عبدالرب احمد

958

دنیا کی ہر زبان میں کہاوتیں‘ مثالیں اور محاورے استعمال ہوتے ہیں۔ جتنی وسیع زبان ہوتی ہے‘ اتنا ہی زیادہ اس میں محاوروں کا استعمال ہوتا ہے۔ مثالیں اور محاورے کسی بھی زبان کا حُسن ہوتے ہیں۔ زبان کا صحیح لطف وہی لے سکتا ہے جو محاوروں کو سمجھتا ہو۔ ایک ہی فقرے میں کسی ایک لفظ کے فرق سے معنی تبدیل ہوجاتے ہیں مثلاً ’’آنکھیں دکھانا‘‘ کا مطلب ہوتا ہے غصہ کرنا یا برابری کرنا جب کہ ’’آنکھیں آنا‘‘ کا مطلب ہوگا آنکھیں دُکھنا یا آشوبِ چشم۔ اسی طرح ’’پاؤں پڑنا‘‘ کا مطلب ہے التجا کرنا‘ خوشامد کرنا۔ اس کے مقابلے میں ’’پاؤں پکڑنا‘‘ کا مطلب ہوا معافی مانگنا۔
محاورے اور کہاوتیں کسی علاقے کی نہ صرف تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ وہاں بسنے والوں کے مذہب‘ آب و ہوا‘ غذا اور پیداوار تک کی جھلک ان محاوروں اور مثالوں میں نظر آتی ہے۔ ایک مثل ہے ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ یعنی کسی چیز کے ردی حصے سے بھی فائدہ اٹھانا۔ یا ’’آم کھاؤ پیڑ مت گنو‘‘ ظاہر ہے یہ مثال اسی علاقے میں بولی اور سمجھی جائے گی جہاں آم پیدا ہوتے ہوں۔ ایک اور کہاوت جو کسی بے نمازی کے بارے میں ہوتی ہے کہ فلاں شخص ’’آٹھ کی‘ کھاٹ کی یا پھر تین سو ساٹھ کی‘‘ پڑھتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ صرف جمعہ کی یا کسی کے جنازے کی یا پھر عیدین کی یعنی سال کے سال پڑھتا ہے۔ (اس محاورے کو یوں بھی بولا جاتا ہے کہ ’’آٹھ کی‘ ٹھاٹھ کی۔۔۔‘‘ یعنی جب جی چاہا پڑھ لی) یہ مثال کسی مسلم معاشرے ہی میں بولی اور سمجھی جاسکتی ہے۔
کہاوتیں عام طور پر اپنا کوئی پس منظر رکھتی ہیں لیکن پس منظر نہ بھی معلوم ہو تو بھی کہاوتوں کا استعمال ہوتا رہتا ہے ایک کہاوت ہے ’’چمڑی جائے دَمڑی نہ جائے۔‘‘ یہ ایسے کنجوس شخص کے بارے میں بولا جاتا ہے جو جان بچانے کے مقابلے میں پیسے بچانے کو ترجیح دیتا ہے۔ کوئی وقت تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں ایک پیسہ بھی کچھ قدر رکھتا تھا۔ ایک دَھیلا‘ آدھے پیسے کے برابر ہوتا تھا۔ ایک پیسے کے اگر تین حصے کرنے ہوں تو ایک پیسے میں ’’تین پائی‘‘ ہوتی تھیں اور ’’دَمڑی‘‘ ایک پیسے کا چوتھا حصہ ہوتی تھی۔ ’’کوڑی‘‘ دمڑی سے بھی چھوٹی ہوتی تھی جو ایک سمندری گھونگا ہے اور سکے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ آج بھی بعض اوقات یہ محاورہ سننے کو مل جاتا ہے ’’فلاں شخص کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگیا‘‘ یعنی بالکل قلاش ہوگیا۔ یا فلاں چیز کوڑیوں کے مول بک رہی ہے۔ ایک اور کہاوت ہے ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ یعنی اتفاقاً کوئی چیز ہاتھ آگئی۔ جب بجلی نہیں تھی یعنی فرج‘ فریزر کا دور نہ تھا‘ اس وقت گھروں میں کسی ہوادار جگہ پر چھت پر لگے کنڈے سے کسی زنجیر یا رسی سے بندھی جالی دار ٹوکری لٹکی رہتی تھی اسے چھینکا کہتے ہیں۔ رات میں یا دن میں بچا ہوا کھانا یا پھل وغیرہ کو اس ٹوکری میں رکھ دیا جاتا تھا تاکہ ہوا بھی لگتی رہے اور کوئی بلی‘ چوہا وغیرہ منہ نہ مارے۔ کبھی چھینکا ٹوٹ کر گرتا تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ بلی کی خوش قسمتی یا اس کے نصیب سے ٹوٹا۔ اگرچہ چھینکے کا دور نہیں رہا لیکن اب بھی اگر یہ کہاوت سنیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ گاؤں دیہات میں یہ نظر آجاتا ہے یا جہاں بجلی نہیں پہنچی یا فرج خریدنے کی سکت نہیں۔
زندگی میں حالات تبدیل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی کسی انقلاب کی وجہ سے‘ کبھی جنگوں کی وجہ سے‘ کبھی نئی ایجادات اور کبھی بڑے حادثات کی وجہ سے۔ اسی بنا پر بعض کہاوتیں یا محاورے متروک بھی ہوجاتے ہیں یا پھر غلط ہوجاتے ہیں۔ ایک اور کہاوت ہے ’’رسی جل گئی‘ بَل نہیں گیا‘‘ یعنی کسی خوش حال اور مال دار شخص کے مالی حالات بگڑ جائیں تب بھی اس کا مزاج‘ نخرا اور عادات فوری یا آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے۔ معنوں کی حد تک تو یہ کہاوت درست ہے لیکن عملاً اب یہ بدل چکی ہے کیونکہ اب نائیلون کی رسی ایجاد ہوگئی ہے اور جب یہ رسی جلتی ہے تو اس طرح پگھلتی ہے کہ اس کے تمام بَل بھی غائب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘ کا مطلب تو سب ہی سمجھتے ہیں کہ غیروں کو فائدہ پہنچانا اور اپنوں کو محروم رکھنا یا جب قانون کے رکھوالے خود قانون کی خلاف ورزی کریں تو ان معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اب چراغ کی جگہ بجلی کے بلب اور قمقموں نے لے لی ہے اس کے علاوہ جب کبھی سڑکوں پر ’’چراغاں‘‘ کیا جاتا ہے تو لمبی ٹیوب لائٹس کو اس طرح ڈوریوں کی مدد سے لٹکایا جاتا ہے کہ ان کے اوپر اور نیچے‘ سب طرف روشنی ہوتی ہے اور ان کے ’’تلے‘‘ کوئی اندھرا نہیں ہوتا۔ حالات کی تبدیلی یہ بھی ہوئی کہ عموماً مسلمان خواتین میں پردے کی وہ اہمیت نہ رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔
شہروں اور بازاروں کے پھیلاؤ اور فاصلوں کی بنا پر اور تیز رفتار گاڑیوں کے استعمال نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ کہاوت ہے ’’جائے ڈولی‘ نکلے کھٹولی۔‘‘ یعنی بیٹی جب بیاہ کر جاتی تو ڈولی میں بیٹھ کر وداع ہوتی تھی‘ کہار ڈولی اٹھا کر سسرال پہنچاتے۔ سب چاہنے والے یہی دعا دیتے کہ زندگی بھر اپنے نئے گھر یعنی سسرال میں خیر اور خوشیوں کے ساتھ رہنا نصیب ہو اور ’’نکلے کھٹولی‘‘ کا مطلب جب چار افراد اس کا جنازہ اٹھائیں تب ہی وہ اس گھر کو چھوڑے۔ اب ڈولی ہی نہ رہی تو یہ کہاوت کب اور کیسے استعمال ہو۔ اردو کی ایک اور کہاوت جو اب متروک ہوچکی ہے‘ وہ ہے ’’دہلی کی بیٹی اور متھرا کی گائے‘ کرم پھوٹے تو باہر جائے۔‘‘ دہلی برس ہا برس سے ہندوستان کا دارالحکومت چلا آرہا ہے‘ اس شہر کا اپنا ایک مقام رہا ہے۔ وہاں لوگوں کو ہر طرح کی سہولتیں اور آسانیاں میسر تھیں۔ خواتین کی ضرورت اور دل چسپی کی ہر چیز گھر کے دروازے پر مہیا ہو جاتی تھی۔ ہر سودا بیچنے والا گھروں پر آیا کرتا تھا۔ عورتوں کا بازاروں میں پھرنے کا کوئی تصور نہ تھا۔ ہندوستان میں ہندوؤں کے مذہبی عقیدے کی بنا پر گائے کی آؤ بھگت تو ہوتی ہی ہے لیکن شہر متھرا میں دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ خاطر مدارات ہوتی تھی۔ اس کا کھانا پینا اس کے ٹھکانے پر ہی مہیا کر دیا جاتا تھا۔ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب تو خواتین کو بھی اپنی ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی چیز کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ اس کہاوت کے لیے اب کوئی موقع ہی نہیں رہا۔ بی جے پی کی حکومت میں بھارت کی ہر گائے متھرا کی گائے ہے۔
