نصیرالدین ہمایوں

58

بابر کو اپنے بڑے بیٹے ہمایوں سے بے انتہا محبت تھی۔ ہمایوں شدید بیمار پڑ گیا، اس کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ بابر نے اس کے بستر کے گرد تین چکّر لگائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یااللہ میں اپنے آپ کو اس کے لیے صدقہ کرتا ہوں، میرے بیٹے کو صحت مند کردے۔ ہمایوں آہستہ آہستہ صحت مند ہونے لگا اور بابر بخار میں مبتلا ہوگیا، اور بالآخر 26 دسمبر 1530ء کو49 سال کی عمر میں اس کی موت واقع ہوئی۔ نصیرالدین ہمایوں 24 سال کی عمر میں ہندوستان کے تخت و تاج کا مالک ہوا۔

ہمایوں کو اپنے بھائیوں سے بہت محبت تھی اور بابر کی وصیّت بھی تھی کہ ان سب کا خیال رکھنا۔ لہٰذا اس نے تینوں بھائیوں کو ہندوستان کے مختلف حصّے دے دیے اور خود ایک محدود اور چھوٹے سے علاقے کا بادشاہ بن کر رہ گیا۔ ہمایوں کے لیے ایک نئی مصیبت شیر شاہ سوری کا وجود تھا۔ شیر شاہ سوری کا اصل نام فرید خان تھا اور وہ نسلاً افغانی تھا، سہسرام کے جاگیردار حسن خان کا بڑا بیٹا تھا۔ شیر شاہ سوری نے بطور سپاہی ظہیر الدین بابر کی فوج میں کچھ دن تک خدمات سر انجام دی تھیں، بعد ازاں وہ سہسرام اپنے والد کے پاس چلاگیا، اس کی خواہش تھی کہ ہندوستان جیسی عظیم سلطنت پر حکمرانی کرے۔ اس نے جونپور سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ بہت بہادر اور اچھی سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔

شیر شاہ سوری نے ایک فوج ترتیب دی اور ایک دن وہ بھی آیا جب وہ آگرہ کے قلعہ تک پہنچ گیا۔ اپنے بھائیوں کی ناچاقی کی وجہ سے ہمایوں کمزور ہوچکا تھا، لہٰذا شیر شاہ نے اس کا فائدہ اٹھایا اور جنگ میں ہمایوں کو شکست ہوئی۔ ہمایوں شکست کھا کر آگرہ سے فرار ہوا، جب وہ امر کوٹ پہنچا تو وہاں کے راجا نے بادشاہ کا پُرتپاک اور شاہانہ استقبال کیا۔

امرکوٹ کے قیام کے دوران 15 اکتوبر 1542ء کو مریم مکانی حمیدہ بیگم کے بطن سے اللہ نے ہمایوں کو بیٹا عطا کیا۔ ہمایوں نے اس کا نام جلال الدین محمد اکبر رکھا۔ شیر شاہ مستقل ہمایوں کے تعاقب میں تھا، لہٰذا ہمایوں امرکوٹ سے بھی فرار ہوکر قندھار چلا گیا جہاں اس کا چھوٹا بھائی مرزا کامران بادشاہ تھا۔ اس نے ہمایوں سے غدّاری کی، لہٰذا اب ہمایوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہاں سے بھی فرار ہوجائے۔ فرار ہونے سے قبل ہمایوں نے اکبر کو جس کی عمر اُس وقت صرف ایک سال تھی، اپنے خاص آدمی امیر غزنوی جس پر ہمایوں کو پورا بھروسہ تھا، کے سپرد کیا اور اپنی بیوی مریم مکانی کو ساتھ لے کر 1543ء میں ایران چلا گیا۔ ہمایوں کا سب سے چھوٹا بھائی مرزا عسکری بھی ہمایوں کا مخالف تھا اور اس وقت اپنے بڑے بھائی مرزا کامران کے ساتھ قندھار میں تھا۔ مرزا عسکری نے شہزادہ اکبر کو طلب کیا۔ امیر غزنوی اور اکبر کی آیا ماہم آغا جب شہزادے کو لے کر مرزا عسکری کے سامنے آئے تو اس نے اکبر کو خوب پیار کیا اور شہزادے کو مع اس کے پرورش کرنے والوں کے، قندھار لے گیا اور اکبر کو اپنی بیوی سلطان بیگم کے سپرد کردیا، جس نے اکبر کی اپنی اولاد کی طرح پرورش کی۔ اکبر کی پرورش اس طرح ہوئی جس طرح ایک شہزادے کی پرورش ہوتی ہے۔

