مغل اعظم۔۔۔جلال الدین محمد اکبر

19

شیرشاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد مغلیہ سلطنت کا دوسرا بادشاہ نصیرالدین ہمایوں آگرہ سے فرار ہوکر امرکوٹ پہنچا، وہاں کے راجا نے بادشاہ کا پُرتپاک استقبال کیا۔ امرکوٹ کے قیام کے دوران 15 اکتوبر 1542ء کو مریم مکانی حمیدہ بیگم کے بطن سے اللہ نے ہمایوں کو ایک بیٹا عطا کیا۔ ہمایوں نے اس کا نام جلال الدین محمد اکبر رکھا۔

شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو چین سے بیٹھنے نہ دیا، اور ہمایوں، شیرشاہ کے خوف سے امرکوٹ سے بھی فرار ہوگیا۔ ہمایوں قندھار پہنچا جہاں اس کے چھوٹے بھائی مرزا کامران کی حکومت تھی، اُس نے ہمایوں سے بے وفائی کی، لہٰذا ہمایوں اپنے بیٹے اکبر کو جس کی عمر اُس وقت صرف ایک سال تھی، اپنے بہت ہی خاص آدمی میر غزنوی کے حوالے کرکے ایران چلا گیا۔ میر غزنوی کے ساتھ اکبر کی آیا ماہم آغا (آنگہ) بھی تھی۔ ہمایوں کے چھوٹے بھائی مرزا عسکری نے اکبر کو اپنی نگہداشت میں لے لیا اور شہزادوں کی طرح اس کی پرورش کی۔

شیر شاہ کے مرنے کے بعد جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر کابل پہنچا تو مرزا کامران نے اپنے آپ کو قلعے میں محصور کرلیا اور قلعے کی فصیل پر اکبر اور اُس کے ساتھ اس کی آیا ماہم آغا کو بٹھا دیا۔ ہمایوں کے فوجی جب توپ کا رُخ فصیل کی سمت کرتے تو گولا باری نہ ہوتی۔ ہمایوں کے فوجی کمانڈر بیرم خان نے غور سے فصیل کی طرف دیکھا تو اس نے ماہم آغا کو پہچان لیا، اُس نے ہمایوں سے کہا کہ فصیل پر ماہم آغا اور ایک چھوٹا بچّہ بیٹھا ہے، اور وہ بچّہ یقینا آپ کا بیٹا اکبر ہی ہوسکتا ہے۔ ہمایوں نے گولاباری اور تیر اندازی رکوادی اور رسد اور کمک کے راستے بند کردیے، اس طرح قلعہ فتح ہوگیا اور ہمایوں کو اس کا بیٹا مل گیا۔ اُس وقت اکبر کی عمر دو سال دو ماہ تھی۔ یہ تفصیلات لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ قارئین کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ اکبر شروع سے ہی کتنا خوش نصیب تھا۔ ہمایوں کا چھوٹا بھائی مرزا کامران مستقل بھائی کے خلاف بغاوتیں کرتا رہا۔ ایک مرتبہ جب وہ ہمایوں کے ہاتھ آگیا تو ہمایوں نے اس کی آنکھیں نکلوا لیں اور اسے مکّہ بھیج دیا۔

ہمایوں کی موت کے بعد امر ا ئے سلطنت نے اکبر کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ تاج پوشی کے وقت اکبر کی عمر 13 سال 9ماہ تھی، ہمایوں نے اپنی زندگی ہی میں بیرم خان کو جو اُس کا بے انتہا وفادار فوجی کمانڈر تھا، اکبر کااتالیق مقرّر کردیا تھا۔ بیرم خان ایک زبردست فوجی کمانڈر اور بہت بڑا مدبر بھی تھا، اس کے تدبّر کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اُس نے ایک ایسی کمزور حکومت کو جس کا حکمران ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکا تھا، گرنے سے بچا لیا۔ اکبر بے حد ذہین اور ہوش مند تھا، لیکن پھر بھی اس میں اتنی صلاحیت نہ تھی کہ حکومت کے بار کو اٹھا سکتا، اور حکومت بھی ایسی جو حال ہی میں اُس کے باپ ہمایوں نے دوبارہ قائم کی تھی اور باپ کے مرتے ہی حکومت چاروں طرف سے خطرات سے گھر گئی تھی۔ ہمایوں نے جن جن علاقوں کو فتح کیا تھا اور وہاں کے راجاؤں اور بادشاہوں نے مجبوراً اطاعت قبول کرلی تھی، ہمایوں کے مرتے ہی سبھی کے دلوں میں دشمنی کے لاوے پکنے لگے اور وہ سب یہ سمجھ بیٹھے کہ ہمایوں کی جگہ تخت پر بیٹھنے والا ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکا ہے، لہٰذا جنگ کرکے اسے شکست دینا بہت آسان ہے۔

