ایک سردار جی مر سڈیز کار خریدنے کے لیے شو روم جاتے ہیں خرید کر جب روڈ پر آتے ہیں تو نئی خریدی ہو ئی گاڑی کچھ دور جا نے کے بعد بند ہو جاتی ہے‘ بہت کوشش کے باوجود گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ سردار جی کمپنی شو روم فون کر تے ہیں تو فوراً کمپنی کا ایک ملازم وہاں پہنچ جاتا ہے اور ہر چیز چیک کرتا ہے لیکن کوئی فالٹ نہیں ملتا آخر میں ملازم سوال کرتا ہے ’’سردار جی گاڑی میں پیٹرول ڈالا تھا؟‘‘
سردار جی کہتے ہیں ’’نہیں‘‘ کمپنی ملازم کہتا ہے ’’سردار جی پیٹرول کے بغیر یہ گاڑی کیسے چلے گی؟‘‘
سردار جی کمپنی ملازم کی بات سن کر کہتے ہیں ’’مانا میں نے گاڑی میں پیٹرول نہیں ڈالوایا مگر تو مینوں یہ دس شو روم سے یہاں تک گاڑی کیسے آگئی؟‘‘ ملازم سردار جی کی عقل کا ماتم کرتے ہو ئے کہتا ہے ’’سردار جی مر سڈیز کمپنی کی ساکھ اور بھرم تھا جو یہ گاڑی یہاں تک آگئی۔‘‘
پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پر اپنی اپنی ساکھ اور بھرم رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان تمام جماعتوں کا سیاسی سفر جاری ہے لیکن آہستہ آہستہ ان جماعتوں کی ساکھ اور بھرم ختم ہو رہے ہیں کوئی بھٹو کے نام کے ساتھ اپنی پارٹی کے بھرم کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا کہ اس نام سے ہے باقی سندھ میں اقتدار ہمارا اس لیے آج بھی بھٹو زندہ ہے اور جب تک بھٹو زندہ رہے گا شاید پارٹی چلتی رہے کیو نکہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد ان کے سربراہوں کی گاڑی پاکستان میں نہیں چلتی بلکہ خود ساختہ جلا وطن رہنما ملک سے باہر بیٹھ کر جمہوریت اور پاکستان کی ترقی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں اسی لیے عمران خان نے بھی سوچ سمجھ کر پیپلز پارٹی کو بھٹو سے نہیں زرداری سے جان چھڑانے کا مشورہ دیا ہے۔
پیپلز پارٹی زرداری سے جان چھڑائے یا نہیں‘ ایم کیو ایم لندن والوں سے جان چھڑانے کی پوری کو شش کررہی ہے لیکن کیا کریں ایم کیو ایم کی پوری ساکھ اور بھرم بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اس جماعت کی جان جس طرح کہانیوں میں پڑھا کرتے تھے کہ جن کی جان طوطے میں ہے‘ جب تک طوطے کو نہیں مارا جائے گا‘ جن نہیں مرنے والا۔ لیکن کیا کریں اس جان کی حفا ظت MI6 کر رہی ہے اور وہ اپنی ساکھ اور بھرم کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن ایم کیوایم کی ’’فلاحی تنظیم‘‘ KKFکے ایک کارکن سعید بھرم‘ جن کا نام ہے اور جو کل تک بڑے بھرم سے ٹارگٹ کلنگ کیا کرتے تھے‘ پکڑے جانے کے بعد ’’وعدہ معاف گواہ‘‘ بننے پر اسلحے کے ایسے ذخیرے کی نشاندہی کی کہ جس سے عزیزآباد اور ناٹو دونوں کے بھرم کھل کر سا منے آگئے۔