اردو زبان میں بے شمار ایسی کہاوتیں اور محاورے ہیں جو عام طور پر اب بولے نہیں جاتے لیکن اگر کبھی سننے یا پڑھنے کا اتفاق ہو تو مزا آجاتا ہے جیسے ’’چہ پِدی چہ پِدی کا شوربا‘‘ وہ کام جس میں فائدہ برائے نام ہو۔ پدّا ایک بہت ہی چھوٹا سیاہ رنگ کا خوش آواز ہوتا ہے اس کی مادہ کو ’’پِدّی‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ذبح کیا جائے تو مشکل سے چھٹانک بھر گوشت نکلے گا۔ آخر اس کا شوربا کتنا بنے گا۔ ’’پدّے کی ضامنی‘‘ کا مطلب ہے ناقابل اعتبار شخص کی ضمانت۔ ایک مزیدار کہاوت ہے ’’شکل چڑیلوں کی‘ مزاج پریوں کا۔‘‘ یہ مثال بے تکلف سہیلیاں آپس میں ایک دوسرے کو چِڑانے کے لیے بولتی تھیں اور بعض اوقات دل کی بھڑاس نکالنے لیے بھی کہہ دیا جاتا۔ ایک اور مثال ’’نَو کی میں دس کی دادی‘‘ اُن لڑکیوں کے لیے بولی جاتی تھی جو بہت تیز ہوں یا اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتی ہوں۔
کوئی شخص طبیعت کی خرابی کے باوجود کھانے سے نہ رکے تو اس کے لیے مثال ہے ’’جان جائے خرابی سے‘ ہاتھ نہ اُٹھے رکابی سے۔‘‘ بُرے یا مشکل حالت کے باوجود خوش باش نظر آنے والے بے فکرے شخص کے لیے مثال ہے ’’مر رہے ہیں‘ ملہار گا رہے ہیں۔‘‘ ایک اور مثال جس کو سن کر ہنسی آجاتی ہے ’’میں اپنے بچے کو اتنا ماروں گی کہ پڑوسن تیرا دل دَہل جائے گا۔‘‘ یعنی بعض لوگ اتنے ناسمجھ ہوتے ہیں کہ جب ان کا مخالف پر کچھ زور نہیں چلتا تو اُسے جلانے کے لیے اپنا نقصان کرنے سے بھی نہیں رہتے۔
اردو ایک بڑی زبان ہے۔ اس میں اس قدر محاورے اور کہاوتیں ہیں کہ ہر کسی کے لیے ان کا احاطہ مشکل ہے۔ یہ زبان پاک و ہند میں کروڑوں افراد کے لیے رابطے کا کام کرتی ہے۔ بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ہر طرح کا تلفظ ادا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اردو زبان میں نئی کہاوتوں اور محاوروں کا اضافہ رک سا گیا ہے۔ چند بازاری محاوروں کے سوا اب کوئی نئی معیاری کہاوت یا محاورہ سننے کو نہیں مل رہا‘ البتہ انگریزی محاوروں کا اردو میں ترجمہ ہونے لگا ہے۔ آج کل ایک محاورہ ’’زمینی حقائق‘‘ بہت عام ہوگیا ہے جو اصل میں انگریزی محاورہ ’’گراؤنڈ ریالیٹیز‘‘ (Ground Realities) کا ترجمہ ہے اسی طرح ’’بی انگ پُشڈ ٹو دی وال‘‘ (Being pushed to the wall) کا ترجمہ ’’دیوار سے لگایا جانا‘‘ ہوگیا ہے۔ ایک محاورہ ’’احمقوں کی جنت‘‘ بھی انگریزی محاورے ’’فولز پیراڈائز‘‘ (Fools Peradies) کا ترجمہ ہے۔ (یہ ترجمہ انگریزی سے نہیں بلکہ عربی میں ’’جنت الحمقاء‘‘ کہا جاتا ہے۔ مرتب)
انگریزی محاورہ ’’گراس رُوٹ لیول‘‘ (Grass root level) ابھی تک جوں کا توں اردو جملوں کے ساتھ بھی بولا جارہا ہے شاید اس کا اردو ترجمہ ہمارا ’’دانش ور‘‘ طبقہ ابھی تک کر نہیں پایا۔ (’’نچلی سطح تک‘‘ ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔) اردو میں انگریزی الفاظ کے غیر ضروری اور بے جا استعمال کی بنا پر لگتا ہے کہ اردو مغلوب ہو رہی ہے۔ زبانیں ترقی بھی کرتی ہیں اور زوال کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔ ترقی وہی زبانیں کرتی ہیں جن کے بولنے والے اپنی زبان سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اپنی زبان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہماری اکثریت کو تو اردو کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں اور ہمارے بااختیار طبقے کو اس سے لگاؤ ہے اور نہ اس پر فخر ہے۔
(کچھ محاورے مقامی زبانوں پنجابی‘ سرائیکی‘ سندھی‘ بلوچی اور پشتو سے اردو میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ جب انگریزی‘ فارسی اور عربی کے محاورے اردو کا حصہ ہیں تو مقامی زبانوں کا حق افضل ہے۔)

حصہ