ہمایوں کے ان تمام دشمنوں میں سرِ فہرست ہیمو بقّال تھا، یہ شخص دھوسر ذات کا بنیا تھا جو میوات میں پیدا ہوا تھا، سلطنت ِسور کے آخری حکمران محمد شاہ عادل کا وزیرِاعظم اور سپہ سالار تھا، یہ بڑا دلیر اور ہوش مند تھا۔ جب عادل شاہ کی حکومت کے ٹکڑے ہوگئے تو ہیمو نے خود اپنی فوج تیار کرلی اور راجا بکرماجیت کا لقب اختیار کیا۔ جب اسے اطلاع ملی کہ ہمایوں کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے، وہ ایک ہزار ہاتھی اور 50 ہزار فوج لے کر مغلوں سے مقابلے کی خاطر پانی پت کے میدان کی جانب بڑھا۔ مغلوں کے لشکر میں 25 ہزار فوجی تھے۔

غرضیکہ دونوں لشکروں کے درمیان 1556ء میں پانی پت کے تاریخی میدان میں سخت مقابلہ ہوا۔ ہیمو کے ساتھ پٹھانوں (افغانی)کے علاوہ راجپوتوں کی بھی بڑی جماعت موجود تھی جنہوں نے ایسی مردانگی کے ساتھ مغلوں سے مقابلہ کیا کہ مغلوں میں گھبراہٹ پیدا ہوگئی۔ مغلوں کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ان کے گھوڑے ہاتھیوں کے ڈر سے بھاگ رہے تھے۔ مغل سپاہی گھوڑوں سے اتر گئے اور پاپیادہ ہوکر پوری طاقت سے حملے شروع کردیے، یہاں تک کہ ہیمو کے لشکر کو مغلوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ہیمو بدستور ہاتھی پر بیٹھا تھا کہ اچانک ایک تیر اُس کی آنکھ میں ایسا لگا کہ گدّی کے پار ہوگیا جس سے جنگ کا نقشہ ہی پلٹ گیا۔

ہیمو کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی، ہیمو گرفتار کرلیا گیا، اُسے رسّیوں سے باندھ کر اکبر کے سامنے لایا گیا۔ بیرم خان نے اکبر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس کافر کو قتل کیجیے تاکہ آپ غازی کہلائیں اور ثواب ِعظیم حاصل ہو‘‘۔ مگر اس نوعمر بادشاہ نے برجستہ جواب دیا کہ ’’خان بابا! اس نیم مُردہ قیدی کو قتل کرکے نہ ہم غازی بن سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ثواب کما سکتے ہیں‘‘۔ بیرم خان غصے میں تو تھا ہی، اُس نے بڑھ کر ہیمو کی گردن اُڑا دی، اور اس طرح اکبر کو وہ تاریخی فتح حاصل ہوئی جس کے بعد ہندوستان میں حکومتِ مغلیہ کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اکبر کے دادا بابر کی حکومت بھی پانی پت کے میدان میں فتح حاصل کرنے کے بعد قائم ہوئی اور اکبر کی حکومت کا دور بھی پانی پت کے میدان میں فتح حاصل کرنے کے بعد شروع ہوا۔ پانی پت کی فتح اکبر کے نام لکھی گئی، مگر حقیقت میں اس جنگ کی فتح کا سہرا بیرم خان کے سر تھا، اگر بیرم خان نہ ہوتا تو کبھی بھی جنگ میں فتح حاصل نہ ہوسکتی۔

اکبر نے آگرہ کو اپنا دارالسّلطنت مقرّر کیا اور اپنی سلطنت کی وسعت کے لیے مزید جنگیں شروع کردیں، اور ہر جنگ بیرم خان کے مشورے سے لڑی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیرم خان کو چند ماہ میں حکومت ِمغلیہ میں غیر معمولی اقتدار حاصل ہوگیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی اُس کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہوگیاتھا، لہٰذا انہوں نے اکبر کے کان بھرنے شروع کردیے، ان میں سرفہرست اکبر کی آیا ماہم آغا تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اکبر کی عمر 18 سال ہوئی تو بیرم خان سے سارے اختیارات واپس لے لیے گئے اور اب سارے حکومتی فیصلے اکبر خود کرتا تھا۔

اکبر نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور یکے بعد دیگرے علاقے فتح کرتا گیا، اور چند دنوں میں ہندوستان کا ایک بڑا رقبہ اکبر کی حکومت میں شامل ہوگیا۔ راجستھان ایک ایسا علاقہ تھا جہاں کے لوگ جنگجو اور بہادر تھے، اور کوئی بھی راجپوت راجا، اکبر کی اطاعت قبول کرنے پر راضی نہ تھا۔ والیِ جے پور راجا بہاری مل سے اکبر کے تعلقات اچھے تھے، وہ اکبر کا سچا بہی خواہ تھا۔ اکبر آگرہ سے اجمیر کے سفر پر تھا، وہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار ِمبارک پر زیارت کے لیے جارہا تھا، راستے میں اس نے جے پور میں قیام کیا۔ والیِ جے پور راج ابہاری مل بادشاہ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ اکبر نے اُس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس کی بیٹی جودھا بائی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اور مزید یہ بھی کہا کہ اجمیر شریف سے واپسی پر وہ جودھا بائی کو اپنی ملکہ بناکر آگرہ لے جائے گا۔ راجا پس و پیش میں پڑ گیا کہ ایک مسلمان سے بھلا ایک ہندو لڑکی کی شادی کس طرح ہوسکتی ہے! اکبر جب اجمیر سے واپس ہوا اُس وقت تک راجا بہاری مل اپنی بیٹی کی شادی اکبر سے کرنے پر راضی ہوچکا تھا۔ شادی ہندو رسم و رواج کے مطابق ہوئی اور راجا کی بیٹی جودھا بائی ملکہ بن کر اکبر کے حرم میں داخل ہوگئی۔ اس سے قبل اکبر کے حرم میں تین عدد ملکائیں موجود تھیں، یہ تینوں مسلمان تھیں، جودھا بائی چوتھی ملکہ تھی۔ شادی کے وقت راجا بہاری مل نے اکبر سے عہد لیا تھا کہ جودھا بائی کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ لہٰذا جودھا بائی آخر وقت تک اپنے مذہب پر قائم رہی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے جہانگیر نے اسے سکندرہ کے مقام پر دفن کیا اور اس پر ایک شاندار مقبرے کی تعمیر کی۔

جودھا بائی سے شادی سیاسی مصلحت کی بنا پر کی گئی کیونکہ راجستھان کے غیّور راجا، اکبر کے اطاعت گزار نہ تھے۔ لہٰذا جب اکبر نے راجستھان کو اپنا سسرال بنا لیا تو سوائے چند ایک کے، تقریباً سارے راجا اکبر کے مطیع ہوگئے۔ جودھا بائی سے شادی کے بعد راجا بہاری مل اور اُس کے خاندان والوں پر اکبر ساری عمر نوازشیں کرتا رہا۔ راجا بہاری مل کا بیٹا بھگوان داس، پوتا مان سنگھ اور بہت سارے راجپوت سرداروں کو اکبر اپنے ساتھ آگرہ لے آیا اور انہیں فوج میں بڑے بڑے عہدے عطا کیے۔ راجا بھگوان داس اور مان سنگھ کو تو مغلیہ حکومت میں وہ عروج حاصل ہوا جو مشکل ہی سے کسی دوسرے راجپوت سردار کو میسر ہوسکا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہ آمر ہوا کرتے تھے، ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون اور انصاف کی حیثیت رکھتا تھا، ہر حکم واجب الاذعان ہوتا تھا، مگر اکبر نے اس میں تھوڑی جدّت پیدا کی تھی۔ اکبر خود تو پڑھا لکھا نہ تھا مگر اس نے 9 ایسے لوگ اپنے ساتھ رکھ لیے تھے جو بہت قابل تھے اور جنہیں تاریخ میں نورتن کے نام سے تحریر کیا جاتا ہے۔ طریقۂ کار اس طرح تھا کہ ان تمام 9 افراد سے مشورہ کرنے کے بعد اکبر کوئی فیصلہ کرتا تھا۔ یہ نورتن اُس کے مشیر تھے۔ ان نورتنوں میں بیرم خان کا بیٹا عبدالرحیم خان خاناں بھی تھا جو ہندی زبان کا بہت بڑا شاعر گزرا ہے۔

اکبرکے یہاں جو بھی بچّہ پیدا ہوتا وہ مر جاتا تھا، لوگوں نے اُسے مشورہ دیا کہ ہندوستان کے روحانی شہنشاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار ِمبارک پر جاکر اگر دعا کی جائے تو وہ قبول ہوسکتی ہے۔ اکبر نے خواجہ صاحب کے آستانے پر جاکر دعا کی کہ اگر اللہ اسے جیتا جاگتا بچّہ دے گا تو وہ آگرہ سے اجمیر شریف تک پا پیادہ چل کر آستانے پر حاضری دے گا۔ آگرہ کے قریب سیکری قصبے میں ایک مشہور بزرگ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ رہتے تھے، اکبر نے ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوکر بیٹے کے لیے دعا کروائی تھی۔ حضرت نے فرمایا ’’جا تجھے بیٹا مبارک ہو، اور ہم نے اپنے نام پر اس کا نام سلیم رکھ دیا‘‘۔

اس کے بعد جب جودھا بائی حاملہ ہوئی تو اکبر نے شیخ سلیم چشتیؒ کے گھر پر ہی جودھابائی کی رہائش کا بندوبست کردیا، اور سلیم وہیں پیدا ہوا۔ اکبر کے لیے شیخ سلیم چشتیؒ اتنے محترم تھے کہ اس نے سلیم کو کبھی اس کا نام لے کر نہیں پکارا، ہمیشہ اسے شیخو جی کہا کرتا تھا۔ سلیم کے پیدا ہونے کے بعد اکبر پیدل آگرہ سے اجمیر خواجہ صاحب کے آستانے پر حاضری کے لیے گیا۔ اکبرکے دل میں حضرت سلیم چشتیؒ کے لیے اتنی محبت اور عقیدت تھی کہ اس نے فتح پور سیکری میں ایک شاندار قلعہ سرخ پتھروں سے تعمیر کروایا جسے لال قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلند دروازہ یہیں پر ہے، اور حضرت سلیم چشتیؒ کا مزارِ مبارک بھی یہیں ہے۔ اکبر نے اپنا دارالسّلطنت سیکری منتقل کرلیا، مگر تین سال کے بعد وہ دوبارہ آگرہ واپس آگیا، کیونکہ فتح پور سیکری میں پانی کی بہت قلّت تھی جس کی وجہ سے اکثر جانور مر جایا کرتے تھے۔

1605ء میں اکبر شدید بیمار پڑ گیا۔ امرائے سلطنت کے سامنے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ بادشاہ کا جانشین کون ہو؟ اُس وقت سلطنت کا سارا کام راجا مان سنگھ اور خان اعظم کے ہاتھوں میں تھا، اور یہ دونوں ہی سلیم کی بادشاہت کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی وجہ سلیم کی مے نوشی تھی، وہ ضرورت سے زیادہ شراب پیتا تھا اور ہر وقت نشے میں رہتا تھا۔ سلیم کی عمر اُس وقت 36 سال تھی۔ سلیم کا بڑا بیٹا خسرو تھا جس کی عمر اُس وقت 16 سال تھی۔ دونوں امرائے سلطنت خسرو کی بادشاہت کے حق میں تھے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ خسرو راجا مان سنگھ کا سگا بھانجا اور خان اعظم کا داماد تھا۔ خسرو کی ماں ایک راجپوتنی تھی اور رانی جودھا بائی کے بھائی بھگوان داس کی بیٹی اور راجا مان سنگھ کی سگی بہن تھی۔

اکبرکو جب یقین ہوگیا کہ اب اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے، اور اسے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہمارے امرا سلیم کو بادشاہ بنانے کے حق میں نہیں ہیں تو اس نے سلیم کی طلبی کا حکم دیا، اور جب سلیم اس کے سامنے آیا تو اس نے اسے گلے لگا لیا اور حکم دیا کہ سلیم کو شاہی لباس پہناکر شاہی تلوار کے ساتھ میرے سامنے لایا جائے۔ اور جب سلیم شاہی لباس پہن کر اکبر کے سامنے لایا گیا تو اکبر نے تمام امرائے سلطنت کے سامنے سلیم کے بادشاہ بننے کا اعلان کردیا۔ مرنے سے پہلے اکبر نے ملّا صدر جہاں کو بلاکر اُن کے سامنے اپنے گناہوں اور ملحدانہ عقائد سے توبہ کی،کلمہ پڑھا، یٰسین سنی اور دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ اکبر نے 49 سال آٹھ ماہ تک ہندوستان جیسی عظیم سلطنت پر شاندار حکمرانی کی۔ 63 سال کی عمر میں 1605 عیسوی میں انتقال کیا۔ اس کی قبر آگرہ سے کوئی آٹھ میل دور سکندرہ کے مقام پر ہے، جس کے لیے اس نے اپنی زندگی ہی میں ایک مقبرہ تعمیر کروا دیا تھا۔

حصہ