فیملی وی لاگنگ اور سوشل میڈیا(دوم)

27

ڈالر نفسیات:
گزشتہ ہفتے جہاں بات ختم کی تھی وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ’’ڈالروں کی برسات‘‘ جب اس سوشل میڈیا کے ویوز میں شامل ہوئی تو حدود و قیود ختم ہوتی چلی گئیں۔ موبائل پر ایک تو لوگوں کو آسانی یوں ہوئی کہ نہ کوئی سیٹ، نہ لائٹنگ، نہ مہنگے اداکار، نہ کپڑے، کچھ نہیں چاہیے۔ ایک ہی بندہ ایک ہی کمرے میں ایک ہی کپڑے میں سب کچھ کرلیتا۔ سر پر چادر یا دوپٹہ ڈال کر عورت کا کردار کرلیتا، سرپرٹوپی رکھ کر باپ کا کردار کرلیتا، یا اگر دو تین دوست مل جاتے تو وہ مل کر کوئی ڈرامہ بنا لیتے۔ انتہائی مہنگے بجٹ کی ترک ڈرامہ سیریل ’ارتغرل‘ کو خیبر پختون خوا میں مقیم چند لڑکوں نے ڈیرہ پروڈکشن کے چینل پر خود موبائل پر ہی بنایا اور مقبولیت بھی پائی۔ جب لوگوں کو اداکار نہیں ملے تو اُنہوں نے ڈرامے بنانے کے شوق میں اپنے گھر والوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس طرح انٹرنیٹ پر گھر کی خواتین اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر چند جملے بولنے کے لیے وڈیوز میں کسی بھی بہانے سے آنا شروع ہوگئیں۔ جب ویوز پر پیسہ آنا شروع ہوا تو یہ ازخود روزگار بن گیا۔ یعنی وہی کام جو1970ء کی دہائی میں انتہائی معیوب اور شدید گناہ سمجھا جاتا تھا، اب صرف چھوٹے موبائل پر ریکارڈ ہونے، کسی اسکرپٹ یا ڈائریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے صرف ’ٹیکنالوجی‘ کے بل پر عام ہوگیا۔ ایک اور بات بتادوں کہ مغرب میں بھی یہ سب پہلے سے ہورہا تھا، یہ عملاً وہیں کی نقالی تھی۔ وہاں Soccer mom, Cool mom وغیرہ کے لبرل تصورات موجود ہیں۔ جب یہ سب شروع ہوگیا تو اگلا قدم ’’فیملی وی لاگنگ‘‘کی طرف جانے میں دیر نہ لگی۔ واضح رہے کہ اس دوران ’’ٹک ٹاک‘‘ آچکا تھا۔ جو دراڑیں بلکہ شگاف ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ، بیگو نے مسلم معاشرت میں ڈالے ہیں اُن کو ٹیکنالوجی سے بھرنا اَب ممکن نہیں لگتا۔

