وی لاگنگ نفسیات:
اس موضوع پر متواتر لکھتا رہا ہوں۔ ’بے حیائی‘ اور ’بے غیرتی‘کا طوفان تھم نہیں رہا۔ ٹیکنالوجی کو فطری اور غیر اقداری باور کرنے کی وجہ سے سنجیدہ لوگ اِس مسئلے کو سمجھنے یا حل کرنے کو تیار نہیں، البتہ پریشان ضرورہیں۔ ٹی وی چینلز پر اِس موضوع پر گفتگو ہورہی ہے کہ اس ’بے قابو جن کو‘کیسے بوتل میں بند کریں۔ نئے سال کے پہلے ماہ میں ’’فیملی وی لاگنگ‘‘کے مضمرات کا تذکرہ رہا۔ ڈکی بھائی، رجب بٹ، ندیم نانی والا، شام ادریس، طلحہ ریویو، اور بدلہ برادرکے نام کسی نہ کسی طور ضرور نظر سے گزرے ہوں گے۔ یہ کیا کہانی ہے؟ آن لائن کورس کا اسکینڈل کیا ہے؟ ان کا فیملی وی لاگنگ سے کیا تعلق ہے؟ یہ سمجھنا ضروری ہے۔ اسکرینوں سے متاثر ہوکر، روزانہ جنم لینے والے لاکھوں نیٹیزن مستقل دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ خود لُٹنے کو تیار بیٹھے ہیں اور دوسروں کو دھوکہ دینے اور پیسہ بٹورنے کے لیے آمادہ۔ ’’بیوی اوربہن کو بٹھا کر Viewsلے رہے ہیں‘‘۔ رنگین اور ذومعنی جملے، فیملی وی لاگنگ کی نقد میں آپ نے ضرور سُنے ہوں گے۔
ایسا شروع سے نہیں تھا۔ بات یہاں تک کیسے پہنچی، ہم اس کا مختصر جائزہ لیں گے۔ خواتین اسکرین پر آتی تھیں، لحاظ اور رکھ رکھائو کے ساتھ۔ اس کی نفسیاتی و تاریخی حرکیات پر بات کرنے سے پہلے اپنے علم کی جانب توجہ کریں گے تاکہ ’اصل‘ سے غافل نہ رہ جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں جن پر اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے: دائمی شرابی، ماں باپ کا نافرمان، اور ’دیوث‘ جو اپنے بیوی بچوں میں بے حیائی برداشت کرتا ہے۔‘‘(مسند احمد حدیث 5349)
زہر کیسے داخل ہوا:
جس معاشرے کی بنیادیہ حدیثِ مبارکہ ہو اُس میں اس زہر کو داخل کرنے کے لیے نت نئے جتن کیے جائیں گے۔ شروع میں فلموں اور ڈراموں میں کردار ادا کرنے والی خواتین کا تعلق ’’خاص بازار‘‘سے ہوتا تھا۔ کوئی پسند نہیں کرتا تھا کہ اُس کی ماں، بہن، بیٹی پیسوں کی خاطر نامحرموں کے ساتھ ناچ گانے، اداکاری وغیرہ میں حصہ لے۔ 1964ء یعنی پی ٹی وی کی آمد کے ساتھ ’دیسی لبرل‘ طبقات نے چھوٹی اسکرین پر قبضہ جمایا۔ حصہ لینے والے افراد کی فہرست دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ زیڈ اے بخاری سے لے کر آخری نام تک، میڈیا پر لادین (سیکولر، کمیونسٹ، سوشلسٹ، ترقی پسند) طبقات کا غلبہ تھا۔ ایسا کیوں ہوا تھا؟ اس لیے کہ دین میں ڈرامے، گانے بجانے کی ضرورت کبھی تھی ہی نہیں۔ نہ ہی دین کو یہ کام مطلوب ہیں، نہ ہی ہمارا دین ایسے کاموں کی اجازت دیتا ہے۔ علما کا معاشرے پر بہرحال ایک اثر موجود تھا۔ دینی طبقات سینما اور اسٹیج ڈراموں کی سخت مخالفت کرتے رہے تھے۔ ریڈیو، ٹی وی آنے کے بعد بھی مخالفت جاری رہی۔
