حسرت

38

یوں تو انسان کی تمام زندگی سوچتے سوچتے ہی گزر جاتی ہے۔ لیکن ہم ایسی باتیں ذرا کم ہی سوچتے ہیں ۔مثلاً یہ کہ انسانیت کی پست ترین سطح کیا ہوسکتی ہے؟

میں نے بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ کبھی نہ کبھی زندگی وہ پست ترین سطح ہماری آنکھوں کے سامنے ضرور لے آتی ہے۔

میں نے ایک متوسط طبقے کے خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس درمیانے طبقے کے دکھ بھی سب سے زیادہ ہی ہوتے ہیں۔ ماں باپ کی ناچاقیاں، بھائی بہنوں کی لڑائیاں، کزنز کی چالاکیاں، خاندانی انتشار… اور ان سب سے بڑھ کر حسرتوں کے دکھ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

سوٹ کے ساتھ ہم رنگ (میچنگ) دوپٹہ نہ ملنا بھی ہم متوسط طبقے کی لڑکیوں کو حسرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ گو کہ مجھے کسی چیز کی کمی نہیں تھی پھر بھی میں سالن میں من پسند بوٹیوں پر لڑا کر تی تھی، اسکول جاتے اور آتے وقت آگے والی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے لڑا کرتی تھی، الماری میں سب سے نچلا خانہ ملنے پر لڑا کر تی تھی، اور نہ جانے کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہوتی تھیں۔

بچپن کے یہ دکھ بڑے لگا کرتے تھے۔ لیکن جب بڑے ہوئے تو دکھ آسمان جیسے دکھائی دینے لگے۔ میٹرک میں سی گریڈ بنا تو شرمندگی کا دکھ ، اچھے کالج میں داخلہ نہ ملنا اس سے بھی بڑا دکھ، پسند کے لڑکے سے شادی نہ ہوسکی یہ سب سے بڑا دکھ۔ میں نے اپنی شادی شدہ بہنوں کو ہمیشہ ہنستے کھلکھلاتے دیکھا تو مجھے لگتا تھا کہ شادی ان نام نہاد دکھوں کا علاج ہے، لیکن شادی کے بعد جانا کہ ہفتے دس دن میں ایک دفعہ اُن کا ماں باپ کے گھر مل بیٹھنا، ہنسنا بولنا محض غم غلط کرنا تھا۔ وہ اپنے تمام غم کونوں کھدروں میں چھپ کر ماں کے کان میں انڈیل جاتی تھیں۔ خیر کیا تو میں نے بھی یہی، کہ اس کے سوا چارہ ہی کیا تھا! ایک محدود آمدنی والے شخص کی بیوی اور گھر کی بڑی بہو ہونا شاید دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ ہر بات کی ذمے داری سسرال والے میرے کاندھوں پر ڈال دیا کرتے تھے۔ میاں سے اپنے مسئلوں کا حل پوچھتی تو منہ میں گھنگیاں ڈالے چپ۔

بہت زیادہ الجھنے پر صرف ایک جملہ سننے کو ملتا کہ ’’جتنا لڑنا ہے مجھ سے لڑلو لیکن میرے گھر والوں سے نہ لڑنا۔‘‘ یہ جملہ میرے ذہن کو ابتر ترین سطح پر لاپٹختا تھا۔ دل چاہتا دیواروں میں ٹکریں ماروں۔ یہ کوئی میرے مسئلوں کا حل تھا بھلا! اس سے آگے کے مرحلے اور بھی کڑے تھے۔ جب بچے چھوٹے تھے تو دل چاہتا کہ جہاں بھر کی رنگ برنگی اشیا ان کے سامنے ڈھیر کردوں، پر وہ وقت بچاتے بچاتے گزرا تاکہ آگے جاکر ان کی بڑی خواہشیں پوری کرنے میں کام آئے۔ مگر جب بڑے ہوئے تو خواہشات اور ضروریات بھی اتنی ہی بڑی ہوتی گئیں کہ بچت تو بالکل منی سی لگنے لگی۔

