10 فروری یوم وفات
فروری کا مہینہ جب بھی اپنی خنک ہوائوں کے ساتھ دستک دیتا ہے، دل کے نہاں خانے میں ایک چراغ سا جل اٹھتا ہے… یادوں کا چراغ، جو ایک ایسی شخصیت کی یاد میں روشن ہوتا ہے جس نے اردو ادب کو اپنی نثر و نظم کی خوشبو سے مہکایا، اور بالخصوص آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی نوجوانوں میں بہت پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔
10 فروری 2023ء وہ دن تھا جب وقت نے ایک لمحے میں ایک شخص کی سانسیں روک دیں۔ مگر کیا واقعی ایسے لوگ رخصت ہوجاتے ہیں؟ نہیں! وہ تو اپنے لفظوں، اپنے خیالات اور اپنے نرم لہجے کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ امجد اسلام امجد کی مسکراہٹ میں وہ دھیما پن تھا جو کسی جھیل کے ٹھیرے ہوئے پانی کی مانند دل کو سکون دیتا۔ ان کی شائستگی میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو روح تک رسائی پاتی۔ جب بھی ملے، محبت کے رنگ بکھیرتے ملے۔ ان کی اپنائیت ایسی تھی جیسے برسوں کی شناسائی ہو، جیسے الفاظ اور دلوں کے درمیان کوئی فاصلہ کبھی تھا ہی نہیں۔
ان کے کلام میں زندگی کی تلخیوں اور جدوجہد کی ایک منفرد تصویر ابھرتی ہے۔ استعاروں اور علامتوں کے ذریعے وہ جو کہہ جاتے، وہ محض اشعار نہیں ہوتے تھے بلکہ زندگی کے کچے پکے رنگوں کو لفظوں میں سموئی ہوئی تصویریں ہوتیں۔ ان کی نظموں میں دکھ بھی تھا، امید بھی۔ درد بھی تھا اور اس درد کے ساتھ جینے کا حوصلہ بھی۔
امجد صاحب کی، آخری سفر سے پہلے کی ساعتیں بھی خاص تھیں۔ رحلت سے چند روز قبل عمرے کی سعادت حاصل کرنا گویا ان کے روحانی سفر کی تکمیل تھی۔ ایک ایسے انسان کے لیے جس کے الفاظ نے دنیا بھر کے دلوں میں روشنی کی شمعیں جلائیں، آخری ایام میں رب کے گھر کی حاضری، ان کی زندگی کے اس حسین باب کا خوبصورت اختتام تھا۔
جب وہ چلے گئے تو صرف پاکستان نہیں، بلکہ جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں دلوں نے اداسی کی ایک گہری دھند میں ان کی یاد کو گنگنایا۔ ان کی مقبولیت صرف ان کے لکھے گئے لفظوں کی وجہ سے نہ تھی، بلکہ اس خوبصورت انسان کی وجہ سے بھی تھی جو اِن لفظوں کے پیچھے چھپا تھا۔ ایک ایسا دل جو ہر انسان کے لیے دھڑکتا تھا، ایک ایسا ذہن جو محبت اور خلوص کے رنگوں سے بھرا ہوا تھا۔
امجد اسلام امجد نظموں میں سانس لیتے ہیں، غزلوں میں مسکراتے ہیں، ڈراموں کی گہرائی میں اپنی بصیرت بکھیرتے ہیں۔ زندگی شاید اسی کا نام ہے کہ انسان چلا بھی جائے تو مٹتا نہیں۔ اور امجد اسلام امجد مٹنے والوں میں سے نہیں۔ وہ ہمارے دلوں کے اوراق پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے، لفظوں کے چراغ بن کر۔
امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، والد کا نام محمد اسلام تھا، خاندانی کام دست کاری اور دکان داری تھا۔ لیکن آپ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا بہت شوق رکھتے تھے اور مرزا غالب، میر تقی میر اور علامہ اقبال جیسے نامور شاعروں کی تخلیقات سے بہت متاثر تھے۔ وہ ان شاعروں کے کام اور ان کی شاعری میں انسانی جذبات کے اظہار کی اہمیت و صلاحیت کو بچپن سے محسوس کرتے تھے۔
مگر ان کے تخلیقی سفر کی سرحدیں صرف اردو ادب تک محدود نہ رہیں۔ انہوں نے شیکسپیئر کے المیے میں انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو جانچا، ورڈز ورتھ کی شاعری میں فطرت کی سادگی اور حسن کو محسوس کیا، اور ٹی ایس ایلیٹ کے اشعار میں جدید دور کی بے چینی اور فکری انتشار کو سمجھا۔
ان کے والد محمد اسلام ایک سادہ مزاج اور محنت کش انسان تھے، جن کا خاندانی پیشہ دست کاری اور دکان داری تھا۔ یہ ایک ایسا ماحول تھا جہاں کاروبار کی گہماگہمی اور محنت کی خوشبو بسی ہوئی تھی، لیکن امجد اسلام امجد کے دل میں کسی اور ہی دنیا کی تڑپ تھی… لفظوں کی دنیا، خیالوں کی بستی۔ بچپن کے دنوں میں جب اکثر بچے کھیل کود میں مگن ہوتے ہیں، امجد کے ہاتھ میں کتاب ہوا کرتی تھی، اور دل میں ایک بے نام سی جستجو۔
