بیاد شکیلہ رفیق اور ڈاکٹر اظہر

33

کچھ قلمی تعلق قلم سے نکل کر قلب تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ قلمی سے زیادہ قلبی بن جاتا ہے۔ مسحور کن اور متاثر کن شخصیت کی مالک، افسانہ نگار، دو کتابوں کی خالق محترمہ عقیلہ اظہر آپا جن کا شمار بانیان حریمِ ادب میں ہوتا ہے… ہمارا اور اُن کا تعلق پچھلے ڈیڑھ عشرے سے کچھ اسی قسم کا ٹھیرا۔

گزشتہ دنوں آپا کو دو صدمے پے در پے پیش آئے، پہلے عزیز بڑی بہن محترمہ شکیلہ رفیق کی جدائی اور اس کے صرف پانچ دن بعد شریکِ حیات بھی عدم کے سفر کو روانہ ہوئے۔ حریمِ ادب کی بہنیں آپا سے تعزیت کرنے گئیں اور اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ایک تعزیتی نشست بھی رکھی جائے۔ اسی مناسبت سے عقیلہ آپا کے گھر اُن کی بہن معروف ادیبہ و شاعرہ شکیلہ رفیق اور اظہر بھائی کی یاد میں نشست رکھی گئی۔

ادبی کمیٹی کی ممبر اور افسانہ نگار توقیر عائشہ کی تذکیری گفتگو سے نشست کا آغاز ہوا۔ ادیب چلا جاتا ہے لیکن اس کی تحریر زندہ رہتی ہے اور یہ تحریر کی خوشبو ہی ہے جو اپنے اردگرد کے ماحول کو معطر رکھتی ہے۔ تقریباً بیس کتابوں کی خالق شکیلہ رفیق جو کہ عقیلہ آپا کی بڑی ہمشیرہ تھیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کینیڈا میں گزارا اور چند سال قبل ہی کراچی منتقل ہوئی تھیں۔ محترمہ شکیلہ رفیق کا ادبی قد اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی نمایاں رہا۔ ان کی اکثر کتابیں کینیڈا اور بھارت کے پبلشرز نے شائع کیں۔ بڑے بڑے ادیب ان کی ادبی تحریروں کے شیدائی تھے۔

نشست میں عقیلہ آپا نے پروفیسر سحر انصاری کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’شکیلہ رفیق کی بہترین کہانیاں‘‘ میں سے ایک منتخب علامتی افسانہ ’’بند کتاب‘‘ سنایا، اور شاعری اور تراجم کے مجموعے سے نظم بھی حاضرین کی سماعتوں کی نذر کی۔ شرکا نے تحریر سن کر تبصرے کیے۔

ناظمہ کراچی محترمہ جاوداں فہیم، مشہور کالمسٹ اور مصنفہ غزالہ عزیز، مصنفہ اور سابقہ صدر حریم ادب عالیہ شمیم، مصنفہ اور شاعرہ نگراں ادبی کمیٹی کراچی عشرت زاہد، مصنفہ حمیرا خالد، مصنفہ و شاعرہ عزیزانجم ، افسانہ نگار توقیر عائشہ اور افسانہ نگار فرحی نعیم نے نشست میں شرکت کی۔

عقیلہ آپا نے اپنے شریکِ حیات کی یادوں کو بھی تازہ کیا۔ ایک طویل خوش گوار عرصہ ڈاکٹر اظہر کے ساتھ گزرا تو یادیں بھی اَن گنت تھیں۔ ڈاکٹر صاحب خوش مزاج تو تھے ہی، اس کے ساتھ خوش اخلاق، خوش اطوار اور محبت کرنے والے بھی تھے۔ کبھی اپنے اور بیوی کے والدین اور بہن بھائیوں میں تفریق نہیں کی۔ ہر کسی کی مدد میں پہل کرنا ان کی عادت تھی۔ مسیحائی جیسے عظیم پیشے سے وابستہ ہونے کے ساتھ ان کے مریض ان کو معالج کے ساتھ اپنا مرشد بھی مانتے۔ خاندان اور خاندان سے باہر وہ اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے مقبول تھے۔ کنبہ پروری تو جیسے ان کے خون میں شامل تھی۔ بیوی بچوں کے ساتھ جتنے محبت والے تھے اتنے ہی خاندان کے تمام بچوں کے ساتھ بھی تھے۔

تفریح سے شغف کی وجہ سے نہ صرف اپنی فیملی بلکہ خاندان کے تمام ہی لوگوں کو اپنے ساتھ شامل رکھتے۔ زندہ دل اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔

خوش گوار یادوں کا سلسلہ جب دراز ہوا تو چلتا ہی چلا گیا… محفل کے شرکا کہہ رہے تھے زندگی اگرچہ پانی کا بلبلہ ہے لیکن یہی زندگی اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ قدردان ہی اس نعمت کی قدر کرتے ہیں۔ انسان کو اگرچہ اپنی زندگی کا کچھ علم نہیں کہ کب کس کا وقت آجائے لیکن اسے متحرک رہنا چاہیے۔ جیسے بند پڑے پڑے مشین کو زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح انسان بھی فارغ رہ کر سست اور ناکارہ ہوجاتا ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو تخلیقی صلاحیتیں دی ہیں، جب تک سانس کی ڈور قائم ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اس کا ہر عضو نعمت ہے۔ لہٰذا عمر کا کوئی بھی حصہ ہو، آپ اس سے لطف اندوز ہوں۔ آخری حصے میں تو ویسے بھی انسان کو کسی حد تک فراغت حاصل ہوجاتی ہے اور بہت سی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتا ہے، وقت کی کمی نہیں ہوتی۔ لہٰذا اپنے آپ کو بے کار نہ سمجھیں بلکہ اگر آپ قلم کے سپاہی ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے فوائد حاصل کریں۔ ترقی یافتہ معاشرے میں فرد کو چالیس سال کی عمر کے بعد ہی باشعور اور پختہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ ہمارے سماج میں پچاس کے بعد بڑھاپا طاری کرلیا جاتا ہے۔ زندگی جہدِ مسلسل ہے، لہٰذا اپنے آخر وقت تک اس سے مستفید ہوا جائے۔

یادوں کی پٹاری سے ہر لمحہ ایک نیا پھول کھل کر خوشبو، رنگ اور روشنی بکھیر رہا تھا۔ لیکن وقت محدود تھا۔ عالیہ شمیم کی خوب صورت دعا کے ساتھ نشست برخواست ہوئی۔

حصہ