آخر شب کے ہم سفر

16

اُس شام منہ چڑھی خادمہ مالاؔ حسبِ معمول تخت کے پاس گھاس پر بیٹھی تھی۔ یاسمین اور روزی بھی آئی ہوئی تھیں۔ جہاں آراء نے حکم دیا… ’’مالا… راجا بھوج کا قصہ کر…‘‘

’’ارے بی بی… ہندو لوگ بولتا ہے کہ دیولوک میں بتیس اپسرائیں تھیں۔ ایک روز انہوں نے شیوجی پر بُری نظر ڈالی‘‘۔

’’گڈ گوڈ…!‘‘ دیپالی اور سب لڑکیاں کھلکھلا کر ہنسیں۔

’’مائونٹ کیلاش اور مائونٹ اولمپس واقعی بہت دلچسپ جگہیں رہی ہوں گی‘‘۔ یاسمین نے کہا۔

’’تو بی بی! پاروتی دیبی جل گئیں۔ انہوں نے شراپ دیا کہ اپسرائیں بے جان مورتیاں بن کر راجا اِندر کے تخت میں لگ جائیں‘‘۔

’’تو وہ جادو کے سیب کا کیا معاملہ تھا؟‘‘ اختر آراء نے پوچھا تھا۔

’’عورت مرد کی بے وپھائی، بی بی‘‘۔ مالاؔ نے پان چباتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا تھا۔ ’’اجین کا راجا بھرتری ہری اپنی بیوی پر عاسک تھا۔ اسے ایک جوگی نے امرجیون پانے کا سیب دیا۔ اسے کھائو تو امر ہوجائو۔ وہ راجا نے اپنی بی بی اننگ سیناؔ کو دیا۔ اننگ سینا نے اسے اپنے عاسک سائیس کو دے دیا۔ سائیس مہارانی کو جُل دیتا تھا اور اپنی پریمیکا الگ رکھتا تھا جو محل کی داسی تھی۔ وہ داسی بھی سائیس کو دھوکا دیتی تھی۔ اُس کا معسوک ایک گوالا تھا۔ داسی نے وہ سیب گوالے کو دیا۔ گوالا بھی داسی کو دھوکے میں رکھتا تھا۔ اُس نے اپنی معسوک کو وہ سیب دیا جو اُپلے بیچتی تھی۔ وہ سنہرا سیب ٹوکرے میں اُپلوں کے اوپر رکھے چلی جاتی تھی۔ راجا بھرتری ہری جنگل میں شکار کھیلنے آیا، اس نے اسے دیکھ لیا۔ اپنی رانی اننگ سیناؔ کی بے وپھائی سے اس کا دل ٹوٹ گیا تو اس نے اپنے بھائی بکرم جیت کو راج پاٹ سونپ کر سنیاس لے لیا‘‘۔

لڑکیاں مبہوت ہوکر یہ اسطوری داستان سن رہی تھیں۔ مالا کہے گئی… ’’پھر راجا بکرم جیت کو ایک تنترک جوگی شمشان گھاٹ لے گیا۔ وہاں بیتال درختوں سے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے، اور ایک بیتال راجا کے کندھے پر بیٹھ کر اسے کہانی سناتا تھا… پھر بکرم جیت جو تھے رمبھا اور اروشی کے ناچ کے مقابلے میں جج بنے۔ جج بنے ان کے پھیصلے سے خوش ہوکر راجا اِندر نے اپنا تخت ان کو بخش دیا جس میں وہی بتیس مورتیاں لگی تھیں‘‘۔

لڑکیوں نے غیر شعوری طور پر اس نقلی اسطوری تخت پر نظر ڈالی اور انہیں محسوس ہوا جیسے وہ خود اس دیومالائی راج سنگھاسن پر موجود تھیں۔

’’اور بکرم جیت کے مرنے کے بعد اس جیسا لائق راجا کوئی نہ ہوا، تو اس سنگھاسن کو دفن کردیا گیا، اور صدیوں بعد راجا بھوج نے اسے کھیت میں سے کھود کر نکلوایا…‘‘ جہاں آراء بولی… ’’اور جب وہ راجا اس تخت پر بیٹھنے کے لیے بڑھا تو ایک مورتی نے آواز دی ’’اس تخت پر وہی بیٹھ سکتا ہے جو راجا وکرم آدتیہ جیسا سخی اور فیاض ہو‘‘… اس طرح راجا بھوج بتیس مرتبہ تخت کی طرف بڑھے اور ہر مرتبہ ایک ایک مورتی نے للکار کر ان کو وکرم دتیہ کے اوصاف کے متعلق کوئی قصہ سنایا۔ وفا کیش، اصول پرست، راست باز، بہادر، رحم دل، یہ، وہ…‘‘