بلوچستان کے ایک وزیر کے سیکرٹری کے گھر سے پانی کی ٹنکی میں چھپائے گئے کروڑوں روپے برآمد ہوئے تھے تو اب عزیزآباد کے علاقے میں ایک خالی گھر کے انڈر گراونڈ ٹینک سے جدید ترین اسلحہ کا بڑا ذخیرہ برآمد ہوا جسے کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا ذخیرہ قرار دیا جارہا ہے۔ پولیس کے مطابق اس میں ناٹو کا چوری شدہ اسلحہ بھی شامل ہے۔ لیکن کیا کہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ غائب ہونے پر بھی ناٹو کمانڈر خا موش رہے اگر شور مچاتے کہ ہمارا اسلحہ کراچی میں افغانستان جانے والے کنٹینروں سے چوری ہو گیا ہے تو ان کی عزت‘ ساکھ اور بھرم خاک میں مل جاتے لیکن کیا کریں ہماری رینجرز اور پولیس کا کہ جو اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی میں ہر صورت امن قائم کرنا ہے‘ چا ہے کسی کی ساکھ ہی کیوں نہ متاثر ہو۔ عزیزآباد سے ناٹو اسلحہ برآمد ہونے کے بعد بھی کچھ لوگ ’’میں نہ مانوں‘‘کی رٹ لگا کر سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن ’’نہیں۔۔۔ نہیں‘‘ کی ہر آن صدا اب نہیں چلے گی کیونکہ عوام کو یاد ہے سب ذرا ذرا۔
جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جلسوں میں کہتے تھے ’’ٹی وی ‘وی سی آر بیچو‘ اسلحہ خریدو‘‘ کراچی میں ایم کیو ایم نے اسی اسلحے کی بنیاد پر اپنا بھرم قائم کیا‘ مخالفین کو ٹھکانے لگایا‘ اسی کی بنیاد پر بھتہ کے ذریعے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کیا‘ عوام سے زبردستی کھالیں وصول کی گئیں ‘ ہڑتالیں کروائی گئیں‘ اسی اسلحے کے ذریعے الیکشن جیتے گئے‘ تعلیمی اداروں پر قبضے کیے گئے‘ تاجر، مزدور، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل نہ جانے کن کن کو قتل کیا گیا۔ پروفیسر مسلم سجاد سپریئر سائنس کالج میں اسی اسلحے سے زخمی ہوئے تھے۔ لوگوں نے جب اللہ کا خوف اپنے دلوں سے نکال دیا تو پھر اللہ نے اسلحہ اور سعید بھرم جیسے لوگوں کا خوف ان کے دلوں میں بٹھا دیا۔ شاہ فیصل کالو نی میں قائم سپیریئر سائنس کالج جہاں سے پڑھ کر اکثر طالب علم ڈاکٹر و انجینئر بنے‘ لیکن جب اسلحے کی بنیاد پر طلبا سیاست کی گئی تو یہ کا لج تباہ ہو گیا۔
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر آفاق اختر‘ جو سپیریئر کالج میں پڑھتے تھے‘ ایک واقعہ سنایا کہ وہ جب بھی کالج میں درسِ قرآن کے لیے پر نسپل سے اجازت مانگتے تو انہوں نے کبھی درس قرآن کر نے کی اجازت نہیں دی۔ مگر پھر بھی کالج کی مسجد میں درس ہوتا تھا جس پر پرنسپل صاحب کہتے ’’تم لوگ بدمعاش ہو‘ غنڈے ہو جو کالج کا ماحول خراب کر رہے ہو۔‘‘
ڈاکٹر صاحب پر نسپل صاحب کو کہتے ’’ہمارا یہاں کوئی آفس نہیں ہے اورطلباء کو دین کی طرف بلانے اور درس سے کالج کا ماحول کب خراب ہوتا ہے اور ہم میں سے کس نے غنڈہ گردی یا آپ سے بد تمیزی کی ہے؟‘‘ لیکن پر نسپل صاحب معلوم نہیں کس بھرم میں رہتے اور ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے رہتے۔
