اسلامی تہذیب میں وجود باری تعالیٰ کے دلائل

80

دنیا کی مذہبی تہذیبوں میں سب سے بڑا علم الٰہیات یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے علم کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں۔ اگر خدا ہے تو زندگی اور کائنات کی ہر چیز بامعنی اور بامقصد ہے‘ اور اگر خدا موجود ہی نہیں تو پھر کائنات کی ہر چیز بے معنی اور بے مقصد ہے۔ لیکن اہمیت صرف اللہ کے ہونے یا نہ ہونے ہی کو حاصل نہیں‘ اس بات سے بھی بہت فرق پڑتا ہے کہ کسی تہذیب میں خدا کو کس طرح کا خدا سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہندو تہذیب میں یہ سمجھا گیا کہ کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ موجود ہے‘ اس سے حلول کا نظریہ پیدا ہوا جو شرک ہے۔ عیسائی تہذیب حضرت عیسیٰ ؑ کی معجزانہ پیدائش کی صحیح تعبیر نہ کرسکی اور اس نے حضرت عیسیٰؑ کو اس وجہ سے نعوذباللہ اللہ کا بیٹا قرار دے ڈالا۔ یا مغربی تہذیب میں ایک خاص مرحلے پر خدا کے بارے میں یہ تصور عام ہوا کہ بلاشبہ یہ کائنات خدا نے بنائی ہے‘ مگر خدا کائنات کو بناکر اس سے بے تعلق ہوگیا۔ چنانچہ یہ کائنات اب فطری قوانین کے مطابق چل رہی ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح گھڑی میں چابی بھر دیتے ہیں اور وہ بھی پھر اس کے زیراثر ازخود چلتی رہتی ہے۔ اس گفتگو سے ظاہر ہوگیا کہ خدا کی ذات یا صفات کی ذرا سی غلط تعبیر یا اس کا ذرا سا غلط علم ہر چیز کے معنیٰ تک بدل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کے بارے میں ایک بات‘ دنیا کے بارے میں جانی گئی کروڑوں باتوں سے زیادہ اہم ہے ۔ سیکولر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری مذہبیات میں الٰہیات بہت ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ الٰہیات بہت اہم ہے۔

الٰہیات کا ایک پہلو اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل سے متعلق ہے۔ یعنی وہ کون سے دلائل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ الٰہیات کے اس پہلو پر ہماری ہر بڑی یا قابلِ ذکر شخصیت نے کچھ نہ کچھ فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری علمی تاریخ وجود ِباری تعالیٰ پر دلائل کا قیمتی خزانہ بن گئی ہے۔

روایت میں ہے کہ حضرت امام مالکؒ سے ہارون الرشید نے پوچھا کہ اللہ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، نغموں کا الگ ہونا اور آوازوں کا جدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہے۔

حضرت امام ابوحنیفہؒ سے بھی یہی سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی ہے جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں، مگر اس کشتی کا نہ کوئی نگہبان ہے نہ دیکھنے والا‘ اس کے باوجود کشتی برابر آ اور جارہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے‘ ٹھیرنے کی جگہ پر ٹھیر جاتی ہے‘ چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے۔ نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا: آپ کس سوچ میں پڑگئے‘ کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے اور جائے اور اس کا کوئی چلانے والا نہ ہو؟ امام ابوحنیفہؒ نے یہ سن کر فرمایا: افسوس تمہاری عقلوں پر ہے کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے‘ لیکن ساری دنیا اور آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں‘ اور نہ ان کا کوئی خالق ہو‘ نہ مالک ‘نہ حاکم۔ امام ابوحنیفہؒ کا یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا رہ گئے اور حق کے معلوم ہوتے ہی مسلمان ہوگئے۔

حضرت امام شافعیؒ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ تُوت کے پتے ایک سے ہیں‘ ان کا ذائقہ بھی ایک ہے‘ مگر ریشم کا کیڑا اسے کھاکر ریشم بناتا ہے‘ شہد کی مکھی شہد تیار کرتی ہے‘ ہرن میں اس سے مشک پیدا ہوتا ہے اور بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ پتوں میں مختلف خواص پیدا کرنے والا کون ہے!