تب یاسمین نے کہا تھا… ’’آئیڈیا…! آپ کے چھوٹے دادا نے اوپیرا بنایا تھا۔ میں اس کا بیلے بنائوں گی۔ اور پتا ہے اس راج سنگھاسن کی اصل معنویت کیا پیش کروں گی؟‘‘پھر اس نے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا تھا ’’یہ راج سنگھاسن دراصل ہے عورت کا دل…!! اور آپا اس وقت یہ فرض کیجیے کہ ہم چاروں آپ، روزی آپا، دیپالی دی اور مَیں اس کی چاروں بڑی مورتیاں ہیں۔ اور کوئی راجا بھوج اس تخت پر بیٹھنے کے لیے آئے تو ہم اسے للکار سکتے ہیں… ٹھیرو… تمہارے اندر یہ… یہ… اوصاف ہیں…؟‘‘

دیپالی نے آنکھیں مَلیں… جہاں آراء اور یاسمین کے بھوت غائب ہوگئے۔ سامنے تالاب کی منڈیر پر گونگی مالاؔ چُپ چاپ بیٹھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکے جارہی تھی۔ دیپالی نے غیر ارادی طور پر نظریں اوپر اُٹھائیں۔ گلابِ خاص کی شاخوں سے کیا بیتال اُلٹے لٹکے ہوئے تھے؟

دور ڈرائیو پر کار آکر رُکی۔ ریحان کی آواز سنائی دی۔ وہ کسی ملازم سے پوچھ رہے تھے ’’امریکا والی سین میم صاحب کہاں ہیں؟‘‘

کسی نے جواب دیا ’’باگ میں‘‘۔
نورگش باگ میں
بہار کی آگ میں
بھرے دل داگ سے
درد دل زور رنگیلا کو ثور
…آئو…آئو… پیارے…

گلابِ خاص کے نیچے لڑکیاں نذرل کا گیت گا رہی ہیں۔ یاسمین کٹھ پتلی کی طرح گردن ہلا ہلا کر منی پوری رقص میں مصروف ہے۔ جہاں آراء اور دیپالی نواب زادہ نیر الزماں کی بری کے جوڑے بیونت رہی ہیں۔

وہ گھاس کو قدموں سے روندتا، آکر ایک فضول خیال کی طرح اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ بن مالی، بن مالی، سندھیا کال آج تک کہاں سے آتے ہو۔

’’بیٹھ جائو ریحان‘‘۔

وہ اپنے نانا نواب زادہ فخرالزماں کے بنوائے ہوئے فرضی راجا اِندر کے نقلی تخت پر بیٹھ گیا۔ اچانک دیپالی کا جی چاہا اسے للکارے: ٹھیرو تم اس پر نہیں بیٹھ سکتے۔ ریحان نے ایک سگریٹ سلگایا ’’معاف کرنا آج فیکٹری میں بہت دیر ہوگئی‘‘۔

’’بنگلہ دیش کی تعمیر نو میں مصروف ہو؟‘‘
وہ چیں بہ جبیں ہوکر دوسری جانب دیکھنے لگا۔

دفعتاً دیپالی کو محسوس ہوا اوپر دریچے میں سے جہاں آراء جھانک رہی ہے۔ اس نے غور سے دیکھا وہ زہرہ تھی۔ بیگم زہرہ ریحان الدین احمد۔ مجھے ہیلوسی نیشن نظر آنے لگے ہیں۔ مجھے اس چھایا لوک سے جلد از جلد بھاگنا چاہیے محفوظ دور افتادہ پورٹ آف اسپین… پُرسکون، غیر گنجلک شوہر بیرسٹر للت موہن سین، خوش باش برازیلین بھاوج ماریا روزینا۔ ایسٹ انڈین ملازمہ مسٹریس سرسوتی، نیگرو بٹلر ایلیاس… وہی میری اصل، راحت بخش آرام دہ دنیا ہے۔ بیتالوں کے اس مرگھٹ سے اتنی مختلف۔ یہاں ہر ہر قدم پر ایک بیتال ایک ایک پرانا قصہ دہرایا جارہا ہے، اور جنات کانوں میں مسلسل پوچھ رہے ہیں اور سنائوں؟ اور سنائوں…؟ اور سنائوں…؟

ریحان نے بھی نظریں اُٹھا کر جہاں آراء کے کمرے کے دریچے کو دیکھا۔ دیپالی پر نظر ڈالی اور آنکھیں جھکالیں۔

’’مالا برابر آ…آ… آکر کے مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اُس کی بات سمجھے بغیر یہاں سے چلی جائوں گی‘‘۔

’’ہاں کاش میں بھی اس کی بات سمجھ سکتا۔ کاش ہم سب ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے‘‘۔

