طلوع ہوچکا ہے۔ اس راز کو فلپائن کے صدر دوارتے نے پالیا ہے، جبھی اُنہوں نے عوامی جمہوریہ چین میں مقیم اپنے ہم وطنوں کو اس حقیقت سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اب تک جو کچھ فلپائن کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے وہ امریکہ کرتا رہا ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہم امریکہ کو الوداع کہتے ہیں اور عوامی جمہوریہ چین سے روابط استوار کرنے کی ابتدا کرتے ہیں‘‘ (ڈان 20 اکتوبر 2016ء)۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا: ’’میں امریکہ نہیں جاؤں گا کیونکہ وہاں میری توہین کی جائے گی‘‘۔ اور اُس وقت نہ جانے کیا یاد کرکے انہوں نے امریکی صدر اوباما کو ’’فاحشہ کی اولاد‘‘ کہہ دیا (ڈان 20 اکتوبر 2016ء)۔ ہم قارئین سے صدرِ فلپائن کا قول دہرانے پر معذرت خواہ ہیں، لیکن ایک شائع شدہ خبر کو قارئین سے چھپا بھی نہیں سکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدرِ فلپائن جنوبی بحیرہ چین کے متنازع جزائر پر کیے گئے ثالثی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرکے عوامی جمہوریہ چین سے اس تنازعے کو باہمی مذاکرات کے ذریعے سلجھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے خطے میں امریکہ کا پیدا کردہ بحران فرو ہوجائے گا۔
nn

حصہ