ہد ہد کی خوبی

35

حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں سے ہم کلام ہونے کی قدرت رکھتے تھے۔ پرندوں نے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو زبان دان اور محرمِ راز پایا تو انہوں نے اپنی چوں چوں ترک کی اور پیغمبرِ خدا کی صحبت اختیار کرلی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں کیا چرند کیا پرند، سبھی حکمت و دانائی کی باتیں کرتے۔

ایک دن دربار لگا ہوا تھا، معمول کے مطابق حاضرین دربار میں اپنی اپنی زبان میں باتیں کررہے تھے۔ تجربے اور دانائی کی نہریں رواں تھیں۔ اس روز پرندے اپنی صفات اور ہنر بیان کررہے تھے۔ آخر میں ہُدہُد کی باری آئی، اس نے کہا: ’’اے علم و حکمت کے بادشاہ! مجھ میں ایک خوبی ہے جو عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ دانائوں نے کہا ہے کہ مختصر کلام ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں اڑتے ہوئے بلندی سے زیرِ زمین پانی کا اندازہ لگالیتا ہوں کہ کتنی گہرائی میں ہے۔ پانی کی خاصیت کیا ہے۔ زمین سے نکل رہا ہے یا پتھر سے رِس رہا ہے‘‘۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُد ہُد کی اس خوبی کی بہت تعریف کی اور اجازت عطا فرمائی کہ ’’بے آب و گیاہ صحرائوں میں سفر کے دوران تُو ہمارے ہراول کے ساتھ رہا کر، تاکہ پانی کا کھوج لگاتا رہے‘‘۔

زاغ بدنیت نے جب سنا کہ ہُد ہُد کو ہراول میں شریک رہنے کا اعزاز عطا ہوا ہے تو مارے حسد کے انگاروں پر لوٹنے لگا۔ فوراً پیغمبرِ خدا علیہ السلام کے سامنے آکر کہنے لگا: ’’ہُدہُد نے آپ علیہ السلام کے حضور سخت گستاخی کی ہے اور جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ اسے اس کذب بیانی کی سزا دی جائے۔ اس سے پوچھیے کہ تیری نظر ایسی تیز ہے کہ پاتال میں چھپے ہوئے پانی کی خبر دیتی ہے تو پھر تجھے زمین پر بچھا ہوا جال کیوں نہیں نظر آتا؟ جو شکاری تجھے پھانسنے کے لیے لگاتا ہے۔ ایسا ہنر رکھتا ہے تو جال میں گرفتار کیوں ہوجاتا ہے؟ آسمان کی بلندیوں سے وہ جال کیوں نہیں دیکھ لیتا؟‘‘ زاغ بدنیت (کوّے) کی بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُدہُد سے کہا: ’’دعوے کی صداقت کا ثبوت پیش کر‘‘۔

ہُد ہُد نے بے خوف ہوکر عرض کیا: ’’اے بادشاہ سلامت! اگر میرا دعویٰ صحیح نہ ہو تو یہ گردن حاضر ہے۔ یہ صفت مجھے قدرت نے عطا کی ہے۔ جب قدرت ہی یہ صفت سلب کرلے، جب فرمانِ قضا و قدر جاری ہو اور میرا وقتِ آخر آجائے تو نگاہ کی خوبی کیا کرے! ایسے موقع پر عقل کام نہیں کرتی، چاند سیاہ ہوجاتا ہے اور سورج گہن میں آجاتا ہے‘‘۔

درسِ حیات: اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق تدبیروں کو توڑ دیتا ہے۔ قضا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔

حصہ