دیپالی، جہاں آراء، یاسمین مجید… تین مورتیوں میں سے دو بڑی بُری طرح ٹوٹیں۔ دیپالی نے ’’وکرم آدتیہ کے سنگھاسن‘‘ کی ایک مورتی پر ہاتھ رکھ کر دل میں کہا۔

پالکی چولے… پالکی چولے ہو ہو… وہ آہستہ سے گنگنانے لگی۔

’’دیپالی! میں نے آج سے پینتیس سال قبل تم سے آخری بار گانا سنا تھا، چندر کنج کے پھاٹک پر… اسی طرح گودھولے کے وقت…‘‘

’’سنا ہوگا، مجھے یاد نہیں۔ ریحان تم نے اتنے شرم ناک سمجھوتے کیسے کرلیے، کلکتے میں بھی اور یہاں بھی؟‘‘ وہ غم و غصے سے جھنجھلا کر رہ گئی۔

’’سمجھوتہ! کیا تم نے نہیں کیا؟ کیا تم نے پورٹ آف اسپین میں سمجھوتہ نہیں کیا؟‘‘

’’میں نے اپنا ضمیر نہیں بیچا‘‘۔

’’یہ بات تم کہہ سکتی ہو‘‘۔ وہ بھی جھنجھلا گیا۔ عمر رسیدہ لوگوں میں قوتِ برداشت کم ہوجاتی ہے۔

’’اچھا چلّائو نہیں۔ لوگ سنیں گے تو کہیں گے وہ جھکی بڈھے بڑھیا کیوں لڑرہے ہیں‘‘۔

ریحان نے تلملا کر سگریٹ اپنے بوٹ کے نیچے مسلا۔

’’یہاں اتنی خونریزی ہوئی اور نتیجہ کیا نکلا؟ مغربی پاکستان سے آئی ہوئی بورژدازی کو نکال کر ایک نئی مقامی بورژدازی نے اس کی جگہ لے لی‘‘۔

’’شٹ اپ۔ یو آر اے سِلی اولڈ وومن۔ یہاں کے حالات سے واقف نہیں، آجاتی ہیں امریکا سے یہاں نصیحتیں کرنے‘‘۔ ریحان نے جھلّا کر جواب دیا۔

’’تم کسی پاگل خانے گئے ہو؟‘‘ اس نے ذرا تیز آواز میں کہا۔ ’’میں ایک مرتبہ اپنے شوہر للت کے ساتھ ایک پاگل خانے گئی تھی برازیل کے ایک شہر میں۔ وہاں ایک آدمی خود کو چائے دانی سمجھتا تھا۔ دوسرا کہہ رہا تھا میں جینرس کرائسٹ ہوں۔ ایک عورت کا خیال تھا وہ مگرمچھ ہے۔ ایک عورت کو یقین تھا کہ وہ گرینڈ فادر کلاک نگل چکی ہے۔ وہ مستقل ٹک ٹک کررہی تھی۔ اسی طرح… رونو… ہم سب اپنے آپ کو وہ سمجھتے ہیں جو ہم نہیں ہیں‘‘۔

’’معلوم ہے اب آپ بہت عقل مند ہوگئی ہیں۔ مجھے درس دے رہی ہیں‘‘۔

’’رونو… ایک قصہ سنائوں؟‘‘ دیپالی نے غیر ارادی طور پر سنگھاسن کے پایوں کی باقی ماندہ سالم مورتی پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’جب ہم لوگ نئے نئے پورٹ آف اسپین پہنچے، چھوٹا سا ایک مکان کرائے پر لیا۔ گلی کے سرے پر ہمارے سامنے ایک خوبصورت دو منزلہ مورش وضع کا مکان تھا۔ اس کے نچلے برآمدے میں لبِ سڑک دو نورانی صورت بڑھیاں برف جیسے سفید بال، روکنگ چیئرز پر بیٹھی نِٹنگ کیا کرتی تھیں۔ محلے کے پادری اور ننز اُن کے ہاں آتے جاتے رہتے۔ وہ پابندی سے چرچ جاتیں، پاس پڑوس کے غریبوں کی امداد کرتی رہتیں۔ بڑی دھرماتما سادھوی عورتیں تھیں۔

دونوں بڑھیاں روز صبح دس بجے ٹیکسی پر بیٹھ کر بازار جاتیں۔ ان کا نیگرو باورچی ایک بڑا سا تھیلا لے کر ساتھ جاتا۔ واپسی پر اس کا تھیلا سامان سے بھرا ہوتا۔ ایک روز میں نے سوچا میں اس جگہ اجنبی ہوں، میں بھی ان کے ساتھ سبزی ترکاری کی ان دکانوں پر جائوں گی جہاں سے اچھی چیزیں مل سکیں۔ کئی دن نکل گئے، میں ان فرشتہ صفت بڑھیوں سے نہ مل سکی، نہ ان کے ساتھ بازار جانے کے لیے طے کرپائی۔ ایک صبح جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہوئی ہی تھیں، میں نے سوچا دوسری ٹیکسی لے کر میں بھی ان کے پیچھے چلی چلوں۔ بازار میں پہنچ کر ان کے ساتھ ہی خریداری کرلوں۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا اس دوسری گاڑی کے پیچھے پیچھے چلے۔