امجد اسلام امجد کے ادبی سفر میں پڑوسی آغا بیدار بخت کے کتب خانے کا اہم کردار رہا ہے۔ نویں جماعت میں تھے تو اسکول کے رسالے کے مدیر بن گئے تھے، اور اُسی زمانے میں شعر کہنا شروع کردیے تھے۔ کرکٹ کا بھی شوق ہوا۔ اپنی درس گاہ اسلامیہ کالج کی کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوئے جس نے گورنمنٹ کالج کی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا۔ اُس زمانے میں قومی ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے چھ سات کا تعلق گورنمنٹ کالج سے ہوا کرتا تھا۔ کھیل سے دلچسپی تھی اور کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ محقق و مؤرخ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے مطابق ’’کرکٹ کا سفر آگے بڑھا تو اسلامیہ کالج 12 سال بعد چیمپئن بنا جس میں امجد اسلام امجد کی کارکردگی بہت عمدہ تھی، مگر ان کی جگہ قومی ٹیم میں ایک بیوروکریٹ کے بیٹے کو منتخب کرلیا گیا اور امجد اسلام امجد کو ریزرو کھلاڑیوں میں رکھا گیا۔ یہ امجد اسلام امجد کی زندگی کا بہت بڑا شاک تھا۔ انھوں نے غصے میں اپنا بلا توڑ دیا۔ لیکن کرکٹ ٹیم میں منتخب نہ ہونا ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوا۔ وہ خود کہتے تھے کہ اگر میں کرکٹ کھیلتا رہتا تو 1965-66ء میں شروع کرکے 1971-72ء تک فارغ ہوچکا ہوتا‘‘۔ اس طرح ادبی دنیا میں ان کی جو شناخت بنی وہ اس سے محروم رہتے۔‘‘
ابتدائی تعلیم مقامی کالج سے حاصل کی، 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری لی۔ آپ ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر رہے۔ 23 مارچ 1975ء آپ کے رشتۂ ازدواج میں بندھنے کی تاریخ ہے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک بیٹی معروف مزاح گو شاعر انور مسعود کی بہو ہیں۔
آپ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے، 1975ء سے 1979ء تک پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر منسلک رہے۔ اس کے علاوہ آپ چلڈرن لائبریری کمپلیکس اور اردو سائنس بورڈ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ آپ نے مختلف ادبی جرائد کے لیے لکھا اور نظموں کا پہلا مجموعہ 1967ء میں شائع ہوا۔ آپ کے مشہور ڈراموں میں وارث، دن اور فشار شامل ہیں۔ ان کے ڈرامے ’’وارث‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس وقت اسے دیکھنے کے لیے ملک کی سڑکیں سنسان ہوجایا کرتی تھیں۔
امجد اسلام امجد کا شعری مجموعہ ’’برزخ‘‘ اورجدید عربی نظموں کے تراجم ’’عکس‘‘ کے نام سے شائع ہوئے، اس کے علاوہ افریقی شعراکی نظموں کا ترجمہ ’’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ نظم و نثر میں آپ کی 40 سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کے کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوتے تھے۔ امجد اسلام امجد کی تخلیقات کا انگریزی اور جرمن سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انہیں متعدد ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں صدارتی تمغائِ حسنِ کارکردگی اورستارہ امتیازکے علاوہ پانچ مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، 16گریجویٹ ایوارڈ شامل ہیں۔ انہیں 1991ء میں اردو ادب میں ان کی خدمات پر یونیسکو انعام برائے ادب سے بھی نوازا گیا۔ امجد اسلام امجد کی تخلیقات شاندار ہیں اور ادب اور اردو زبان سے ان کی وابستگی بے مثال رہی ہے۔
ادبی و ثقافتی اداروں اور جامعات میں بھی خاصے سرگرم رہے۔ جہاں وہ ہمارے دور کے مشہور شاعروں میں سے ایک رہے، وہیں ان کی سماجی کاموں میں دلچسپی اور حصہ لینا بھی اہم ہے۔ وہ الخدمت فائونڈیشن کے ساتھ بھی خاصے متحرک اور نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے۔ بہترین خیالات و افکار رکھنے والے، بہترین شاعری کرنے والے باکمال شاعر امجد اسلام امجد کی وفات معاصر اردو ادب کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ آپ کو صرف ادبی دنیا میں ہی نہیں بلکہ سماج کے بڑے طبقے میں بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے جانے سے یقیناً ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، اور یہ خلا کئی سمتوں میں محسوس کیا جائے گا۔ آپ کے اشعار پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ عصری حقائق اور سچائیوں کو بھی شعری پیرائے میں بیان کرنے پر مکمل قدرت رکھتے تھے اور کمال کے اشعار کہتے تھے۔ آپ کے چند مشہوراشعار:
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
…
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور
…
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
…
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے
ہجر کی رات کا کنارا نہیں
…
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
…
سائے ڈھلنے، چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
…
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت، سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
…
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے