جاڑے کی سرد رات کا آخری پہر، گھڑیال کی ٹک ٹک اور دُور سے گلی کے آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں… طاہرہ کو بار بار اپنی شیطانی سوچوں میں رکاوٹ محسوس ہورہی تھی۔ وہ چار جوان بیٹیوں کی ماں تھی۔ وہ بیٹیاں جو کہ اس کی تربیت کے زیر اثر پنج وقتہ نمازی، روزوں کی پابند اور شرعی پردہ بھی کرتی تھیں… مگر شومیِ قسمت کہ اچھی شکل صورت اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اب تک کسی ایک بیٹی کا رشتہ بھی طے نہیں ہوسکا تھا۔
جب کہ اوپر کی منزل پر رہنے والی اس کی جیٹھانی کی تینوں بیٹیوں کے رشتے بہت مناسب وقت پر ہوگئے تھے اور وہ اپنے گھروں میں خوش باش تھیں۔ طاہرہ کو یہی اچنبھا ہوتا کہ وہ تو نہ عبادات میں اتنی پکی تھیں اور نہ ہی پردے میں… بس ستر پوش لباس پہنتی اور حجاب کرتی تھیں۔
طاہرہ اپنی بچیوں کے رشتوں کے لیے بہت پریشان تھی۔ بڑی بیٹی تو تیس سے اوپر کی ہوگئی تھی۔ اس کی سہیلی نے اسے کسی عورت سے ملوایا جو جادو کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرتی تھی۔
طاہرہ اس سے کچھ تعویذ لائی تھی جو کہ اسے اپنی جیٹھانی کے گھر میں چھپانے تھے۔ بس اس بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ وہ خود بھی نماز کے لیے اٹھی اور بیٹیوں کو بھی آواز لگائی۔
نماز کے بعد سوئی تو رات کی تھکن کے باعث دیر تک سوتی رہ گئی۔ بارہ بجے بڑی بیٹی نے اٹھایا ’’امی! خالہ کا فون آیا ہے، وہ سارے دن کے لیے آرہی ہیں۔‘‘
’’اچھا! آنا تھا تو کل بتا دیتی۔ کھانا وغیرہ بنانے میں آسانی ہوجاتی۔‘‘ طاہرہ نے ناگواری ظاہر کی۔ ابھی کھانا چڑھایا ہی تھا کہ عاقلہ پہنچ بھی گئی۔
دونوں بہنوں کی ملاقات کم کم ہی ہوتی تھی۔ عاقلہ بھرے سسرال میں رہتی تھی، اس لیے وہ بہن کے گھر آنے کے لیے مشکل سے ہی وقت نکال پاتی تھی۔ طاہرہ تو وہاں جاتی ہی نہ تھی کہ وہاں اتنے لوگوں کی موجودگی میں اپنی کوئی بات چیت تو ہو ہی نہ پاتی تھی۔
کھانے کے بعد دونوں بہنیں آرام سے لیٹ کر باتیں کرنے لگیں۔
’’ارے عاقلہ! تمہاری دیورانی کے گھر تو ہر سال بچے کی ولادت ہوتی ہے… میرا خیال ہے کہ آدھے درجن تو ہوگئے ہوں گے، اور ایک تم ہو، شادی کو آٹھ سال ہونے کو آئے مگر تم ایک بچے کو ترس رہی ہو۔‘‘
طاہرہ نے بہن کو اپنی دوست کے بارے میں بتایا کہ کیسے وہ اسے پیرنی صاحبہ کے پاس لے گئی تھی۔ بہن کو بھی اسی پیرنی سے ملوانے کی پیش کش کی۔
عاقلہ بہن کی پوری بات سن کر بھونچکا رہ گئی۔ بہت دیر تک تو حیرانی سے بہن کو تکتی رہی، پھر گویا ہوئی ’’باجی! میں حیران ہوں کہ آپ کس ڈگر پر چل پڑی ہیں! ہمارے ماں باپ نے تو ہمیں ایسی تربیت نہیں دی تھی۔ اچھی بری تقدیر پر ایمان تو ہمارے عقائد میں سے ہے، اور ایسی باتیں تو حیا داری کے خلاف ہیں۔‘‘
حیاداری کا سن کر طاہرہ فوراً بولی ’’جتنی حیا میری بیٹیوں میں ہے، وہ تو آج کل کی پود میں ناپید ہے۔ اتنی شرم وحیا والی باپردہ بچیاں ہیں، کبھی کسی مرد کے سامنے نہیں آئیں۔‘‘
’’ارے باجی! حیا صرف شرم اور پردے تک تو محدود نہیں، بے شرمی کے ہر کام سے بچنا حیا کا تقاضا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر تم میں حیا نہ ہو تو تم جو چاہو کرتے پھرو۔
حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔ کیا تمہارا ایمان یہ گوارا کرے گا کہ تم اپنے فائدے کے لیے کسی اور کا نقصان کرو؟ اور جادو کرنا تو کبیرہ گناہ ہے۔‘‘
بہن کی باتیں طاہرہ کے دل کو لگیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ دل ہی دل میں اس نے اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا اور اس دوست کی صحبت سے بچنے کا تہیہ کرلیا۔ عاقلہ کو بہن کے چہرے کے بدلتے رنگوں سے اس کے دل کی کیفیت کا اندازہ ہوا تو اس نے بھی شکر ادا کیا کہ دیر ہونے سے پہلے وہ رب کی طرف پلٹ آئی تھی۔