دن گزرتے گئے اور ایک دن وہاں ایم کیو ایم کی ذیلی طلبا تنظیم آگئی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہم کالج سے فارغ ہوگئے اور میڈیکل کالج میں آگئے لیکن پرنسپل صاحب‘ جنھوں نے غنڈہ گردی اور بدمعاشی نہیں دیکھی تھی‘ انہیں پتا چل گیا کہ غنڈہ گردی اور بد معاشی کسے کہتے ہیں۔ پورے کالج میں اس طلبا تنظیم کا راج تھا‘ ان کا یو نٹ آفس پر نسپل صاحب کے کمرے کے اندر تھا اور پرنسپل صاحب کو نہ معلوم کتنے تھپڑ پڑ چکے تھے۔ بعد میں جب ڈاکٹر آفاق اختر پرنسپل صاحب سے ملنے گئے تو ان کے کمرے میں نہ میز تھی نہ کرسیاں۔ پرنسپل صاحب کہنے لگے ’’آفاق تم بھی اپنا یہاں یونٹ کھول لو‘ میں آپ لوگوں کی حمایت کروں گا۔‘‘ لیکن ٖکالج میں ڈاکٹر آفاق تو نہیں آئے البتہ ’’آفاق بھائی‘‘ کے چا ہنے والے آگئے جس طرح کچھ علاقوں میں آفاق گروپ ’’حقیقی‘‘ کے نام سے آیا اور اسی طرز عمل کی سیاست کی جس طرح اب ایم کیو ایم پاکستان 22 اگست کے بعد سا منے آئی ہے۔
سعید بھرم نے فاروق ستار کا نام بھی لیا ہے لیکن اب ایم کیو ایم 90 عزیزآباد کے بجائے PIBکالونی (پیر الٰہی بخش کالونی) سے چلائی جارہی ہے اور نامعلوم افراد راتوں کو تمام CCTV کیمروں سے بچ کر ’’PIB ایم کیو ایم نا منظور‘‘ کے نعرے بھی دیواروں پر لکھ رہے ہیں یعنی ’’رسی جل گئی‘ بل نہیں گئے۔‘‘ دیکھیں کون سی ایم کیو ایم کا بھرم قائم رہتا ہے یا دونوں کی بساط لپٹنے والی ہے۔ بقول فاروق ستار ہمیں سیاست نہیں کر نے دی گئی تو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس طرح فاروق ستار کی اپنی جان بھی چھوٹ جائے گی اور لندن والوں سے بھی۔ لیکن لندن شاید پاکستانی سیا ست دانوں کے حواس پر چھایا ہوا ہے‘ ملک میں تمام سہولیات ہونے کے با وجود لندن جا کر پلان بناتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب تک لندن کی غلامی کر رہے ہیں۔ لندن کے وزیراعظم یورپین یو نین سے باہر آکر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں لیکن جو لوگ لندن پلان پر عمل کر رہے ہیں اور لندن کا بھرم اپنی سیاست میں ڈالنے پر بضد ہیں‘ کیا وہ 30 اکتوبر کے بعد لندن والوں کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیں گے؟ کیو نکہ نواز شریف کا ابھی پنجاب میں بھرم باقی ہے اور وزیر اعظم کا استعفیٰ نہیں آنے والا اور نہ ہی عمران خان کی باری آئے گی کیو نکہ جو عقل سے کام لینے کے بجائے جذبات میں فیصلے کر تے ہوں اور میڈیا کے سر پر سوار ہوکر اپنا قد اُونچا کر کے بھرم مارتے ہوں وہ جمہوریت کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہوتے ہیں۔ کل تک پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر دھرنا دینے کی باتیں کی جا رہی تھیں لیکن اگر پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے کسی پلان اور جمہوریت دشمن اقدام کی مخالفت کر تی ہے تو اسے زرداری سے جان چھڑا نے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور خورشید شاہ کر پٹ قرار پا تے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہو ئے کہا کہ 64 سال کی عمر میں اس طرح کے بیانات آسکتے ہیں‘ کہیں بڑھا پے کا جذباتی فیصلہ 30 اکتو بر کے بعد پی ٹی آئی کا رہا سہا بھرم بھی مٹی میں نہ ملا دے‘ شاید اسی خدشے کے باعث تحریک انصاف کے کچھ سینئر رہنما طاہر القادری سے مدد ما نگنے کے بیرون ملک گئے ہیں تاکہ کچھ بھرم رہ جائے کیو نکہ مذہب کے نام پر لوگ جمع ہو جاتے ہیں‘ سختیاں جھیلتے ہیں صرف اس لیے کہ اجر ملے گا۔ لیکن ناچ‘ گانے والے تو شام میں ناچ گانے کی محفلیں سجانے آتے ہیں کیو نکہ ان کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا‘ اگر کو ئی ایجنڈا ہے تو صرف نواز شریف کو ہٹاؤ۔ نواز شریف سے ہمیں کوئی پیار نہیں ہے کہ جس نے ملک میں دودھ کی نہریں جاری کر دی ہیں‘ لیکن عوام نے سیاست دانوں کو ووٹ اس لیا دیا ہے کہ یہ سب مل کر ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کام کریں لیکن کسی کو اس طرف تو جہ دینے کی تو فیق ہی نہیں ہوتی۔ مہنگائی پر کو ئی بات نہیں کرتا‘ مہنگائی نے جس طرح ایک عام آدمی کو متا ثر کیا وہ بامشکل اپنا بھرم قائم رکھ پا رہا ہے‘ اس کا دل ہی جا نتا ہے کہ وہ کس طرح زندگی گزار رہا ہے۔
داتا کی نگری لاہور میں تین بچوں کے باپ نے بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی‘ اس طرح ایک بے روزگار شخص کا خودکشی جیسا اقدام وزیر اعلیٰ پنجاب‘ جو خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں‘ کی ’’اچھی حکمرانی‘‘ کا بھرم کھول گیا۔ عوام کس طرح اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں یہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ممبران کو کیا خبر‘ ان کو فکر ہے تو صرف اپنی تنخواہ اور مراعات کی‘ انہیں تو مسئلہ کشمیر کی بھی کو ئی پروا نہیں‘ کشمیر کے حوالے سے پار لیمنٹ کا مشترکہ اجلاس میں جس طرح کا رویہ رکھا گیا اس سے یہ بات سا منے آتی ہے کہ کسی نے مسئلہ کشمیر پر تقریریں کر کے اور کسی نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر کے اپنی سیاسی دکان چمکائی ہے۔ ان لوگوں کو کشمیر کے مسئلے اور عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے اسی طرز عمل کی وجہ سے مودی کو بھرم بازی کر نے کا مو قع مل رہا ہے لیکن اللہ بھلا کر ے ہماری فوج کا کہ جس نے سرحدوں پر چوکس رہ کر اور مو ٹر وے پر F16 طیارے اتار کر مودی کے بھرم کو خاک میں ملا دیا‘ لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے‘ کیونکہ بھارت نے پاکستان کو خطے میں تنہا کردیا ہے اس کا وا ضح ثبوت سارک کے پانچ مما لک کا بھارت کی زبان بو لنا ہے۔ اگر پاکستان کے سیاست دان پارلیمنٹ کا اسی طرح بائیکاٹ کرتے رہے اور پارلیمنٹ میں اسی طرح غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے رہے تو خدا نخواستہ ملک ایک بار پھر مار شل لاء کی طرف جا سکتا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کے بھرم دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ جمہوریت کی گاڑی صرف اتحاد ہی کے ذریعے چل سکتی ہے اور تمام سیا سی پارٹیوں کا بھرم بھی جمہوریت کے حسن میں پو شیدہ ہے۔