ٹی وی پر قابض سیکولر طبقہ ہی اصل میں وہ عنصر تھا جس نے معاشرے کی تباہی کی راہ ہموار کی۔ پہلے اُنہوں نے تاثر دیا کہ چھوٹی اسکرین پر مہذب پروگرام ہوتے ہیں۔ 1964ء سے 1990ء تک پی ٹی وی یا بھارت کے دور درشن کی یہی طرز رہی۔ پی ٹی وی پر تلاوت آتی تھی اور رمضان نشریات بھی۔ انائونسر سر پر دوپٹہ رکھتی تھی۔ شاید ابتدا میں ہاتھ ہلکا رکھنا تھا، بتانا تھا کہ کوئی غیر شائستہ، غیر مہذب، لادینی پروگرام نہیں ہورہا۔ شروع میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات ہفتے میں چھ دن، صرف پانچ گھنٹے ہوتی تھیں۔ سارا زور ’خبرنامے‘پر تھا۔ ٹی وی سے پہلے ریڈیو ہمارے معاشرے میں سماعت کی حد تک لوگوں کا ذہن بنا رہا تھا۔ اُس میں بھی اہمیت خبروں کی تھی۔ 1948ء، 1965ء اور1971ء کی جنگوں کے حالات اور تازہ خبریں عوام نے ریڈیوپر سُنیں۔ خبریں سرکاری ہی ہوتی تھیں۔ ایک طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو اِن ذرائع سے حالاتِ حاضرہ جاننے کے عمل کو مفید سمجھتا تھا۔ وہ نہیں سمجھا کہ انگلی پکڑانے سے نوبت گلے تک ایسے آجائے گی کہ سانس لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔
آزاد میڈیا:
غلاظت کے اس سفر کی جنرل ضیا کے 10سال میں رفتار کم ضرور ہوئی۔ حکمرانوں کی پالیسیوں سے بھی فرق پڑتا ہے، ویسے بھی اُس دور میں جہادِ افغانستان کی وجہ سے دینی ماحول ایک ریاستی ضرورت بھی تھی۔ 1988ء-1990ء کی کرپٹ حکومتوں نے امریکی غلامی کا طوق پہنا تو لبرل ورلڈ آرڈر کے نفوذ کے لیے پی ٹی وی ناکافی تھا۔ اس لیے نیم سرکاری نیٹ ورک کے ساتھ پی ٹی این، ایس ٹی این، این ٹی ایم، سی این این کے نئے جھونکے چلائے گئے۔ پیسوں کی ریل پیل بڑھی، ڈراموں کی بہتات ہوئی، لوگوں کو زبردستی اسکرین کے سامنے بٹھانے کا سلسلہ بڑھا تو رستے کھلتے چلے گئے۔ 2000ء میں جنرل پرویزمشرف نے آزاد میڈیا پالیسی کے نام پر نجی چینلز کی بھرمار کرڈالی۔1964ء سے 2000ء کے درمیان اسکرین پر پیسہ اور شہرت نظر آنے لگے۔ ٹی وی اور فلمی اداکار، خوبصورت انداز میں اللہ کا شکر ادا کرتے کہ ہمارا ڈرامہ، فلم کامیاب ہوگئی، ’’بہت محنت کی تھی ہم نے‘‘۔ عوام میں پزیرائی ملنا شروع ہوئی۔ سیلیبرٹی کلچر نے رستہ بنایا اور مزید اگلے 20 سال میں معاشرت میں زہر سرایت کرگیا۔