میرے قدم ہر اُس جگہ اٹھتے تھے جہاں سے اچھا اور سستا سامانِ زندگی مل سکے۔ اسی لیے ایک بار فروری کے آخری دنوں میں بڑی بہن کے ساتھ رنگ محل چلی گئی۔ جاتی سردیوں میں دکان دار عموماً پچھلے سال کا مال سستا فروخت کردیتے ہیں۔ رنگ محل بھی پاکستان میں اپنی نوعیت کا شاید ایک ہی بازار ہوگا۔ بھول بھلیاں اور چھٹے ہوئے بازاروں کا مجموعہ۔ پہلی مرتبہ آنے والا انسان تو کہیں سے داخل ہو، اور لاہور کے کسی دوسرے ہی علاقے میں جا نکلے۔ بڑی بہن آتی رہتی تھیں اسی لیے انہیں راستوں کا علم تھا، پر میں تو گھبرا گئی۔ کپڑا توقع سے سستا اور اچھا مل گیا۔ بہت کچھ لیا اور اس بہت کچھ کو سنبھالنے میں مَیں اپنا پرس کسی دکان پر بھول گئی۔ وہ بدحواسی ہوئی کہ کیا بتاؤں۔ باجی خاصی تھک چکی تھیں، اُن سے کہا کہ آپ ایک جگہ سامان لے کر بیٹھ جائیں میں ڈھونڈنے جاتی ہوں۔ پرس تو کیا ملنا تھا، میں خود ہی گم ہوگئی۔ پرس کی تلاش میں کہیں سے کہیں نکل گئی۔ دکان داروں کی نگاہوں سے وحشت زدہ ہوکر میں رونے کو تھی کہ ایک بھلے مانس کی مدد سے باجی تک پہنچ گئی۔ ڈھائی گھنٹے بعد اُن تک پہنچی تھی تو وہ بھی پریشان صورت ہونق بنی بیٹھی تھیں۔ نہ سامان اٹھا کر میرے پیچھے آسکتی تھیں، نہ سامان چھوڑ کر۔

بہرحال تھکے ماندے وہاں سے نکلے تو جلد ہی چنگ چی رکشہ مل گیا۔ تین چار ہزار کا کھو جانا میرے لیے خاصا بڑا صدمہ تھا۔ یہ بات باجی بھی جانتی تھیں۔ وہ مجھے راستے بھر دلاسے دیتی رہیں اور میں سوچتی رہی کہ ہائے ان پیسوں سے میری زندگی کی مزید کتنی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری ہوسکتی تھیں، اب ان پیسوں کے بغیر زندگی کتنی مشکل ہوجائے گی۔ تب ہی چوبرجی کے مین روڈ سے گزرتے ہوئے زندگی انسانیت کی پست ترین صورت میرے سامنے لے آئی۔ میں وہ تصویر دیکھ کر کانپ اٹھی، میری سوچ منجمد ہو کر رہ گئی۔ یہ کیسی زندگی ہے جسے دیکھ کر زندگی بھی شرماتی ہے! بھلا خواہشات کی تکمیل کے بغیر زندگی کو کیسے جیا جا سکتا ہے! رش سے نکل کر چنگ چی آگے بڑھ گیا، پر میں حدِّ نگاہ تک اسے دیکھتی رہی جو چوبرجی سے گزرنے والی ٹرین کے پل کے نیچے بیٹھا تھا۔ کسی غیر مرئی نکتہ پر نگاہ جمائے۔

اتنی سردی میں اس کے ناتواں وجود پر جگہ جگہ سے پھٹی صرف ایک قمیص تھی۔ نہ جانے اس کی ویران آنکھیں خلا میں کیا ڈھونڈ رہی تھیں؟ کیا گزری تھی اس پر، کیا غم ٹوٹا تھا، دکھ کی کس منزل سے گزرا تھا کہ جس نے اُس کے زندہ وجود سے زندگی نکال لی تھی! میرا دکھ کہاں گیا، مجھے نہیں معلوم۔ اُس وقت بس میرے دل سے بے اختیار دُعا نکلی تھی: کاش اُن سیکڑوں لوگوں میں سے جو اُس کے قریب سے گزرتے چلے جارہے تھے، کوئی اس پر ایک گرم چادر ہی ڈال دے۔

حصہ