امام احمد بن حنبلؒ سے بھی ایک مرتبہ وجود ِباری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: سنو‘ یہاں ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں نہ کوئی دروازہ ہے نہ کوئی راستہ‘ بلکہ سوراخ تک نہیں۔ یہ قلعہ باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے۔ یہ قلعہ ہر طرف سے بند ہے۔ ہوا تک کا اس میں سے گزر نہیں۔ اچانک اس قلعے کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا، نہایت خوبصورت‘ پیاری بولی والا چلتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔ بتائو اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر‘ اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو‘ چاروں طرف سے بند ہوتا ہے‘ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس میں چوزہ پیدا کردیتا ہے۔

حضرت ابُونواس سے جب پوچھا گیا کہ وجود ِباری تعالیٰ کی کیا دلیل ہے‘ تو انہوں نے فرمایا: بارش برسنا، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود کی دلیل ہے۔

بڑی شخصیتوں کی تو بات ہی اور ہے‘ ایک عام بدو سے پوچھا گیا: اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے؟ تو اس نے کہا کہ مینگنی سے اونٹ اور پیروں کے نشان سے آدمی کا جانا معلوم ہوجاتا ہے‘ تو برجوں والا آسمان‘ یہ راستوں والی زمین اور موجیں مارتا ہوا سمندر وجود ِباری تعالیٰ پر دلیل نہیں ہوسکتے!

وجود ِباری تعالیٰ سے متعلق یہ دلائل بجائے خود اہم ہیں‘ تاہم یہ دلائل جن معنیٰ سے برآمد ہوئے ہیں وہ ان دلائل سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ مثال کے طور پر امام مالکؒ کی نظیر زندگی اور کائنات کے ’’تنوع‘‘ سے آئی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کی مثال اللہ تعالیٰ کی ’’قدرت‘‘ سے نمودار ہوئی ہے۔ امام شافعیؒ کی مثال ’’حیرت‘‘ سے برآمد ہوئی ہے‘ جب کہ امام احمد بن حنبلؒ کی مثال کا سرچشمہ ’’معجزہ‘‘ اور ابونواس کی مثال کا سرچشمہ ’’نعمت‘‘ ہے۔ البتہ سوال یہ ہے کہ ایک عام بدو کی جو مثال دی گئی ہے اس کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ غور کیا جائے تو بدو کی مثال کی جڑیں فہمِ عام، عقلِ عام یا Common Sense میں پیوست ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی آدمی زندگی اور کائنات کے تنوع پر غور کرے تو وہ خدا تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی کو توفیق ہو اور وہ قدرت کے مظاہر پر تدبر کرے تو وہ وجود ِباری تعالیٰ کا قائل ہوجائے گا۔ اسی طرح حیرت کی کیفیت اور معجزے کی نوعیت بھی انسان کو خدا تک پہنچا سکتی ہے۔ زندگی اور کائنات میں بکھرا ہوا نعمتوں کا سلسلہ بھی انسان کو خدا کا قائل کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے پاس کچھ نہ ہو‘ صرف عقلِ عام، حس مشترک یعنی Common Sense ہو تو بھی وہ اللہ تعالیٰ کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان کی سطح امام ابوحنیفہ جیسی ہو یا ایک عام آدمی جیسی‘ وجود ِباری تعالیٰ تک جانے کا راستہ سب کے لیے کھلا ہے‘ اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی اہلیت کم تھی جس کی وجہ سے وہ وجودِ باری تعالیٰ کا قائل نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی ذہنی سطح اور ذوق کے لیے ایک دلیل مہیا کررکھی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو حجت کیسے قائم ہوتی؟

حصہ