پانچ حروف پر مشتمل لفظ ’’پندار‘‘ اس انسانی رویّے کی نشان دہی کرتا ہے جس سے فرد میں اَنا، تکبر، نفرت اور تعصب کا زہریلا خامرہ تیار ہوتا ہے، جو اس کی ذات کو رشتوں کے درمیان تنہائی کا شکار کردیتا ہے۔ یہ آدمی کو ایک ایسے احساسِ برتری کی بیماری میں مبتلا کردیتا ہے جس کا سلسلۂ نسب عزازیل سے منسوب ہے۔ وہ عزازیل جس کو جنت میں فرشتوں کی سرداری ملی ہوئی تھی، جس کو رب العزت نے جنت کے خزانوں کی کنجیاں عطا کردی تھیں، جب وہ اپنی خود ساختہ تخلیقی برتری کے پندار میں مبتلا ہوکر ربِ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے آدم کو سجدہ کرنے سے انکاری ہوا تو مقرب سے معتوب ہوگیا، اور عزازیل سے ابلیس اور راندۂ درگاہ ہوا۔
پندار کا شجر انسان کے اندر موجود نفسِ امّارہ کے دلدلی کھیت میں نشوونما پاتاہے، اور جب یہ کھردرا شجر پروان چڑھ جاتا ہے تو اس میں انواع و اقسام کی عصبیت کے پھل لگتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا:
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
اس نفس میں خاندان، نسل، علاقہ، زبان، فرقہ واریت اور عصبیت کے پھل لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرد کو اپنی دولت، طاقت، منصب، حُسن و رنگت کے ساتھ ساتھ علمیت عابد و زاہد ہونے کے پندار میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس کے بعد دنیا کا ہر آدمی اُسے اپنے سامنے ہیچ نظر آتا ہے۔
یہ خاندان اور سرداری کی عصبیت ہی تھی کہ ابوجہل اور عتبہ جیسے سرداروں کو اسلام قبول کرنے سے روک کر جہنم کا ایندھن بنا ڈالا، حالانکہ وہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے برحق اور صادق ہونے کا دل میں اعتراف کرتے تھے۔ یہ بادشاہت اور طاقت کا پندار ہی تھا جس نے فرعون اور نمرود کو خدائی کا دعویٰ کرنے پر آمادہ کیا اور وہ راندۂ درگاہ ٹھیرے۔ قومِ عاد و ثمود اپنی طاقت اور ہنر مندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، جس کی وجہ سے انہوں نے ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کی تضحیک کی، اور اللہ کی اونٹنی کو ہلاک کرنے کی پاداش میں سخت ترین عذاب سے دوچار کردی گئیں۔ اب تک جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کو ہلاک کیا گیا، وہ سب کی سب اپنی قومی برتری ثابت کرنے اور ہوسِ ملک گیری کی وجہ سے ہوئیں۔
پہلی جنگِ عظیم ہو یا دوسری جنگِ عظیم… ہٹلر کی آریائی نسلی برتری کا خمار کروڑوں انسانوں کی موت کا سبب بنا۔ آج کا امریکی طاغوت جو 225سال پہلے کولمبس اور یورپی اقوام کے ذریعے کروڑوں مقامی ریڈ انڈینز کے قتلِ عام پر قائم ہوا، مسلسل اپنی سپرمیسی قائم رکھنے کے لیے شرق تا غرب جنگوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کیے ہوئے ہے۔
مسلم اُمہ کی جانب نظر دوڑائیں تو آپؐ کی رحلت کے بعد، اور خلیفۂ اوّل اور دوئم کے دنیا سے گزر جانے کے بعد جو کچھ بھی ہوا اُس کے اثرات آج بھی عرب دنیا اور مسلم سماج میں نمایاں ہیں۔ مسلمانوں میں نااتفاقی اور انتشار کا واحد سبب علاقائی، خاندانی، نسلی، لسانی، مسلکی اور فرقہ وارانہ عصبیت کا پندار ہے جس نے نفرت اور تشدد کے سوا کچھ نہیں دیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عربوں کی بغاوت جس کے پسِ پردہ لارنس آف عربیہ کی سازش تھی، اس لیے تھی کہ رسولؐ عربی، قرآن کریم عربی زبان میں، خانہ کعبہ مکہ میں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک غیر عرب ترک ہم پر حکمرانی کریں! اس بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس دور کا عجوبہ حجاج ریلوے لائن جو دمشق سے مدینہ منورہ تک بچھائی گئی تھی، برباد کردی گئی۔ خانہ کعبہ کے صحن میں باغیوں نے ترک سپاہیوں کو ذبح کردیا۔ سقوطِ غرناطہ عربوں اور بربروں کی آپسی لڑائی کے سبب ہوا۔ آج پوری دنیا میں ہر تیسرا آدمی مسلمان ہے مگر ذلت و رسوائی اس لیے مقدر ہے کہ:
نہ جانے کتنی ذات و مسلکوں، فرقوں گروہوں میں
منقسم، منتشر، نا ہنجار ہے آقا
علامہ اقبال نے تو اتحادِ ملت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
سقوطِ ڈھاکہ جو 1971ء میں ہوا، اس کی بنیاد لسانی استحصال تھا جس میں رنگ بھرنے کا کام ہمارے ازلی دشمن بھارت نے کیا۔ پاکستان جو کلمے کی بنیاد پر لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر وجود میں آیا، آج تک علاقائی، قبائلی، مسلکی، لسانی اور فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا ہے۔ یہاں کوئی پاکستانی نہیں، بلکہ ہر فرد اپنی شناخت اپنی علاقائی زبان کی بنیاد پر کراتا ہے۔ مسجد، مزار، اسکول، کالج، اسپتال تک تعصب کی آگ سے محفوظ نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اُس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ (حم السجدہ)
سورہ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہو اور تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔‘‘
آج اس میں اسلامی فکر و عمل نہ ہونے کی وجہ سے شیعہ سنی فسادات، دیوبندی اور بریلوی نفرت، طبقاتی سوچ، امیر و غریب کے درمیان احساسِ برتری اور کمتری کا رجحان، سید، پٹھان، انصاری، صدیقی کا بھید بھاؤ جو برہمن، راجپوت، شودر کی مجموعی ذہنیت ہے، اس نے مسلم معاشرے کو زہر آلود کردیا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بیٹیاں گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
حکمرانوں اور عوام کے درمیان اتنا زیادہ فرق ہے کہ جب ایک وزیر اپنے گھر سے نکلتا ہے تو عام آدمی کی آمدورفت کے لیے سڑک بند کر دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے پروٹوکول میں درجنوں گاڑیاں چلتی ہیں اور کسی کو اُس وقت تک گزرنے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک کہ صاحب بہادر راستے سے گزر نہ جائیں چاہے ایمبولینس میں کوئی تڑپتا ہوا مریض مر ہی کیوں نہ جائے، صدر اور وزیراعظم کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ سب عوام کے مقبول رہنما کہلاتے ہیں مگر عوام میں بے خوفی کے ساتھ گھل مل نہیں سکتے۔ یہ بہروپیے اپنے پندار میں بند رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد ان کی قبروں پر کوئی فاتحہ کرنے نہیں جاتا۔
کیا ملیے ایسے لوگوں سے جن کی فطرت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے اصلی صورت چھپی رہے
خود سے جو خود کو چھپائیں کیا ان کا ارمان کریں
کیا ان کے دامن سے لپٹیں کیا ان کی پہچان کریں
یہی حال معاشرے کے دیگر مشہور و معروف عناصر کا ہے، علما اور واعظین کا ہے، اُن کے قول و فعل میں تضاد ہے مگر یہ وضع قطع میں ایسے نظر آتے ہیں کہ دیکھو تو دیکھتے رہ جاؤ۔
ہندوستان میں انگریزوں کے آخری ایام سے لے کر اب تک ہزاروں ہندو مسلم فسادات میں مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کے باوجود ہمارے علمائے کرام اور رہنما اتحادِ امت کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوں کہ ان کے ذاتی، مسلکی اور سیاسی مفادات اور شخصی پندار آڑے آجاتے ہیں۔ لہٰذا ہندوتوا کے حامی حکمراں آسانی سے اس انتشار اور اختلافِ امت کی آڑ میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنا ایجنڈا آسانی سے مکمل کرتے جارہے ہیں چاہے وہ تین طلاق کا مسئلہ ہو، مسلم مخالف شہریت کے قوانین ہوں، مساجد، خانقاہوں یا مزاروں کی مسماری ہو، یکساں سول کوڈ کا قانون ہو یا مجوزہ وقف بورڈ کے آئین میں ترمیم… یہ سب انا پرستی اور پندار میں مبتلا رہنے اور اختلافات کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کا مسلمان تو اتنے گروہوں میں تقسیم اور ایک دوسرے کے خلاف متشدد ہوچکا ہے کہ حکمراں طبقہ چین سے حکمرانی کررہا ہے، کیوں کہ اُس کی حکمرانی کے خلاف کوئی مشترکہ آواز ہی نہیں، اور منبر و محراب سے لے کر سیاسی اسٹیج تک سب اپنی اپنی بانسری بجانے میں مگن ہیں۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
(علامہ اقبال)