لاگنگ کی اقسام:
وی لاگ کی اور بھی کئی شکلیں آ چکی تھیں۔ جن لوگوں کو فیملی نہیں دکھانی تھی اُنہوں نے اپنے اسفار یعنی travelogue کی داستانیں بتانا شروع کردیں۔ یہ بھی بہت مقبول ہوئیں۔ نئی نئی جگہوں کی سیر، جس طرح کرائی جاتی، وہ بھی ویوز کا ڈھیر لاکر دیتی۔ پھر کھانے پینے کا مقبول سلسلہ چلا۔ کئی لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا بھرکے ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور وہاں کے کھانے کھاکر اُس کی تفصیلات بتاتے ہیں۔ یہ foodloggerکہلائے۔ یہ سلسلہ بھی مقبول ہوا کہ اس میں کھانے پینے کا بھی سلسلہ ہوتا۔ لوگوں نے ٹھیلے اور خوانچے والوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ہر ہر علاقے کی مشہور ڈش ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالی۔ اس میں دو طرفہ بزنس تھا، کہ دکان والا جس کے کھانے کی تعریف کی جاتی، وہ بھی کچھ نہ کچھ دیتا تھا۔ پھر خواتین نے گھر میں خود کھانے پکاکر دکھانے شروع کردیے، بلکہ یہ تو بہت پہلے ہوچکا تھا، یہ بھی خاصا مقبول ہے۔ یہی نہیں، کئی لوگوں نے اپنے رفاہی کاموں کے بھی وی لاگ بنانا شروع کردیے تاکہ لوگ کام کرتا دیکھیں تو پیسہ مزید آتا رہے۔ اس کے ساتھ شاپنگ کلچر والے بھی نکلے جو بازار بازار گھوم کر کہیں سستے کپڑے، سستے چاول، کہیں کھلونے وغیرہ کی سیل کا بتاتے ، اور کبھی کسی بازار کی سیر کراتے۔ جانوروں اور پرندوں کی مارکیٹ بھی بازار کی اس سیر میں شامل ہے۔ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی فروخت یا اس کے بازار بھی شامل ہیں اور کباڑی بازار بھی۔ پھر یوں ہی رئیل اسٹیٹ کے کام شروع ہوگئے۔ آپ نوٹ کریں کہ دھندہ پھیلتا جارہا ہے۔ لوگ اپنے آپ کو اسکرین کا محتاج بنارہے ہیں، اور اس محتاجی کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ اِن سب میں کوئی بھی عمل غیر اقداری نہیں ہے۔ سب کے سب سرمایہ دارانہ لبرل اقدار سے جُڑے ہوئے ہیں، تاہم غلاظت و اخلاقی قدروں کا فرق ضرور ہے۔ یہ بات بعد میں سمجھائیں گے کیونکہ ابھی ہمارا موضوع فیملی وی لاگنگ ہے۔ بتانا اور سمجھانا یہ تھا کہ یہ سب ہورہا تھا مگر اس سب میں اپنی فیملی کو بیچنا کتنا بدترین عمل ہے۔ فیملی وی لاگنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کے اندر تجسس یعنی دوسروں کی زندگی میں جھانکنا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔ بہت زیادہ پیسوں کی آمد پر لوگوں نے پوری نجی زندگی فلمانا شروع کردی۔ یوں مقابلہ شروع ہوگیا۔ دیکھا کہ دوڑ لگی ہوئی ہے تو سب نے چاہا کہ ہم بھی کچھ ایسا کریں کہ سب لوگ ہمیں زیادہ دیکھیں۔ بس یہ ’’چاہنا‘‘ ہے مسئلہ… اس کی اصل نفسیات۔ آپ نوٹ کرلیں کہ سب انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ شہرت کی چاہ، پسند ہونا، چاہا جانا، لائکس، تعریفی کمنٹس، اور پھر بھرپور پیسہ۔ ان سب چیزوں نے شامل ہوکر جو تباہی مچائی ہیں وہ ناقابل بیان ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ بچے یہ کہنا شروع کردیںکہ ہم بڑے ہوکر ’’وی لاگر‘‘ بنیں گے! اس میں روزانہ سنسنی پیدا کرنا ہوتی ہے تاکہ لوگ پھر آپ کے پاس آئیں۔ ناظرین کو چینل پر لانے اور ویوز پانے کے لیے حدود پار ہوتی چلی گئیں۔ اس میں نمایاں چیز یہ تھی کہ بچے اس کے زیادہ عادی بنے۔ نتیجے میں بچوں نے بھی یہ وڈیوز بنانا شروع کردیں۔ والدین خوش ہوئے کہ بچے بھی ڈالر بنانا شروع ہوگئے۔ آپ کو گلگت کا وہ معصوم بچہ یاد ہے جسے دو رمضان قبل اے آر وائی کی ٹرانسمیشن میں لایا گیا تھا۔ اُس پر بھی ہم نے توجہ دلائی تھی۔ پیسہ دِکھاکر پیسہ کمانے، پیسہ لگاکر پیسہ کمانے نے اخلاقی اقدار کو ختم کردیا۔

ڈکی، نانی، رجب کہانی:
یہ تین نام اگر قارئین کے لیے اجنبی اور نئے ہیں تو مختصر تعارف کرا دیتا ہوں۔ اس سے پہلے شام ادریس، زید علی، راحم پردیسی یوٹیوب پر وہ نام تھے جو ’فیملی وی لاگنگ‘ سے قبل یوٹیوبر مسخروں کے عنوان سے غیر معمولی طور پر مقبول تھے۔ یہ تینوں پاکستان سے باہر مقیم تھے۔ راحم لاہور آچکا ہے اور ڈرامے بناتا رہتا ہے۔ شام اور زید بیرونِ ملک مقیم ہیں، وہ بھی فیملی طرز کی وی لاگنگ کررہے ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ روزانہ وڈیوز نہیں ڈالتے۔ ان سب کے بھی 25-30 لاکھ سے زائد سبسکرائبر ہیں۔