یہ سب آزاد میڈیا کے ذریعے ہورہا ہے۔ 70 کی دہائی میں پی ٹی وی کی کسی انائونسر کے سر سے دوپٹہ اُترا ہوا نظر آتا تو شہر میں احتجاج ہوجاتا، کسی کو بتائیں تو وہ یقین نہیں کرے گا۔ اب پاکستانی ٹی وی پروگراموں میں خواتین کے بازو کھلے ہونے سے بھی کسی کو تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اب یہ لازمی ہے کہ موجودہ نسل کا تصورِ حیا کم لباسی دیکھ کر، یہیں سے شروع ہوگا۔ 80-70 کی دہائی میں تصورِ حیا مختلف تھا اس لیے دوپٹہ اُترنا بھی برداشت نہیں ہوتا تھا۔ آج اسے برداشت کرلینا، میڈیا کا تحفہ ہے۔ ’’اب زمانہ بدل گیا ہے۔ آج ایسا وقت ہے‘‘کہہ کر بچ نہیں سکتے۔ عریانی و فحاشی کے خلاف چلنے والی مہمات مخلوط شادیوں اور نوجوانوں کے ٹک ٹاک پس منظر میں بے معنی ہوچکی ہیں۔ یہ ہے آزاد میڈیا۔
احتجاج ختم ہونے کی وجہ، ڈبل گیم:
مخالفت کرنے والے دینی طبقات کو مختلف مواقع پرٹی وی اسکرین کی زینت بنایا گیا۔ اُن کے ذہنوں میں ڈالا گیا کہ یہ ایک میڈیم ہے، ابلاغ کا ذریعہ ہے، یہ تو بس ایک مشین ہے۔ اس پر چاہو درسِ قرآن دے دو، نعت پڑھ لو، یا ڈرامہ دکھا دو، گانا سن لو۔ بس یہ جعلی دلائل سُن کر فہم کی غلطی ہوگئی۔ اسلامی علمیت میں کبھی بھی ایسی چیزوں کو اُن کی اصل، اُن کے وجود کی حقیقت سے الگ کرکے نہیں دیکھا، جانا، جانچا جاتا تھا۔ اِس مرتبہ اتنا زور تھا کہ یہ دیکھ ہی نہ پائے اور ’’آزمائش شرط ہے‘‘ یعنی Test drive کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو اصل پیمانہ ہی ذہن سے نکل گیا۔ اب ہمیں ’’دین بھی تو پھیلانا ہے‘‘ اس لیے عداوت، مفاہمت میں بدلی اور آج ضرورت بن چکی ہے۔ میں نے اس تبدیلی کو80 اور 90کی دہائی میں اپنے بچپن سے دیکھا ہے کہ تلاوت، نعت، درسِ قرآن و حدیث، قرآن پڑھانے کاپ روگرام اقرا، قوالی، رمضان نشریات، محرم پر مجالس… سب سکڑتے اور تجدد کا شکار ہوگئے۔ علماء کرام کے اسکرین پر آنے کے بعد مخالفت کم ہوئی۔ لبرل طبقات نے مفاہمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملے کا نیا طریقہ اپنایا۔ اسکرین پر آنے والے علماء کرام کو شہرت ہی نہیں، ’’لفافوں‘‘ سمیت دیگر مراعات کا عادی بنادیا۔ دینی طبقات کو ابلاغ نظر آیا، شہرت بھی ملی مگر ان کو نظر نہیں آیا کہ معاشرے میں بے حیائی، عریانی و فحاشی بڑھ رہی ہے۔ خواتین کو گھروں سے باہر نکالا جارہا ہے، بے پردگی سے آگے کم لباسی کا سفر طے ہوچکا ہے۔ ’’توڑوں‘‘ کی آزمائش اور ’’شہرت‘‘ دینی طبقات کی مخالفت کو بہا کر لے گئی۔ ٹیکنالوجی ’’نیوٹرل‘‘ قرار دینے کے بعد موبائل آیا اور انٹرنیٹ بھی۔ سوشل میڈیا کو ’’ویلکم‘‘ کیاگیا کیونکہ یہ نیوٹرل اور انسانی سہولت کے لیے ہے۔
ڈالروں کی برسات:
سوشل میڈیا نے عوام کے ذہن میں جگہ بنائی اور اس سے پیسہ جُڑ گیا تو یہ زہر دو آتشہ ہوگیا۔ اب ہر شخص سوچنے لگا کہ ٹی وی اسکرین پر آئے، فلموں میں کام کرے تو پیسہ و شہرت پائے۔ یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز نے تو مسئلہ آسان کردیا۔ موبائل سے ہر قسم کی تصویریں بنانے لگے۔ لوگوں نے دیکھنا شروع کیا تو مقبولیت ملی اور لوگ ’’سیلیبرٹی‘‘ ہی نہیں پورا ’’برانڈ‘‘ بن گئے۔ یہ سیلیبرٹی بننے کا سفر سینما کی بڑی اسکرین سے چلتا ہوا ٹی وی اور اُس کے بعد موبائل تک پہنچ گیا۔ انعام پاکستانی روپے میں نہیں بلکہ ڈالروں میں ملنے لگا۔ شہرت اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں بے غیرتی گھر کرتی گئی۔ غیرت اور حمیت کی حدیں پھلانگنے والے کو زیادہ شہرت ملی۔ میں چند مثالوں سے سمجھاؤں تو دیکھیں کہ ’’عروب کے بال پرپل (purple)کردیے‘‘، یہ ایک وڈیو کا ٹائٹل ہے جس میں شوہر نے بیوی کے بالوں کا رنگ تبدیل کردیا۔ اس کو لاکھوں ناظرین دیکھ رہے ہیں۔ 30لاکھ روپے کی گھڑی خرید لی، ’’رجب فیملی‘‘کی اس وڈیو کو 24 لاکھ لوگ کس حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک اور خاندان ہے سسٹرولوجی کے نام سے، ’’کزن کی مہندی، رابعہ کے ساتھ پرینک‘‘ کی اس وڈیو کو سوا کروڑ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ یہ میں نے بہت احتیاط سے ٹائٹل منتخب کیے ہیں، ورنہ وڈیوز کا مواد ہی نہیں اُن کے موضوعات بھی ناقابلِ بیان ہیں۔ صبح سے رات تک کوئی کیا کرتا رہا، لباس کیسے بدلا، کیا کھانا کھایا، کیسے کھایا، کب سوکر اٹھا، کس کے ساتھ کہاں گیا، جیسی فضولیات جاننے کے لیے کروڑوں لوگ دیوانے ہیں۔ boredomکو دور کرنے کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں وہ اپنے اخلاق کو خراب کرنا اور بے غیرتی اختیار کرنا ہے۔ ہماری زندگی سے مشقت کا تصور ختم ہورہا ہے۔
قابلِ فکرپہلو یہ ہے کہ وی لاگز دیکھنے والے بچے احساسِ کمتری اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ یوٹیوبروں، ٹک ٹاکروں کو دیکھنا نئی نسل کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ناظرین یہ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ سب ’’اسکرپٹڈ‘‘ منصوبہ ہے۔ اسکرپٹ انور مقصود، خلیل الرحمٰن، اوریا مقبول جیسے کسی فردکا لکھا ہوا نہیں ہوتا۔ خود پلان کرتے ہیں کہ اب ناظرین کو کیا اور کیسے دکھانا ہے۔ موبائل پر آسانی ہوگئی۔ مہنگے اداکار، نہ کوئی سیٹ، تیز روشنی نہ کپڑے، کسی کی ضرورت نہیں۔ بس ہاتھ میں موبائل پکڑا اور بولنا شروع کردیا، جو منہ میں آیا بک دیا۔ جو الٹا سیدھا کررہے ہیں وہ بتانا اوردکھانا شروع کردیا۔ وڈیو بنتے وقت موجود گھر والوں کو اندازہ نہ ہو کہ کیا ہورہا ہے۔ وڈیو اپلوڈ ہونے کے بعد وائرل ہوتی ہے تو نظر آتا ہے کہ کیا ہوگیا۔
موضوع قدرے طویل ہے۔ اگلے اتوار کو مزید بات کریں گے، اِن شاء اللہ۔