ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

232

130نگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کا جماعت اسلامی کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن جاری ہے۔ اس پوری مہم کی پشت پر بھارتی حکومت کا ہاتھ ہے۔ یہ محض ایک الزام نہیں رہا بلکہ اب یہ راز کھل کر سامنے آچکا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نہ صرف اپنے ملک میں ماضی میں پاکستان کی حمایت کرنے والے عناصر کو برداشت کرنے کو تیار نہیں بلکہ ملکی سرحدوں سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر بھی کھل کر پاکستان کی مخالفت اور بھارت کی حمایت کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس نے کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک کی مخالفت اور وہاں بھارتی افواج کی چیرہ دستیوں کی حمایت کا بھی اظہار کیا ہے۔ بھارت کی حمایت میں وہ اس قدر آگے آئی ہے کہ سارک سربراہ کانفرنس جو اسلام آباد میں منعقد ہونی تھی، کو نہ صرف ملتوی کرنے کی تحریک میں اس نے مکمل طور پر بھارت کا ساتھ دیا بلکہ پاکستان کو دہشت گردی پروان چڑھانے والا ملک قرار دیا۔ اس طرح اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، ان کا الزام بھی پاکستان کے سرمنڈھ دیا ہے۔
بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ ہماری حکومت پر پاکستان سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا دباؤ ہے۔ چونکہ پاکستانی پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے ذریعے جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی پھانسی کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تھی جس پر ان کی ناراضی واضح تھی۔ اس پس منظر میں ان کا یہ بیان زیادہ تعجب خیز تو نہیں پھر بھی سفارتی تعلقات توڑنے کی دھمکی غیر معمولی ہے۔ ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر ردعمل کے طور پر بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا، البتہ بعد میں ان کے سفارتی تعلقات بھی معمول پر آچکے ہیں۔ دریں اثنا جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ارکان نے اپنے دستور کے مطابق پارٹی الیکشن کے عمل کو مکمل کرتے ہوئے جناب مقبول احمد کو باقاعدہ اپنا امیر منتخب کرلیا ہے اور انہوں نے اپنی امارت کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔
مقبول احمد صاحب کچھ عرصے سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ مولانا مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی سے پہلے ہی وہ جماعت کی مجلس شوریٰ کے ایک فیصلے کے مطابق قائم مقام امیر مقرر کیے گئے تھے اور گزشتہ چند ماہ میں انہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی کے ذریعے انتہائی کٹھن اور صبر آزما لمحات میں احسن انداز میں یہ ذمہ داری نبھائی، جس کی وجہ سے ارکانِ جماعت نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے آئندہ پانچ سال کے لیے مستقل امارت ان کے حوالے کردی، جو اِن حالات میں کانٹوں کی سیج بن چکی ہے۔ پروفیسر غلام اعظم نے بنگلہ دیش میں جس طرح جماعت کو ایک معروف دینی و سیاسی جماعت کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا اس سلسلے کو مولانا مطیع الرحمن نظامی نے اپنے اخلاص اور قابلیت سے آگے بڑھایا اور جماعت اسلامی ملک کی صف اول کی 34 جماعتوں میں شمار ہونے لگی، جو بنگلہ دیش کے سیکولر اور لادین طبقات کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک بھارت کو بھی گوارا نہ تھا۔ بھارت دیگر پڑوسی ممالک کی طرح بنگلہ دیش پر اپنا مکمل تسلط رکھنا چاہتا ہے اور کسی ایسی سیاسی و پارلیمانی قوت رکھنے والی دینی جماعت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جو اس کے تسلط کو چیلنج کرسکے اور بنگلہ دیش میں بھارت کے حاوی کردار پر بات کرے۔
بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین تعلقات ویسے بھی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیش سے منسلک بھارتی صوبوں آسام وغیرہ میں بنگالی تارکین وطن کی موجودگی بھارت کا ایک بڑا سماجی، سیاسی و معاشی مسئلہ ہے، اس لیے اُس نے بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ ساتھ باڑھ لگانے کا کام شروع کررکھا ہے اور ہر ماہ درجن بھر بنگلہ دیشی نوجوان بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کی فائرنگ سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں جن کی مقامی میڈیا خبر بھی نشر کرتا ہے، لیکن بنگلہ دیشی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بھارت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش اپنی بندرگاہوں کو توسیع دے کر اپنی مصنوعات کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرے۔ البتہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی سرزمین اپنے صوبوں کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کرے اور اس کام میں بنگلہ دیشی حکومت یا عوام کوئی رکاٹ نہ بنیں۔ اس لیے بھارت نے اپنے مفاد بالاتر رکھتے ہوئے حسینہ واجد حکومت سے ایسے معاہدے پر دستخط کروائے ہیں جس کی رو سے بھارتی سامان سے لدے ٹرک بنگلہ دیشی سرحدوں سے آرپار آتے جاتے ہیں اور اس کا واجبی سا ٹیرف ان سے وصول کیا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان دیرینہ تعلقات کا ایک حریف چین بھی ہے۔ اسی ماہ چینی صدر زی جن پنگ کا دورۂ ڈھاکا ان تعلقات کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو ایک بہت بڑا اقتصادی پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ 30 سال میں یہ کسی بھی چینی صدر کا پہلا دورہ تھا جس کا بنگلہ دیشی عوام کو ایک عرصے سے انتظار تھا۔ اس سے پہلے بھارت نے گزشتہ سال بنگلہ دیش کے لیے 2 بلین ڈالر کے ایک اقتصادی پیکیج کا اعلان کررکھا تھا جس کے مقابلے میں چین نے کئی گنا زیادہ 24 بلین ڈالر کے امدادی اور معاشی پیکیج کا اعلان کیا ہے جو اس غریب لیکن ترقی پذیر ملک کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ دنیا کے سب سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے والے سپر پاور چین کے لیے یہ رقم کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتی لیکن بنگلہ دیش کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جس طرح پاکستان میں 42 بلین ڈالر کا اقتصادی راہداری کا بہت بڑا منصوبہ چین اسپانسر کررہا ہے جس پر بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش کی اقتصادیات کے لیے چینی سرمایہ کاری کی بہت قدر ہے۔
بنگلہ دیش کی تاریخ کے سب سے بڑے بیرونی امداد کے اقتصادی پیکیج میں بجلی گھروں کی تعمیر، ریلوے کے نظام میں توسیع اور نئی بندرگاہ کی تعمیر شامل ہے۔ 25 بڑے منصوبوں میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 1320میگاواٹ کا اضافہ ہوگا جس سے بنگلہ دیش کی صنعتی پیداوار بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے بھی بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں تیزی آئے گی۔
چینی صدر کا 2 روزہ دورہ اس علاقائی کانفرنس میں شرکت سے پہلے رکھا گیا تھا جو بھارت کے تفریحی مقام گوا میں ہوئی جس کو BRICSکا نام دیا گیا، جس میں بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، چین اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روس اور برازیل بھی شامل ہوئے۔ اس بڑی سربراہی کانفرنس کو نریندر سنگھ مودی کی حکومت بہت اہمیت دے رہی تھی۔ ایک میزبان ملک کی حیثیت سے بھارت کی خواہش تھی کہ اس موقع کو وہ اپنے ازلی دشمن ملک پاکستان کے خلاف استعمال کرے جس پر حال ہی میں اس نے مقبوضہ کشمیر میں واقع اڑی کیمپ پر دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس حملے میں 4 حملہ آوروں نے 19بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا جس کی بڑے پیمانے پر میڈیا نے کوریج کی تھی اور وزیراعظم نریندر سنگھ موودی نے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن بعد میں سرجیکل اسٹرائیکس کے نام پر جو ڈراما رچایا گیا اس کا پول کھلنے پر انہوں نے پینترا بدلتے ہوئے سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکی دی تھی۔ بھارت کی خواہش تھی کہ برکس کانفرنس کے اعلامیہ میں پاکستان کے حوالے سے دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام شامل ہو لیکن دیگر ملکوں کے سفارت کاروں نے ایسا نہ ہونے دیا اور بیان صرف دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی ضرورت اور اہمیت تک محدود رہا جو ایک رسمی بیان ہے جو آج کل کی ہر عالمی کانفرنس کا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان کے دوست ملک چین کے علاوہ روس اور تھائی لینڈ نے بھی پاکستان کے خلاف کسی قسم کی بیان بازی سے گریز کیا اور اس طرح سفارتی محاذ پر بھارت کو پاکستان کے خلاف پوائنٹ اسکور کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ ویسے بھی آج کل کی دنیا میں اس طرح کے بیانات دینا کہ ہم فلاں ملک کو یہ کردیں گے، وہ کردیں گے عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ شمالی کوریا جیسا چھوٹا ملک عالمی سپر پاور امریکا اور اس کے حلیفوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود دھڑلے سے ایٹمی دھماکے کرتا پھرتا ہے اور کوئی اس کو روک نہ سکا۔
اسی طرح پاکستان کے خلاف بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے بیانات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ البتہ جتنی بھارت کی مداخلت اُس کے ملک میں بڑھتی جائے گی‘ خود بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف عوامی رائے عامہ بنتی جائے گی۔ عوام حکومت کی طرح بے بس نہیں ہوتے۔ ان کے مفادات بھی قومی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور رائے عامہ کی طاقت ملکی حالات کی کایا پلٹ میں سب سے بڑا عامل ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ پشاور میں امریکی کانگریس کا ایک رکن آیا تھا جس نے PC ہوٹل میں چند سیاسی و سماجی شخصیات کو ملاقات کے لیے بلایا تھا جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ گفتگو کے دوران میں نے پاکستان کی رائے عامہ میں امریکی مخالفت کے عنصر کا ذکر کیا کہ پاکستانی سیاست میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ رائے عامہ کے سروے میں اکثر اس کی جھلک نظر آتی ہے کہ پاکستانی بالعموم امریکی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس پر اُس امریکی رکن کانگریس نے جس کا تعلق شکاگو سے تھا (میں نام بھول گیا)، بڑے تعجب کا اظہار کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ امریکہ تو پاکستان کو بہت زیادہ اقتصادی امداد دیتا ہے اور تمام شعبوں میں تعاون کرتا ہے! اس کی خواہش پر دیگر تمام مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد میری اس سے تفصیلی بات ہوئی۔ اُن دنوں پشاور میں اُن عرب مجاہدین کے خلاف کریک ڈاؤن ہورہا تھا جنہوں نے روسیوں کے خلاف افغان جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اسی دن صبح جنگ اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی تھی کہ امریکی سفارت خانہ صوبہ سرحد کی وزارتِ داخلہ سے رابطے میں ہے اور روزانہ اُس سے اس معاملے پر رپورٹ لیتا ہے۔ میں نے اس خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی امریکی شہری یہ پسند کرے گا کہ کسی دوسرے ملک کا سفارت خانہ اس کے داخلی امور میں مداخلت کرے؟ حکومت کی تو مجبوری ہوسکتی ہے لیکن عوام تو مجبور نہیں، وہ اپنی آزادانہ رائے رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملکی معاملات میں کسی اور ملک کی مداخلت پسند نہیں کرسکتے۔ پھر میں نے اُن تمام تاریخی واقعات کا ذکر کیا جن کے بارے میں عام پاکستانی یہ تصور رکھتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ دھوکا کیا ہے اور ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہیں دیا، جس میں 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے علاوہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، ضیاء الحق کے جہاز کا حادثہ، یا نیوکلیئر پروگرام شامل ہیں۔ یہی مسئلہ بھارت کو بھی درپیش ہے کہ وہ پڑوسی ممالک پر اپنا مکمل تسلط چاہتا ہے جن میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے، جس کی تخلیق میں بھی پوری طرح بھارت حصہ دار ہے۔ چینی صدر کے دورۂ بنگلہ دیش کی ایک اہم سرگرمی اُن کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء سے ملاقات ہے۔ بیگم خالدہ ضیاء ملک میں شیخ حسینہ واجد کی سب سے بڑی مخالف رہنما ہیں۔ بی این پی کی قیادت نے اس ملاقات کو بہت اہمیت دی اور اسے بیگم صاحبہ کی عوامی مقبولیت کا ایک ثبوت قرار دیا جو ایک متبادل قیادت کی صورت میں ملک میں موجود ہیں۔
چین کے، جنرل حسین محمد ارشاد کی جاتیو پارٹی سے بھی اچھے تعلقات ہیں کیونکہ جب میں ایک بار چین کے مطالعاتی دورے پر وہاں گیا تھا تو ہمارے گروپ میں جنرل ارشاد کے صاحبزادے بھی شامل تھے۔ اُن کا پاکستان کے بارے میں مثبت رویہ تھا البتہ ان دنوں جاتیو پارٹی، حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی اتحادی ہے اور ان کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر جناب مقبول احمد نے اپنے کلیدی خطاب میں بنگلہ دیش کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مثبت اور تعمیری خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ ماضی کو بھلا کر قوم کے مستقبل کا سوچا جائے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انتقامی سوچ کے بجائے مثبت رویوں کو پروان چڑھایا جائے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جنہوں نے اپنے دور میں انتقامی سیاست کے بجائے مل کر کام کرنے اور بنگلہ دیش کی ترقی کے لیے ماضی کی تلخیوں کو بھلانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن شیخ حسینہ واجد اور ان کی پارٹی اپنے بانی کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ ہر ممکن طریقے سے مخالفین کو دبانے اور ملک میں ایک جماعتی فسطائی نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان اور قائدین کے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری ہیں، خاص طور پر نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جارہا ہے۔ اس کے قائدین کو پابندِ سلاسل کیا جارہا ہے اور دفاتر کو بند کرنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم ؒ کے بیٹے بریگیڈےئر امان اعظم کو کئی ماہ پہلے گھر سے اٹھا کر غائب کردیا گیا ہے اور گھر والوں کو اُن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جارہا۔ قائدین کے کاروبار اور ملازمتوں کو ختم کرنے کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ ان کی املاک کو ضبط کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے، اور بین الاقوامی کرائمز ٹریبونل کے ذریعے مزید قائدین کو 1971ء میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں پھانسی پر چڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپین یونین نے بنگلہ دیشی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے پھانسیوں کے ان سلسلوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈھاکا میں مقیم یورپی ممالک کے سفراء جن میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سویڈن شامل ہیں، نے ایک اجتماعی خط میں بنگلہ دیشی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پھانسیوں کے قانون پر نظرثانی کرے اور انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت بھارتی حکومت کے ایما پر جماعت اسلامی کے خلاف ظلم و ستم کے سلسلے کو دراز رکھنا چاہتی ہے۔ عوامی لیگ کی ایک حمایتی ویب سائٹ پر جماعت اسلامی کے نئے امیر پر بھی جنگی جرائم کا الزام عائد کردیا گیا۔ حالانکہ ان کا پس منظر سیاسی سے زیادہ علمی نوعیت کا ہے اور انہوں نے پوری عمر تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہوئے گزاری ہے۔ 72سالہ مقبول احمد 1970ء کی دہائی میں ایک اسکول استاد تھے اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر مجیب الرحمن نے آن لائن نیوز پورٹل کی اس رپورٹ کو قطعاً جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا جس میں مقبول احمد پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ 1971ء میں البدر کی رضاکار فورس کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی امارت کا حلف لینے کے فوراً بعد ان پر یہ الزام لگایا گیا جب کہ اس سے پہلے کسی نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک منظم اسلامی اور عوامی تحریک ہے اور وہ ملکی تعمیر وترقی میں اپنا سیاسی کردار رکھتی ہے۔ اس کے امیر پر ایسے بے سروپا الزام عائد کرنا زیادتی ہے۔

حصہ