میری ٹیکسی مارکیٹ سے گزرکر واٹر فرنٹ کی طرف چلی۔ اگلی ٹیکسی ایک ہوٹل کے سامنے جا رُکی جس کے اندر سے جہازی ملاح نکل رہے تھے۔ ڈرائیور نے ذرا حیرت سے مجھے دیکھا۔ وہ دونوں بڑھیاں اپنی گاڑی سے اُتر کر ہوٹل میں داخل ہوئیں۔ برآمدے میں دس بارہ ملاٹو لڑکیاں صوفوں پر ایک قطار میں بیٹھی سگریٹ پی رہی تھیں۔ میں تعجب سے ٹیکسی میں بیٹھی دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ بڑھیاں باہر آئیں۔ نیگرو باورچی تھیلا اٹھائے ساتھ ساتھ۔ دونوں اپنی ٹیکسی میں بیٹھیں اور واپس چلی گئیں۔ ڈرائیور نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا: مِس آپ ابھی شاید یہاں نئی نئی آئی ہیں۔ آپ نہیں جانتیں یہ دونوں بڑھیاں پچاس سال پہلے یہاں کی مشہور طوائفیں تھیں۔ یہ دونوں نیو اورلینز سے یہاں آئی تھیں، اب اس ہوٹل کی مالک ہیں، روز صبح آکر منیجر سے قحبہ خانہ کی آمدنی کا حساب کتاب کرتی ہیں اور رات کی آمدنی کے نوٹ اس تھیلے میں بھر کر لے جاتی ہیں، اور آمدنی کا زیادہ حصہ خدمتِ خلق پر خرچ کرتی ہیں۔ بڑا بڑا پادری لوگ جب یہاں آتا ہے تو ان کے یہاں ہی ٹھیرتا ہے۔

جب میں گھر واپس پہنچی، وہ دونوں اطمینان سے روکنگ چیئرز پر بیٹھی بائیبل پڑھ رہی تھیں‘‘۔

تو رونوؔ! اکثر لوگ دوغلی زندگیاں گزارتے ہیں۔ تم ماوموزیل مارسیلؔ اور ماوموزیل ماریؔ نہیں ہو۔ تم وہ نیگرو باورچی ہو جو تھیلا اُٹھا کر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ تم بھی شامل ہو‘‘۔

’’کیا تم شامل نہیں ہو…؟ کیا تم کو ویسٹ انڈیز ہجرت کے بعد ایک دولت مند بیرسٹر سے شادی کرکے برطانوی گورنر جنرل کے ڈنرز میں جانے کے بجائے پلانٹیشنز کے مزدوروں میں انقلابی تحریک کی تنظیم نہیں کرنی چاہیے تھی؟ تم نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ تم تھک چکی تھیں یا ڈزالوژن ہوچکی تھیں، یا اب تم بھی آرام اور آسائش کی خواہاں تھیں۔ چراغ مسلسل جلائے رکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اب تم محض زبانی یا تخیلی ہمدردی کرتی ہو، لوگوں کی بے انصافی اور بے ایمانی پر خفا ہوتی ہو، مگر تم بھی شامل ہوچکی ہو۔ مسلسل علیحدہ رہنا بہت مشکل ہے۔ جو علیحدہ رہتے ہیں ان کو سنکی یا خبطی یا بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔

میں نے اخباروں میں تمہارے شوہر کا نام ایک دو بار دیکھا ہے۔ وہ اس جزیرے کی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ ایک دن وہاں کے وزیراعظم ہوجائیں اور تم پرائم منسٹرز لیڈی۔ اُس وقت دیپالی سین میں تم سے ملنے آئوں گا اور پوچھوں گا کہ تم کتنی آزاد ہو… تم اور میں لیبارٹری کی میز پر رکھے ہوئے مینڈک ہیں جن پر زندگی نے اپنے تجربے کیے‘‘۔

’’لیکن ہماری طرح سب ہی تو بودے نہیں نکلے‘‘… دیپالی نے دفعتاً بڑی کمزور آواز میں کیا۔ ’’بہت سے ہیں جنہوں نے اب تک چراغ جلائے رکھا ہے…‘‘

’’آل لک ٹُودیم…‘‘ریحان نے سگریٹ تالاب میں پھینکتے ہوئے جواب دیا۔ (جاری ہے)

حصہ