بیٹے پانچ قسموں کے ہوتے ہیں:
-1 پہلے وہ جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا حکم دیں تو کہنا نہیں مانتے، یہ نافرمان ہیں۔
-2 دوسرے وہ ہیں جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بے دلی اور کراہت کے ساتھ، یہ کسی قسم کے اجر سے محروم رہتے ہیں۔
-3 تیسری قسم کے بیٹے وہ ہیں جنہیں والدین کوئی کام کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بڑبڑاتے ہوئے، سنا سنا کر، احسان جتلا کر، بکواس بازی کر کرکے۔ یہ کام کرکے بھی وہ گھاٹے میں ہیں اور گناہ کما رہے ہیں۔
-4 چوتھی قسم کے وہ بیٹے ہیں جنہیں والدین کوئی کام بتا دیں تو خوش دلی سے کرتے ہیں۔ یہ اجر کماتے ہیں اور ایسے بیٹے بہت کم ہوتے ہیں۔
-5 پانچویں قسم کے وہ بیٹے ہیں جو والدین کی ضرورتوں کے کام اُن کے کہنے سے پہلے کردیتے ہیں۔ یہ خوش بخت بیٹوں کی نادر قسم ہے۔
آخری دو قسم کے بیٹے: ان کی عمر میں برکت، رزق میں وسعت، ان کے معاملات کی آسانی اور ان کے سینوں میں پڑی راحت اور وسعت کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے، یہ تو بس اللہ ’’اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کرلیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے۔‘‘
(بھاگ کر اپنی ماں کے سر پر بوسہ دینے سے پہلے) اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیے کہ والدین کے ساتھ ’’بِر‘‘ یا حُسن سلوک یا راست بازی ہوتی کیا ہے؟
یہ حُسن سلوک ماں یا باپ کے سر پر ایک بوسہ لے لینے کا نام نہیں ہے، نہ ہی ان کے ہاتھوں پر، حتیٰ کہ اُن کے پاؤں پر بوسہ لینے کا نام ہے۔ کہیں یہ کرکے تُو اس گمان میں نہ پڑ جائے کہ تُو نے ان کی رضا کو پا لیا ہے۔
حُسنِ سلوک یہ ہے کہ تُو اُن کے دل میں آئی ہوئی خواہش کو محسوس کرے اور پھر اُن کے حکم کا انتظار کیے بغیر اس خواہش کو پورا کردے۔
حُسنِ سلوک یہ ہے کہ تُو یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہے کہ انہیں کون سی بات خوشی دیتی ہے، اور پھر اُس کام کو جلدی سے کر ڈالے۔ اور تُو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کس بات سے دکھ پہنچتا ہے اور پھر اس کوشش میں رہے کہ وہ تجھ سے ایسی کوئی چیز کبھی بھی نہ دیکھ پائیں۔
اُن سے حُسنِ سلوک یہ ہے کہ تجھے ان کا احساس ہو، تُو ان کے لیے بات چیت کا وقت نکالتا ہو، انہیں کسی چیز کے کھانے پینے کی طلب ہو تو حاضر کردیتا ہو بھلے یہ چائے کا ایک کپ ہی کیوں نہ ہو۔
حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تُو ان کے آرام اور راحت کا خیال رکھے، بھلے اس کے لیے اپنی راحت ہی کیوں نہ چھوڑنی پڑے۔ اگر دوستوں میں تیری شب بیداری انہیں شاق گزرتی ہے تو تیرا جلدی سوجانا بھی ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔
حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ ان کی خاطر اپنی دعوتیں، ضیافتیں چھوڑ دے۔ اگر اس سے تیرا اُن کے ساتھ میل جول متاثر ہوتا ہے تو ایک مناسب ریسٹورنٹ میں ان کے ساتھ کھانا، حج و عمرہ میں ان کی راحت کے پیش نظر اچھے ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست، حتیٰ کہ کہیں چھوٹی موٹی تفریح اور پکنک جو تیرے والدین کے دل کو سرور دے اور وہ اپنی اس عمر میں بھی خوشی کا احساس پائیں۔
حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تیرے والدین تیرے مال سے مستفید ہورہے ہوں بھلے وہ خود کیوں نا مال دار ہوں، اور تیرا یہ جانے بغیر کہ اُن کے پاس اب کتنے پیسے ہیں اور انہیں ضرورت ہے بھی یا کہ نہیں، تُو ان پر خرچ کرتا رہے۔
حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تُو ان کی حتی المقدور راحت تلاش کرتا رہے اور انہوں نے تیری ولادت سے اب تک جو کچھ خدمت کردی ہے اس کو کافی سمجھے اور اب ان کے احسانات کے بدلے میں کچھ نہ کچھ کرتا رہے۔
حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تُو ان کے لبوں پر کسی طرح ہنسی لاتا رہے، بھلے تُو اپنی نظروں میں کیوں نا مسخرا ہی لگ رہا ہو۔
آخری بات: والدین سے حُسنِ سلوک تیرے اور تیرے بھائیوں بہنوں کے درمیان ’’باری بندی‘‘ کا نام نہیں۔ یہ تو ایک دوڑ کا نام ہے جو جنت کے دروازوں کی طرف جاری ہے، اور پتا نہیں کون پہلے پہنچ جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھ کہ جنت کو بہت سے راستے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے تیرے والدین سے ہوکر جاتے ہیں۔