’’رمضان آنے سے قبل ہی کراچی کے تمام علاقوں پر موسمی گداگروں کی یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوچکا ہے جو عید تک جاری رہے گا۔ بازار ہوں یا محلے… مساجد ہوں یا دیگر مقامات… اب ہر جگہ یہ مختلف صدائیں لگاتے نظرآئیں گے، بلکہ سرِراہ لوگوں کو زبردستی روک کر ان سے اس طرح بھیک مانگیں گے جیسے غنڈہ ٹیکس مانگا جاتا ہے۔‘‘
’’کراچی والوں کے لیے یہ کوئی نئی خبر نہیں، یہاں کے رہنے والوں نے تو ہر رمضان کی آمد پر زکوٰۃ کے نام پر، اور عیدِ قرباں پرکھالوں کی صورت میں لسانی تنظیموں کو برسوں بھتہ دیا ہے۔ جہاں تک موسمی گداگروں کی یلغار کا تعلق ہے، اس میں بھی کون سی انہونی بات ہے! انتخابات کے دوران سیاسی مداری بھی اسی قسم کی یلغار کیا کرتے ہیں۔‘‘
’’میں فقیروں کی بات کررہا ہوں، اس میں زکوٰۃ، قربانی کی کھالوں اور سیاسی سرگرمیوں کا ذکر کہاں سے آگیا؟‘‘
’’مداخلت کرنے پر معافی چاہتا ہوں، جو دل میں آیا کہہ دیا، پلیزتم اپنی بات جاری رکھو۔‘‘
’’میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہر سال مختلف علاقوں سے پیشہ ورگداگر اسی طرح کراچی کا رخ کرکے یہاں پر ڈیرے جما لیتے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور خوبرو جوان لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ان جوان لڑکیوں کی حرکات پر خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے، لیکن بھیک مانگنے میں ان کا وکھرا ہی انداز ہوتا ہے، یعنی یہ لوگوں کو روک کر یا سڑک کے کنارے بچوں کو لٹاکر انہیں بیمار ظاہرکرکے بھیک مانگتی نظر آتی ہیں، بلکہ کچھ بھکاری عورتیں تو گھروں میں گھس کر گھریلو خواتین کو نہ صرف انتہائی پریشان کرتی ہیں بلکہ مختلف طریقوں کے ذریعے ان سے رقم بھی بٹور لیتی ہیں۔‘‘
’’تمہاری باتوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ خوبرو گداگر خواتین لوگوں کو دعوتِ گناہ دیتی ہیں، جبکہ گھریلو خواتین کو مختلف انداز میں پریشان کرکے لوٹ لیتی ہیں،کیا میں ٹھیک سمجھا ہوں؟ اگر ایسا ہی ہے تو اس میں بھی کچھ نیا نہیں، کراچی کی اہم شاہراہوں پر پیشہ ور خواتین اور راہزنوں کی کارروائیوں کی صورت میں یہ تماشا تو ہر روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ جہاں تک ڈیرے لگانے کا تعلق ہے وہ تو حکمران بھی لگاتے رہے ہیں۔ تمہیں یاد نہیں پچھلی حکومت نے کس قدر تیزی کے ساتھ لنگر خانے کھولے تھے جہاں غریبوں کا نام دے کر درجنوں مسٹنڈے جمع کیے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کے اقدامات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ رمضان پیکیج کے نام سے دس کلو آٹا اور کچھ رقم دے کر ساری قوم کو بھکاری بنایا جارہا ہے۔‘‘
’’یار اسے خاموش کروا دو، اس سے کہو اپنا منہ بند رکھے اور میری بات کے درمیان نہ بولے۔ اگر چپ نہیں رہا جاسکتاتو چلا جائے، بلا وجہ پنگا نہ لے۔‘‘
’’او بھائی! میں نے تمہاری شان میں ایسی کیا گستاخی کردی ہے جو تم آپے سے باہر ہورہے ہو! سوال کررہا ہوں، سوال کرنا کون سا ایسا جرم ہے جس سے تم تلملا رہے ہو۔ تم اپنا مدعا بیان کرتے رہو، زبردستی مسلط نہ کرو۔‘‘
’’یار احمد! تم سلیم کی طرف دھیان نہ دو، تمہاری باتیں ہم بڑی توجہ سے سن رہے ہیں، اچھا آگے بتاؤ۔‘‘
’’اچھا یار اب نہیں بولوں گا، تم گداگروں سے متعلق اور کچھ بتاؤ۔‘‘
’’کیا بتاؤں، تم نے سارا ماحول خراب کردیا ہے۔‘‘
’’اب جانے بھی دو یار۔ غصہ چھوڑو۔ کہہ تو دیا ہے کہ اب نہیں بولوں گا۔‘‘