مگر آج ان کے علاوہ ڈکی، رجب اور نانی کے نام پاکستانی سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ ڈکی کے آج بھی 81 لاکھ یوٹیوب سبسکرائبر ہیں۔ ندیم مبارک عرف ندیم نانی والا کے ٹک ٹاک پر سوا کروڑ فالوورز ہیں۔ رجب بٹ کے ٹک ٹاک پر کئی اکائونٹس ہیں جن میں ایک رجب فیملی کے 26 لاکھ فالوورز اور 28 کروڑ لائکس ہیں۔ اصلاً تو یہ تینوں بھی انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کی تباہ کاریوںکی اہم مثالیں ہیں جنہوں نے قوم کو بے غیرتی اور دیوث ہوجانے کی عملی تربیت دی ہے۔

ڈکی بھائی کا اصل نام سعد الرحمٰن ہے، اس کی عمر کوئی 27 سال ہے، یہ لاہور کا رہائشی ہے۔ باقی دونوں بھی اس کے ہم عمر ہی ہیں۔ ڈکی بھائی شروع میں تو گیمز کی وڈیوز میں دیگر ساتھی YouTubers، TikTokers، اور دیگر مشہور شخصیات کا مذاق اڑانے یعنی roastingکے لیے مشہور ہوا۔اس میں وہ فحش گوئی کے ساتھ بدترین کلام کرتا جو انٹرنیٹ کی زبان میں Roasting کہلاتا ہے۔لوگ خوش ہوتے ہیں ایسی باتیں سُن کر۔یہ معاملہ چلتے چلتے2سال قبل وی لاگ پر آگیا۔ اُس نے جب اپنی نجی، گھریلو زندگی کو سوشل میڈیا پر بیچنا شروع کیا تو وہ دھڑا دھڑ فروخت ہوتی چلی گئی۔ یوٹیوب کو ناظرین ملے اور اُس نے اشتہار کاری کی مد میں ڈالروں کی برسات کردی۔ صرف پیسہ ہی نہیں، قبولیت بھی مل رہی تھی۔ مال کی ہوس کا معاملہ اتنا اندھا ہوتا ہے کہ سونے کا ایک پہاڑ مل جائے تو بندہ دوسرا چاہتا ہے۔ ان تینوں نے مزید کمانے کے لیے اپنے لاکھوں فالوورز سے بھی پیسے اینٹھنے کے نام پر کورسز جاری کرنے کا اعلان کیا۔ صرف 5000 روپے ماہانہ فیس رکھی۔

ایسا کرتے وقت اُن کا اندازہ تھا کہ کروڑوں میں سے اگر ایک لاکھ اندھے فالوورز بھی ان کورسز کو رجسٹر کرائیں گے تو کم از کم 50 کروڑ روپے تو ایک مہینے میں کما ہی لیں گے۔ اِن کے فالوورز کی تعداد کے مطابق یہ کوئی غیر معمولی رقم نہیں تھی۔ یہ ایک کم ترین اندازہ تھا۔ اس اعلان کے بعد ایک اور یوٹیوبر ’’طلحہ ریوو‘‘ نے اس پر ردعمل دیا اور ثابت کیا کہ یہ لوگ کورس کرانے کے اہل ہی نہیں۔ نہ ہی وہ یہ کام جانتے ہیں، نہ اُن کا کوئی تجربہ ہے جس کورس کے کرانے کا یہ دعویٰ کررہے ہیں۔

بنیادی طور پر یہ وڈیو بھی ندیم نانی والا پر فوکس کی گئی تھی جو کہ طلحہ نے سال بھر پہلے بھی بنا ئی تھی جب ندیم جعلی کورس بنا کر بیچنے جا رہا تھا۔ وہ معاملہ پولیس تک گیا اور طلحہ و ندیم کے درمیان بات گزشتہ سال صلح صفائی پر ختم ہوئی۔ اس دوران ندیم نے طلحہ کو ساتھ ملانے کی بھی کوشش کی کہ ہم مل کر جعلی کورسز سے خوب پیسے بناتے ہیں۔ اس دوران ان لوگوں نے ایک جعلی باکسنگ میچ کرانے کا اعلان کیا جس میں ٹکٹوں سے پیسے کمانے تھے۔ طلحہ نے اس جعلی کھیل کی حقیقت بھی ایکسپوز کردی۔ اس کی حقیقت اور ثبوت بھی ندیم نانی والا ہی طلحہ کو دیتا رہا۔ جب ندیم نے طلحہ کے ساتھ معاملات اپنے تئیں درست کرلیے تو طلحہ کو دوبارہ کورس کرانے کی آفر کی کیونکہ طلحہ کورس کی تکنیکی معلومات جانتا تھا، مگر طلحہ نے ایسا کام کرنے سے انکار کیا۔ ندیم نے طلحہ پر ایک خاتون کی وڈیو لیک کرنے کا الزام لگا کر پرچہ کٹوادیا۔ یہاں معاملات خراب ہوگئے۔ پھر ندیم نے منیب خان ٹک ٹاکر کو بھیج کر طلحہ پر تشدد کرایا۔ طلحہ نے اس دوران کئی ٹک ٹاکرز، فیملی وی لاگرز اور نام نہاد انفلوئنسرز کو جو بیٹنگ یعنی جوئے کی ایپلی کیشن کو پروموٹ کرتے ہیں، ایکسپوز کیا۔ اُس نے ثابت کیا کہ یہ سب لوگ پیسوںکی خاطر جوئے جیسے حرام کام کو فروغ دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ طلحہ نے اپنی وڈیوز میں یہ بھی بتانا شروع کردیا کہ فیملی وی لاگرز وہ ’جعلی‘ کورس بیچیں گے جس کا کام اُنہوں نے خود کبھی نہیں کیا۔ طلحہ کی اِن وڈیوزسے ’’جعلی کورس‘‘والوں کو اپنے دھندے کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اب 2025ء کے آغاز پر ندیم نے رجب، تحسین دستگیر اور ڈکی بھائی کو ساتھ ملا کر ’’کورس‘‘کا اعلان کردیا۔ طلحہ کو پھر موقع مل گیا، اُس نے عوام کے ساتھ اتنے بڑے دھوکے کو پورے ثبوتوں کے ساتھ ایکسپوزکردیا۔ ایک نہیں دو وڈیوز بناکرسب کچھ لپیٹ دیا۔

یہ وڈیو وائرل ہوگئی، طلحہ نے scam2025 کے نام سے 34 منٹ کی یہ وڈیو بنائی تھی۔ اِس وڈیو پر آج تک کوئی 32 لاکھ ویوز یوٹیوب پر آچکے ہیں، باقی پلیٹ فارم الگ ہیں۔ اس وڈیو نے طلحہ کو بھی خوب مقبولیت دِلا دی۔ یہ وڈیو طلحہ نے انتہائی محنت سے سارے ثبوت جمع کرکے تیار کی۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ ڈکی بھائی نے خود طلحہ کے اسٹوڈیو میں ایک پوڈ کاسٹ میں آکر سارے گناہوں کا اقرار کیا۔ یہاں 2 مزید کردار سامنے آئے، بدلا برادر اور شام ادریس۔ یہ دونوں بھی ڈکی بھائی کی حرکتوں پر جامع، مدلل تنقید کرتے رہے ہیں۔ اِن کی تنقید بھی بہت مقبول رہی ہے، کیونکہ ڈکی بھائی نے بھی اس کو اہمیت دی اور اُن کے جواب دیے۔ ندیم نانی والا نے بھی طلحہ پر مزید غصہ نکالا۔ آپ ساری وڈیوز دیکھیں گے تو آپ کا سر چکرا جائے گا۔ آپ کو یقین کرلینا چاہیے کہ یہ سب اول نمبر کے جھوٹے ہوتے ہیں، سچ بولتے ہیں مگر اپنے مطلب کا۔ یہ صرف جھوٹ کی بات نہیں، پیسوں کی خاطر اخلاقی پستی میں جانا ہے اصل معاملہ۔ یہ ڈیمانڈ سپلائی کا بھی معاملہ ہے۔

ہم نے کئی مرتبہ دہرایا ہے کہ ’’دورِ جدید‘‘ میں ’’پیسہ‘‘ انتہائی منفی قدر کا حامل ہے، اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ قرآن مجید نے جسے حصولِ مال، حُبِّ دُنیا کہا ہے، یہ اُس سے بھی دو ہاتھ آگے کی چیز بن چکے ہیں۔ماقبل جدیدیت یہ ہوتاتھا کہ مالدار محض اپنی اجارہ داری قائم کرتا تاکہ باقی کوئی اُس کے برابر نہ آسکے، ہمیشہ سب اس کے رعب میں رہیں۔اب سب کو راتوں رات امیر بنانے کا معاملہ ہے جو چیزوں کو تباہ کرر ہاہے۔

حصہ