بچوں کی عزت نفس

64

’’خدا جانے میں نے ایسی کون سی خطا کی تھی جو تم جیسی نالائق اولاد سے مجھے نوازا‘‘۔

’’میری ساری اولاد نالائق نکل گئی‘‘۔

’’مجھ سے دوبارہ اس طرح بات مت کرنا، ورنہ تمھاری زبان کھینچ لوں گا‘‘۔

’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ جب تک معاف نہ کردوں، تم جہنم میں رہو گے‘‘۔

یہ چند ایسے جملے ہیں، جو اکثر ہمارے آس پاس بدسلوکی کے شکار اور نظرانداز کیے جانے والے بچے اپنے والدین یا بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں۔ زبانی بدسلوکی یا جسمانی تشدد اکثر اوقات نادانستہ طور پر سرزد ہوجاتا ہے اور ہمیں اس کے خطرناک اثرات کا علم تک نہیں ہوتا۔

بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو نظرانداز کرنے کے دُوررس اثرات ہوتے ہیں۔ ایسی بدسلوکی کا شکار شخص جوانی بلکہ بڑھاپے تک اس کے اثر سے نہیں نکلتا، اور نتیجے کے طور پر زندگی بھر دوسرے انسانوں کو جلاتا، گھلاتا اور تباہ کرتا رہتا ہے۔ ایسا رویہ اگر مذہبی گھرانے یا افراد کے ہاں پایا جائے تو متاثرہ بچہ، خود اسلام سے بے زار ہوسکتا ہے،اور بہت سی صورتوں میں ایسا دیکھا گیا ہے۔

اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں والدین یا خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی، بدتمیزی اور تشدد کو جائز بلکہ ان کی تربیت کے لیے ایک مناسب عمل تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا روگ ہے جو مستقل ہمارے گھر اور خاندان کو تباہ کررہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔

والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں کی جانب سے بھی کئی مرتبہ اس قسم کا رویہ روا رکھا جاتا ہے، مگر خاندان کی عزت کے نام پر ہم خاموش رہتے ہیں اور اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔ یقین جانیے اس طرح کے ظلم اور اذیت کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، جو بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے دوران منفی طور پر متاثر کرسکتے ہیں، جس کے اثرات اس کی ذہنی یا جسمانی صحت پر بھی پڑسکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں تو خیر اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا، لیکن مغرب میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے چند طویل مدتی مطالعات کیے گئے ہیں، جن میں سے چند ایک کے نتائج کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے: دماغی نشوونما میں خرابی، زبان میں بگاڑ اور تعلیمی معذوری کا باعث بننا، خراب جسمانی صحت جیسے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں کا شکار ہونا۔ نفسیاتی مرض، کمزور اعصاب اور سماجی مشکلات کا پیدا ہونا۔ ڈپریشن یا مسلسل مایوسی کا شکار ہونا، بے چین رہنا، کسی لت میں پڑ جانا وغیرہ۔ اسی طرح جنسی بے راہ روی، منشیات، شراب نوشی اور دوسروں کے ساتھ بدسلوکی جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے بدسلوکی کے بعد ان بچوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ جو رشتہ ہوتا ہے وہ بھی کمزور ہوتا ہے، یا ٹوٹ جاتا ہے، اور بعض صورتوں میں تو اعتماد بحال کرنا ایک ناممکن کام بن جاتا ہے۔

ہارورڈ یونی ورسٹی کے مجلّے The Harvard Gazettte (اپریل 2021ء) کے مطابق سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر کیٹی مک لافلن (Katie McLaughln)اور جان لوئب (John Loeb) نے اپنی رپورٹ How Spanking may Affect Brain Development in Children? میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنے اور جسمانی تشدد سے بچوں کی دماغی نشوونما کو عین اسی طرح نقصان ہوتا ہے جس طرح شدید تشدد میں ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں دماغ کے وہ حصے بھی متاثر ہوتے ہیں جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ مطالعہ مختصر ہے، لیکن اس میں تین سے گیارہ برس کے 147 ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا، جو اسکول یا گھر میں مار کا شکار ہورہے تھے۔ ایسے بچوں کے ایک دماغی گوشے پری فرنٹل کارٹیکس (PFC) کی سرگرمی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر تشدد سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کی پٹائی دائمی ڈپریشن، اداسی اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔

اسلام میں والدین کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ والدین کی عزت و تکریم کا نہ صرف حکم دیا گیا ہے بلکہ انھیں اُف تک نہ کرنے کو کہا گیا ہے۔ تاہم، اس احترام کے نام پر خود والدین کو بچوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ جہاں قرآن میں والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا گیا، وہیں انصاف اور عدل کو بھی قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چاہے کسی کو اپنے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ فرمایا:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زَد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (النساء 135:4)

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو، اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو‘‘(صحیح بخاری)۔ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: ’’تب مجھے گواہ مت بناؤ، میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا‘‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

یہاں پر ہم اپنے معاشرے سے کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں دیکھیں گے کہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا گیا تو ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ان براہِ راست مکالموں کی رپورٹنگ میں احتیاط کی خاطر شناخت ظاہر نہیں کررہے:

”میرے والد نشے کے عادی ہیں۔ انھوں نے ماضی میں اپنے والدین کے رویّے کی وجہ سے بڑے ہوکر لوگوں کو دھوکا دیا، چوری کی اور ہر وہ غلط کام کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ وہ مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم انھیں بڑی رقم دیں، خاص طور پر جب ہمیں اپنی یونی ورسٹی سے وظیفہ ملتا ہے۔ ایک بار یوں ہوا کہ میں نے اپنی والدہ کو اُس رقم کے بارے میں بتایا جو میں نے انھیں دی تھی۔ اس پر گھر میں قیامت برپا ہوگئی، غصے میں انھوں نے اماں کو طلاق دے دی اور آج بھی میرے والد مجھ پر ان کی طلاق کا الزام لگاتے ہیں۔

جب مجھے ان کے نشے کی لت کے بارے میں پتا چلا تو میں نے انھیں سنبھالنے اور علاج کی کوشش کی۔ مگر اُن کا واحد مطالبہ پیسے ہیں، تاکہ وہ مرضی سے نشہ خریدیں۔ چونکہ یہ کام مجھ سے اُن کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ’’میں تم سے خوش نہیں ہوں۔ اس لیے تم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکو گے‘‘۔

کئی مرتبہ مجھ پر شدید نفسیاتی حملہ ہوا۔ ایک مرتبہ تو مجھے یقین ہوگیا کہ میرے والد نے جو کہا تھا وہ سچ تھا۔ میں نے اُس وقت یہاں تک سوچا کہ خودکشی کرلوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں پر بوجھ نہ بنوں۔ اب بھی صرف ایک ہی بار ان کی آواز سنتا ہوں جب انھیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُن کی اس قابلِ رحم اور دوسروں کے نزدیک شاید قابلِ نفرت حالت کے پیچھے، میرے دادا کے ہاتھوں اُن پر بچپن کا تشدد اور تذلیل ہے، جس نے اُن کی شخصیت مسخ کرکے رکھ دی۔“

ایک اور نوجوان کا کہنا تھاکہ ’’ماں باپ سے اولاد کے تعلق کے بارے میں کچھ بولنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پورا وجود والدین کے لیے سپاس گزاری کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دل اپنے بچپن کی نسبت سے، اپنے باپ کی طرف سے میلے اور دُکھی رہتے ہیں۔ اس کی ایک ہزار وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اگر میں اپنی ماں کے ساتھ کسی کو بدتمیزی کرتے ہوئے مسلسل دیکھوں گا، اپنے یا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گالم گلوچ کرتے دیکھوں گا تو میرا دل اُس شخص کے لیے کیسے نرم اور گداز ہوسکتا ہے؟ بھلے رشتے میں وہ میرا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ کیا کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں کی سسکیاں، اس کی تذلیل، چہرے پر طمانچے سے پڑے نیل یا پھر کھانے میں معمولی نمک کی کمی پر پلیٹ اٹھا کر پھینک دینے اور گالم گلوچ کی اذیت کو بھول جائے؟ یا معمولی معمولی بات پر بہن بھائیوں کو تھپڑ جڑتے اور گالیاں اور طعنے سنتے دیکھے!“

ہم سب کے حافظے میں ایسے واقعات یا اس سے ملتی جلتی وارداتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جس وقت ہماری ماں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہوتی ہے، اُس وقت ہم اس لائق تو نہیں ہوتے کہ باپ کا ہاتھ پکڑ لیں، لیکن دل میں گانٹھ تو پڑ ہی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کبھی ہم ابا جان پر جاں نثار ہونے کا مظاہرہ کریں تو اس حرکت کو کیا کہا جائے گا؟ منافقت؟ کیونکہ ہمارے دل میں والد کے لیے فطری احترام کا جذبہ ختم ہوچکا ہوتا ہے، اور تشدد نے اپنا زہر ہمارے وجود میں اُنڈیل دیا ہوتا ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی ناصحین اس پہلو پر تقریباً نہ ہونے کے برابر گفتگو کرتے ہیں کہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟ اب تک تو یہی بتانے پر زور ہے کہ سارے حقوق و فضائل باپ کے ہیں، ساری تعلیمات کا زور اولاد کو یہ باور کرانے پر ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے؟ مگر باپ ہونے کے ناتے اولاد کے لیے اس کی ذمہ داریوں کی یاددہانی کراتے رہنے کو شاید فضول جانتے ہیں!

اس طرح کی ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار محض بچے یا اولاد ہے، یا مساوی طور پر وہ والدین ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو مستقل اذیت دے کر ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیرشعوری طور پر اپنی اولاد کی نظروں میں ایک وِلن اور ناپسندیدہ انسان تو نہیں بن رہے ہیں؟

اس بابت جمعے کے خطبات اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم والدین کے حقوق کے بارے میں تو ہر جگہ سنتے ہیں، لیکن بچوں کے حقوق اور عزّتِ نفس کے حوالے سے عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں اس رویّے کو نہ صرف ختم کرنا ہوگا بلکہ ایسے والدین اور سرپرستوں کو عظیم نقصان سے خبردار کرنا ہوگا۔ نیز نبی اکرمؐ جس شفقت سے بچوں سے پیش آتے تھے اس اسوئہ حسنہ کو بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام نے بہتر معاشرے کے قیام پر زور دیا ہے اور یہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب سب کے حقوق کا تحفظ ہو۔یہ بات ہمیں بچپن ہی سے بتائی جاتی ہے کہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے ۔بدقسمتی سے بڑوں کے ادب کا خیال تو رہتا ہے مگر بچے پیار سے محروم رہ جاتے ہیں !

حصہ