ادھر ہندوستان میں شیر شاہ کی حکمرانی تھی۔ آگرہ اس کا مرکز تھا۔ 1540ء سے 1545ء تک ہندوستان کا بادشاہ شیر شاہ سوری تھا۔ اس کی موت ایک جنگ کے دوران آگ میں جھلسنے سے ہوئی۔ اس کے بعد اُس کا بیٹا بادشاہ مقرّر ہوا مگر بھائیوں میں آپس کی رنجشیں اس قدر بڑھیں کہ حکومت کا بیڑا غرق ہونے لگا۔ ہمایوں کے لیے یہ خبر خاصی خوش کن تھی، لہٰذا وہ ایران سے فوج لے کر ہندوستان کی طرف چل پڑا۔ سب سے پہلے وہ کابل میں داخل ہوا، اُس وقت وہاں اس کے بھائی مرزا کامران کی حکومت تھی۔ مرزا کامران قلعہ کے اندر تھا، اس نے قلعہ کی فصیل پر اکبر کو بٹھا دیا۔ اُس وقت اکبر کی عمر دو سال اور دو ماہ تھی۔ اکبر کے ساتھ اس کی آیا ماہم آغا بھی تھی۔ ہمایوں کے فوجی جب توپ کا رخ فصیل کی طرف کرتے تو گولہ باری نہ ہوپاتی۔ ہمایوں کے فوجی کمانڈر بیرم خان نے غور سے فصیل کی طرف دیکھا تو اس نے ماہم آغا کو پہچان لیا۔ بیرم خان نے ہمایوں سے کہا: فصیل پر ماہم آغا اور ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہے، یقیناً وہ آپ کا بیٹا اکبر ہے۔ ہمایوں نے گولہ باری اور تیر اندازی فوراً رکوا دی، مگر محاصرہ بدستور برقرار رکھا اور رسد اور کُمک کی ساری راہیں بند کردیں جس کی وجہ سے مرزا کامران کو قلعہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور قلعہ فتح ہوگیا۔ ہمایوں کو قلعہ فتح ہونے کی خوشی سے زیادہ اپنے بیٹے اکبر کو پانے کی خوشی تھی۔ اس کے بعد ہمایوں دہلی کی جانب بڑھا اور اس کی خوش قسمتی کہ دہلی بھی فتح ہوگیا۔ اور ہمایوں 1555ء میں دوبارہ دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ اس طرح ہمایوں کو اس کی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ مل گئی۔ ہمایوں کی قسمت اچھی تھی جو شیر شاہ مر گیا۔ مورّخین کا خیال ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو کبھی بھی ہمایوں دوبارہ ہندوستان کا بادشاہ نہیں بن سکتا تھا۔

ہمایوں ایک بہادر بادشاہ تھا لیکن اس کی سب سے بڑی کمزوری اس کی آرام طلبی تھی۔ چنانچہ جو علاقہ بھی وہ فتح کرتا وہاں رک کر کچھ دن آرام ضرور کرتا۔ جب وہ بنگال گیا تو وہاں کی دلچسپیوں میں ایسا مگن ہوا کہ وہیں اس نے مستقل قیام اختیار کرلیا۔ افیون کا وہ عادی تھا۔ ہمایوں کی ان آرام طلبیوں اور عشرت پسندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دشمنوں کو ابھرنے کا موقع مل گیا، اور ان دشمنوں نے ایک دن اسے حکومت تک سے محروم کردیا۔

ہمایوں عشرت پسند ضرور تھا مگر عیّاشی اور بدچلنی سے اس کا دامن پاک تھا۔ گائے کے گوشت سے اسے فطری طور پر نفرت تھی۔ اسے کشتی چلانے سے بے حد دلچسپی تھی۔ کشمیر کی بنگلہ نما کشتیاں اسی کی ایجاد ہیں۔ ہمایوں نے جو قلعہ تعمیر کروایا تھا وہ جس علاقے میں ہے اسے پرانی دلّی کہتے ہیں۔ قلعہ میں ایک گول عمارت ہے جس میں کتب خانہ ہے اور اُوپر کھلی چھت۔ ہمایوں کو انجم شناسی کا بھی شوق تھا، لہٰذا وہ چھت پر جاکر ستارے دیکھا کرتا تھا۔ ایک شب جب وہ اس گول عمارت کی چھت سے نیچے اتر رہا تھا سامنے مسجد سے عشاء کی اذان کی آواز سنائی دی۔ ہمایوں احتراماً بیٹھنا چاہتا تھا کہ اس کی پوستین میں اس کا پاؤں اُلجھ گیا۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا اور سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے آگیا، اس کے نتیجے میں اُس کی داہنی طرف کی کنپٹی پھٹ گئی، کان سے بھی خون آگیا۔ بس اتنا ہوش تھا کہ اس نے کہا: فوراً میرے بیٹے اکبر کو بلاؤ۔ اس کے بعد ہمایوں بے ہوش ہوگیا۔ اکبر اُس وقت فوج کے ساتھ ہریانہ پہنچ چکا تھا۔ فوج کا کمانڈر اور اکبر کا اتالیق بیرم خان جو ہمایوں کا بے انتہا وفادار تھا، فوج کو کمانڈ کررہا تھا۔ یہ وہی بیرم خان ہے جو 15 سال کی عمر میں ہمایوں کی فوج میں بھرتی ہوا تھا، اور جب ہمایوں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا اس پریشانی کے عالم میں بھی بیرم خان نے ہمایوں کا ساتھ نہ چھوڑا، اور ایران میں جلاوطنی کے دوران بھی بیرم خان ہمایوں کے ساتھ تھا۔ ہمایوں نے بیرم خان کو اپنی موت سے چند دن قبل ہی اکبر کا اتالیق مقرّر کیا تھا۔ ابھی فوج ہریانہ پہنچی ہی تھی کہ قاصد نے بیرم خان کو خبر دی کہ ہمایوں بری طرح زخمی ہوگیا ہے۔ یہ سن کر تمام فوجی سرگرمیاں روک دی گئیں اور فوج دہلی کے لیے روانہ ہوگئی۔

زخمی ہونے کے چوتھے روز 24 جنوری 1556ء کو ہمایوں کا 50 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اُس کی موت کو سیاسی مصلحت کی بنا پر سترہ دن تک پوشیدہ رکھا گیا۔ اکبر دہلی واپس آیا اور سارے امرائے دربار نے اُسے بادشاہ بنانے کا متفقہ فیصلہ کرلیا۔ چونکہ اُس وقت اکبر کی عمر صرف 13 سال اور نو ماہ تھی اس لیے سلطنت کے سارے انتظامات اکبر کا اتالیق بیرم خان دیکھتا تھا۔ اکبر کی تاج پوشی کے بعد ہمایوں کی موت کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ ہمایوں دہلی میں مدفون ہے، اس کے مقبرے کی عمارت انتہائی شاندار ہے جسے اس کی پہلی بیوی بیگا بیگم نے 1558ء میں تعمیر کروایا تھا۔

حصہ