’’آخری مرتبہ کہہ رہا ہوں، یہ موضوع بے کار نہیں، خاصا معلوماتی ہے، تم اسے سنجیدگی سے سنو۔ گداگروں کی کئی قسمیں ہیں جو ہمیں اکثرو بیشتر دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ ایک وہ جو بھیک ضرورتاً مانگتے ہیں، یعنی جو کسی محتاجی یا جسم کی معذوری کی بنا پر ضرورت مند ہوتے ہیں اور کسی راہ گزر سے الگ خاموشی سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو نکمے ہوتے ہیں اور کچھ کرنے کے اہل نہیں ہوتے، وہ بچوں کو لے کر سڑکیں ناپ رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ تیسری وہ خواتین ہیں جو اپنے مردوں کی ہڈحرامی سے تنگ آکر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اور تو اور کچھ مرد وخواتین تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس پیشے کو اپنی عیاشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ایک قسم جو انتہائی خطرناک اور دل خراش ہے وہ مظلوم بچوں پر مشتمل ہوتی ہے، یہ وہ بچے ہیں جو آپ کو اکثر بھکاری بن کے ملتے ہیں، یہ یرغمال ہوتے ہیں جو مجبوراً بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، جنہیں کچھ درندہ صفت لوگوں نے… جو خود تو کچھ نہیں کرتے مگر بچوں کو کبھی اغوا، تو کبھی تشدد کرکے زبردستی بھیک مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں… نے اپنے شکنجے میں ایسے جکڑا ہوتا ہے کہ ان کے خوف اور درندگی کا نشانہ بننے والے اکثر بچے اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھتے ہیں۔ میرے نزدیک تو ایسے لوگوں کو جو تشدد کے ذریعے بچوں سے گداگری کرواتے ہیں، سخت سے سخت سزا دینی چاہیے، جبکہ پیشہ ور گداگروں کے خلاف ملکی سطح پر آپریشن کیا جانا چاہیے۔‘‘
’’اگر اجازت ہو تو اب میں بھی کچھ بولوں؟‘‘
’’اگر کچھ کہنا ہے تو تہذیب کے دائرے میں رہ کر کہنا، کچھ الٹا سیدھا کہا تو اس بار میں ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
’’جانا ہے تو جاؤ بلکہ جلدی سے چلتے بنو، تمہاری فضول گفتگو سننے کی اب مجھ میں ہمت نہیں۔ گداگروں کے خلاف لیکچر دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیتے تو یہ کہانی کبھی بھی نہ سناتے۔‘‘
’’سلیم! خدا کا واسطہ ہے، احمد کی باتوں میں خاصا وزن ہے اور تم مخالفت کیے جارہے ہو!‘‘
’’مذاق کررہا ہوں بھائیو! واقعی اس مرتبہ احمد نے ڈھنگ کی بات کی ہے، تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ احمد سے تفریح لینا میری عادت ہے، میں مانتا ہوں کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اچھی بات نہیں، اور یہ بات بھی درست ہے کہ کراچی کی گلیوں میں آوازیں لگاتے پھرتے گداگروں کے خلاف، خاص طور پر اُس مافیا کے خلاف جو معصوم بچوں سے بھیک منگواتے ہیں، حکومت کی جانب سے کارروائی کی جانی چاہیے۔ لیکن اس کا سارا بھاشن سننے کے بعد سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرے گا کون؟ یعنی گداگروں کے خلاف کوئی گداگر کس منہ سے کارروائی کرسکتا ہے! دیکھو بات سیدھی سی ہے، کراچی سمیت پورے ملک کی سڑکوں، محلوں اور تجارتی مراکز پر بھیک مانگنے والے تو ہمیں نظر آتے ہیں، وہ حکمران کیوں دکھائی نہیں دیتے جو کشکول لیے ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ سڑکوں پر گھومتے گداگر صرف اپنی اولادوں کو بھکاری بناتے ہیں، جبکہ ہمارے حکمرانوں کی گداگری نے نہ صرف ہمیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی مقروض بنا ڈالا۔ انہوں نے متوسط طبقے کا یہ حال کر ڈالا کہ وہ بھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اصل گداگر کون ہیں، معاشرے میں دھکے کھاتے غریب، یا پھر ہمارے حکمران؟ ماضی کے حکمرانوں کا قصہ ایک طرف، موجودہ حکومت نے تو انتہا کردی ہے، اپنے پہلے ہی سال لوگوں کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیا، جبکہ آنے والے برسوں میں یہ تعداد مزید بڑھے گی اور رہی سہی کسر دس کلو آٹے کا تھیلا دے کر پوری کی جارہی ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ کس طرح سڑکوں کے کنارے دہاڑی دار طبقہ مزدوری کی تلاش میں بیٹھا نظر آتا ہے، اور مزدوری نہ ملنے پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، میں دوستوں کے ساتھ اپنے علاقے کے مشہور کیفے پر بیٹھا تھا کہ دورانِ گفتگو ایک شخص جو حلیے سے مزدور دکھائی دے رہا تھا، میرے قریب آکر کہنے لگا ’’بھائی صاحب صبح سے کام کی تلاش میں ہوں، شام ہونے کو آگئی ہے کوئی کام نہیں ملا، سوچتا ہوں اگر ایسا ہی رہا تو کیا کروں گا؟ گھر میں دو چھوٹے بچے ہیں، دہاڑی لگ جائے تو چٹنی روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے ورنہ بھوکے پیٹ کروٹیں بدلتے رات گزارنی پڑتی ہے، میری تو خیر ہے، بچوں کو بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، کچھ مدد کردو گے تو تمہاری مہربانی ہوگی، میں پیسے نہیں مانگ رہا، بچوں کے لیے سالن روٹی دلوادو‘‘۔ اب تم ہی بتاؤ اس شخص کو جو واقعتاً مزدور دکھائی دے رہا تھا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر کس نے مجبور کیا؟ ان حالات میں اُس کے گھر کی کفالت کس کی ذمہ داری ہے، اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس ضرورت نہیں، یہ ریاست کا کام ہے کیونکہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ ملک سے غربت، بھوک و افلاس کا خاتمہ حکومتوں کی اولین ترجیح ہوا کرتی ہے، اور اگر بے ضمیر حکمران خود ہی گداگری کی راہ پر چل پڑیں تو ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے انتہائی مجبوری کے عالم میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے کون روکے گا؟ جہاں جاؤ، جس سے بات کرو، وہ معاشی پریشانیوں کا ذکر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سڑکوں کے کنارے لگائے جانے والے دسترخوانوں پر عوام کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر دوسرے گھر دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں جبکہ حکمران غربت میں کمی، معیشت میں بہتری کے اشاریوں کا راگ الاپتے دکھائی دیتی ہے۔ اب یہ خوشحالی اور ترقی کہاں ہے، خدا جانے۔ آخر میں ان دعویداروں کے لیے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یاد رکھیں خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی… راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے…کہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ) سے اس بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ یہ ہوتی ہے حکومت، ایسے ہوتے ہیں حکمران۔ لیکن افسوس ہم پر پہلے دن سے اشرافیہ مسلط ہے، جنہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی جانب سے بنائی جانے والی پالیسیاں اگر عام لوگوں کو محتاج کردیں یا عوام کو غربت کی جانب دھکیل دیں تو اس صورت میں ذمہ دار اشرافیہ ہوتی ہے، اور پھر ایک وقت کے بعد ان پالیسیوں کے نتیجے میں یہ طبقہ خود بھی اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا، پھرذلت اور رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
’’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘‘