بچے کی تربیت میں باپ کا کردار

20

راشد شام کے وقت گلی کے نکڑ پر دوسرے لڑکوں کے ساتھ بے مقصد بیٹھا تھا۔ آج پھر اسکول سے واپسی پر اس نے اپنے ابو کو مصروف پایا،وہ ہمیشہ کی طرح فون پر باتوں میں الجھے تھے یا دفتر کے کام میں مگن۔ راشد نے کئی بار کوشش کی کہ وہ اپنے دن بھر کی باتیں ابو سے کرے، مگر ہر بار ’’ابھی مصروف ہوں، بعد میں بات کریں گے‘‘ کا جواب ملا۔ آہستہ آہستہ اس کا دل گھر میں گھٹنے لگا اور وہ باہر کے ماحول میں دلچسپی لینے لگا۔ نئے دوست بنے، مگر یہ دوست اچھے نہ تھے۔اسے ایک آزادی اور بات کرنے والے مل گئے جس کا موقع راشد کو گھر میں کم ملتا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور راشد کی عادتیں بدلنے لگیں۔ وہ دیر رات تک باہر رہنے لگا، پڑھائی میں دل نہ لگتا اور گھر والوں سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس کی زبان میں تلخی آگئی، اور اس کے رویے میں عجیب بے پرواہی نظر آنے لگی۔ ایک دن، جب راشد کے انہی دوستوں نے اسے ایک خطرناک حرکت میں شامل ہونے پر مجبور کیا، تو وہ مشکل میں پھنس گیا۔ پولیس تک بات پہنچ گئی ، راشد کے والد کو خبر ملی اور وہ بھاگم بھاگ تھانے پہنچے۔ وہ لمحہ، جب راشد نے خوفزدہ نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا، جیسے سب کچھ کہہ گیا۔ اس دن راشد کے والد کو شدت سے احساس ہوا کہ ان کی مصروفیت نے ان کے بیٹے کو کس راہ پر ڈال دیا ہے۔

اس واقعے کے بعد، باپ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو وقت دیں گے، اس کی بات سنیں گے، اور اس کا سب سے قریبی دوست بنیں گے۔ دھیرے دھیرے، راشد بدلنے لگا۔ اب وہ ہر چھوٹی بڑی بات اپنے ابو سے شیئر کرتا، ان کے ساتھ وقت گزارتا اور زندگی کی راہ پر دوبارہ سنبھلنے لگا۔ ایک باپ کا وقت اور محبت ہی بچے کی اصل ڈھال ہوتی ہے، اور جب یہ چھن جائے، تو زندگی کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔

یہ ایک فرضی کہانی لیکن ہمارے سماج میں موجود ضرور ہے۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے نہ صرف آپ کی زندگی کا تسلسل ہیں بلکہ وہ آئینہ ہیں جس میں آپ کا کردار اور تربیت جھلکتی ہے۔ کام کا دباؤ عارضی ہے، لیکن بچوں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات دائمی یادوں کی شکل میں دل و دماغ میں نقش ہو جاتے ہیں۔ ان کی معصوم ہنسی اور سوالات وہ چراغ ہیں جو زندگی کے تھکے ہوئے راستوں کو روشن کرتے ہیں۔

بچے کی تربیت ایک ایسا حق ہے جو اس کی شخصیت کی بنیادوں کو تراشتا اور اس کے روشن یا تاریک مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے۔ یہ عمل محض روایتی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ ہے، جس میں معاشرتی، اخلاقی، اور دینی اقدار کا رنگ بھرنا ضروری ہے۔ تربیت کے اس سفر میں ماں کی آغوش محبت کا محور ہے، تو باپ کی موجودگی ایک مضبوط ستون کی مانند ہے جو بچے کی شخصیت کو استقامت، خوداعتمادی، اور فیصلے کی قوت عطا کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ باپ کا کردار بچوں کی سوچ اور عمل پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔ پروفیسر جیمز بی ڈوبسن، بچوں کی نفسیات کے ایک نامور ماہر، کہتے ہیں: ’’ایک باپ کا رویہ اور طرزِ زندگی اس کے بچوں کی شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے‘‘۔ باپ محض خاندان کاکفیل نہیں بلکہ بچوں کے لیے ایک ایسا نمونہ ہوتا ہے جو انہیں زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے، اور اپنی موجودگی سے ان کے دل و دماغ میں ایک مضبوط کردار کی تصویر چھوڑ جاتا ہے۔

اسلام کی تعلیم کی بھی روح ہے کہ باپ کی ذمہ داری صرف مادی ضروریات پوری کرنا نہیں بلکہ بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت بھی اس کی اہم ذمہ داری ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بچے جن کے والد ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، وہ زیادہ خود اعتمادی، بہتر تعلیمی کارکردگی، اور مضبوط اخلاقی اقدار کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کرسٹوفر جے فاربر کہتے ہیں:

’’بچوں کے ساتھ وقت گزارنا نہ صرف ان کے جذباتی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ان کے مستقبل کی بنیاد بھی رکھتا ہے‘‘۔

باپ کی توجہ اور بچوں کی ذہنی اور سماجی ترقی کے درمیان تعلق پر کی گئی ایک تحقیق نے اہم نتائج پیش کیے ہیں۔ نیو کیسل یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنس سے وابستہ ماہرین کی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ بچے جنہیں بچپن میں اپنے والد کا زیادہ وقت اور قربت ملی، ان کا آئی کیو لیول دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ مزید برآں، والد کی یہ توجہ بچوں کے مستقبل کے کیریئر اور سماجی حیثیت پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہے۔

اس طویل المدتی مطالعے میں 1958ء میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے 11 ہزار سے زائد مرد و خواتین کا مشاہدہ کیا گیا۔ شرکاء سے ایک سوالنامے کے ذریعے معلوم کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کتنا وقت گزارتے ہیں اور ان کی سرگرمیوں میں کس حد تک شریک ہوتے ہیں۔

تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ڈینیئل نیٹل نے اپنے سائنسی مقالے میں لکھا کہ والد کی زیادہ توجہ بچوں کی ذہنی استعداد پر گیارہ سال کی عمر سے ہی مثبت اثر ڈالتی ہے اور اس کا اثر بچوں کی بالغ زندگی، حتیٰ کہ 42 سال کی عمر میں بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

‘جرنل ایولوشن بیہیویئر میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق:

1.وہ بچے جنہیں والد کا زیادہ وقت ملا، ان کا آئی کیو لیول 11 سال کی عمر میں زیادہ تھا۔

2.ان بچوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت 42 سال کی عمر میں بہتر دیکھی گئی۔

3.اعلیٰ سماجی و اقتصادی حیثیت رکھنے والے والد زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہیں، جس کا ان کے بچوں کی ذہانت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

ڈاکٹر نیٹل کا کہنا ہے کہ تحقیق میں یہ بات حیرت انگیز تھی کہ والد کی توجہ کے اثرات دیرپا اور نمایاں ہوتے ہیں۔ خاص طور پر، ان بچوں کی ذہنی اور سماجی ترقی زیادہ بہتر دیکھی گئی جن کے والد سماجی طور پر مضبوط اور بچوں کی پرورش میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔

مطالعے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بچوں کی ابتدائی زندگی میں والد کی موجودگی اور ان کا وقت بچوں کی قابلیتوں کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، جس کا اثر بچے کی بالغ زندگی میں بھی برقرار رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق، وہ بچے جن کے والد اپنی زندگی میں ایک مستقل اور مثبت کردار ادا کرتے ہیں، وہ نفسیاتی مسائل سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ والد کے ساتھ تعلقات بچوں کو اعتماد، تحفظ، اور محبت کا احساس دلاتے ہیں، جو ان کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔

باپ اپنے عمل اور گفتار سے بچوں کو سکھاتا ہے کہ مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے اور ذمہ داریاں کیسے نبھائی جائیں۔ بچے باپ کے رویے کو دیکھ کر خود بھی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات کہتے ہیں:

’’بچے جو کچھ اپنے والد کو کرتے دیکھتے ہیں، وہی ان کے لیے زندگی بھر کا سبق بن جاتا ہے‘‘۔

باپ کا بچوں کی تعلیم میں کردار بہت اہم ہے۔ اگر باپ بچوں کی تعلیم میں دلچسپی لے، تو بچے زیادہ محنتی اور کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔

اخلاقی تربیت بچوں کی شخصیت کو نکھارتی ہے۔ والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ایمانداری، صبر، اور خدمتِ خلق جیسے اوصاف سکھائے۔نماز کی پابندی، قرآن کی تلاوت، اور سیرت النبی ﷺ کی تعلیم والد کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ والد کا خود دین پر عمل بچوں کو دین سے قریب کرتا ہے۔

والد اپنے طرزِ زندگی سے بچوں کو سکھا سکتا ہے کہ دولت کیسے کمائی اور خرچ کی جائے۔ یہ عادت بچوں کو مالی طور پر مستحکم اور ذمہ دار بناتی ہے.

بچوں کی تربیت میں باپ کا فعال کردار ان کے مستقبل کی کامیابیوں کی بنیاد رکھتا ہے.موجودہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے زندگی کو بدل دیا ہے، وہاں بچوں کی تربیت کے چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا کے اثرات کو سمجھنا اور بچوں کو ان کے نقصانات سے محفوظ رکھنا والد کی ذمہ داری ہے۔

ان نکات کی روشنی میںیہ بات سمجھنے کی ہے کہ بچوں کی تربیت ایک مسلسل عمل ہے، اور باپ اس میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ چاہے وہ دینی تربیت ہو، اخلاقی اصول ہوں، یا دنیاوی تعلیم، باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمل، گفتار، اور محبت سے بچوں کی زندگی سنوارے۔ ایک باپ کی کامیاب تربیت نہ صرف بچوں کو بہتر انسان بناتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی نیک اور صالح افراد فراہم کرتی ہے۔

اگر آپ اپنی زندگی کی مصروفیات میں بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کو محض ایک اضافی کام سمجھتے ہیں، تو شاید آپ ان لمحوں کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے۔ یہ بچے نہ صرف آپ کی زندگی کا تسلسل ہیں بلکہ وہ آئینہ ہیں جس میں آپ کا کردار اور تربیت جھلکتی ہے۔ کام کا دباؤ عارضی ہے، لیکن بچوں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات دائمی یادوں کی شکل میں دل و دماغ میں نقش ہو جاتے ہیں۔ ان کی معصوم ہنسی اور سوالات وہ چراغ ہیں جو زندگی کے تھکے ہوئے راستوں کو روشن کرتے ہیں۔ وقت کا دیا ہوا تحفہ نہ صرف بچوں کی ذہنی و جذباتی نشوونما کو سہارا دیتا ہے بلکہ والدین کے دل میں ایک اطمینان اور سکون کی شمع بھی روشن کرتا ہے۔

حصہ