ٹرمپ کا غزہ فارمولااور سوشل میڈیا

86

غزہ فارمولا:
موجودہ امریکی صدر کو عالمی توجہ لینا بخوبی آتا ہے۔ 2016 والا پہلا دور صدارت اُٹھا کر دیکھ لیں یا اب 2025والا۔پہلا مہینہ ہے28دن ہوئے ہیں حلف اُٹھائے ہوئے اور مجال ہے جوکوئی دِن ایسا ہو جب ڈانلڈ ٹرمپ کا بیانیہ عالمی توجہ نہ لے پایا ہو۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ۔ڈانلڈ ٹرمپ کا تو اپنا سوشل میڈیا ہے پھر ایلون مسک بھی اسکے ساتھ ہی کھڑا ہے۔سب سے پہلے غزہ کے معاملے میں دیکھ لیں۔ مقبوضہ فلسطین کے یہودی وزیر اعظم نیتن یاہوکاغزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد پہلا امریکی دورہ ہوا ۔ صدر ڈانلڈ ٹرمپ سے اہم ملاقات ہوئی ، آگے کے لائحہ عمل پر سب کی نظر تھی ۔ ایسے میں ڈانلڈ ٹرمپ نے ایک پالیسی بیان کے ساتھ دوبارہ عالمی توجہ لے لی۔ وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج بھی ہوا۔یہ ٹھیک ہے کہ صدر نے اس سے قبل ہی ایسے اشارے دے دیئے تھے اور اب اُس کو دہرایا ہے۔ڈانلڈ ٹرمپ کے مطابق تباہ حال غزہ کے مسلمانوں کوپہلے غزہ سے باہر نکالاجائیگا تاکہ ملبہ ہٹا کر وہاں تعمیراتی کام کیا جا سکے۔ اِن کا کہنا تھا کہ ’’ہم غزہ میں عالمی معیار کا کام کریں۔ جس سے لوگ حیران ہو جائیں اور اس دوران اہل غزہ کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے اور غزہ کو ایسی جگہ بنا دیا جائے جہاں دوسروں کی طرح فلسطینی بھی رہ سکیں۔‘‘تاہم صدر نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی ہیں کہ امریکہ کس اختیار کے تحت غزہ کی سرزمین کو اپنے کنٹرول میں لے گا اور اسے تعمیراتی یا بحالی کے عمل سے گزار ے گا۔اس کی وضاحت اگلے دن امریکی صدر کے ترجمان کرتے نظر آئے کہ اس کا مطلب یوں نہیں تھا یوں تھا ۔یہ نہیں تھا وہ تھا۔ مطلب پوری دُنیا نے ٹرمپ کے صاف الفاظ کے غلط مطلب لیے اصل مطلب ’’یہ ‘‘ہے جو ہم بتا رہے ہیں۔

یہ بات عملی طور پر تو ٹھیک ہے کہ تعمیرات کے لیے پہلے ملبہ ہٹانا ضروری ہے اور یہ کوئی عام سا کام نہیں ہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ کے مطابق مقامی مسلمانوں کو قریب کے ( مصر، اردن و دیگر) ممالک میں ٹھہرایاجائیگا ۔ یہ ٹھہرانا بھی خصوصی امریکی ایما پر ہی ہوگا کوئی مسلمان ملک خود سے ’’بانہیں نہیں پھیلارہا‘‘۔ اِس اعلان میں چاہے جتنی عملیت پسندی پر مبنی خیر خواہی پوشیدہ ہو ، ظاہری طور پر یہ اعلان اہل غزہ کے لیے زمین چھوڑنے کے مترادف ہے۔’’اَنا دَمّی فلسطینی‘‘ ( یعنی: میں اپنے لہو کے آخری قطرے تک فلسطینی زمین کے ساتھ ہوں) کا نعرہ لگانے والوں کے لیے یہ بات تصور میں ہی نہیں۔

یہ تو ہم نے کراچی میں بھی دیکھا کہ 1990 کی دہائی میں جب کئی علاقوں میں حالات خراب ہوئے تو لوگ وہاں سے نقل مکانی کر گئے ۔ پھر اُن علاقوں میں وہ مکانات کہیں اور قبضوں میں چلے گئے ۔ 2013 کے بعد جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو سب بدل چُکا تھا، لوگوں کو اپنے مکان یا اپنی زمین پر واپسی میں کئی قسم کے مسائل ہوئے ۔ یہ تو ایک شہر میں رہنے والوں کا ہم نے دیکھا مگر غزہ والوں کا صبر، عزیمت اعلیٰ ترین ہے۔ اُنہوں نے شدید بمباری میں ، سخت موسم میں ، سخت بھوک پیاس، علاج، بجلی، پانی ہر تکلیف کو برداشت کیاہے۔ وہ کسی انعامی لالچ کے باوجود زمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اب بھلا یہ کون سی تعمیرات کی تھپکی ہے کہ وہ مان جائیں۔ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کی ایسی کوئی قبضے کی بد نیتی واقعی میں نہ ہو۔ ہم تو ’’ظاہر پر ‘‘اور امریکہ کا جنگی ماضی دیکھ کر ، اسرائیل نوازی اورامریکہ کا استعماری کردار دیکھ کر ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔اس اعلان پر حماس اور مقا می فلسطینی مسلمان ، عرب ممالک، دیگر مسلم ممالک بلکہ اقوام متحدہ ، فرانس، جرمنی ،روس نے بھی رد عمل دیا ہے۔اِن سب بیانیوں کے بیچ میں جو سب سے ’’اہم ‘‘صدا بطور مسئلے کا حل گونجتی سُنائی دی وہ تھی ’’2 ریاستی فارمولا‘‘ یعنی ایک اسرائیل اور ایک فلسطینی ریاست بنا دی جائے۔

چوہوں کا طوفان:
دُنیا کے ترقی یافتہ شہر ٹورونٹو کو ایک ’’کامل چوہوں کے طوفان‘‘ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔یہ پڑھ کر آپ کو شاید کچھ عجیب لگا ہوگا ۔چوہے کا طوفان کیسا ہوتا ہے؟ یہ دعویٰ میں نہیں کررہا۔ یہ دعویٰ کینیڈا کے وارڈ 9 کی خاتون سٹی کونسلر Alejandra Bravo نے کیا ہے، جسے سارا کینیڈا ہی نہیں عالمی میڈیا لکھ رہا ہے ۔اس کے لیے آپ مہا کمبھ کی جان چھوڑیں اور گوگل پر Perfect Rat storm لکھیں ، یقین آجائیگا۔ اِس مہینے گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا لفظ ’’مہا کمبھ ‘‘تھا جو بھارت میں 144 سال بعد ہوتا ہے۔ یہ ایک ہندو مذہبی تہوار ہے۔یہ موضوع بھی سوشل میڈیاپر اہم رہا کیونکہ 60لوگ اب تک وہاں کی بھگدڑ میں مرچُکے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ میلہ 26 فروری تک جاری رہے گا اس لیے مارچ میں مہاکمبھ کے ذیلی موضوعات ڈسکس کریں گے۔ ابھی آپ ’چوہوں کا طوفان‘ دیکھ لیں۔

یہ31 جنوری 2025 واشنگٹن ٹائمز کی سُرخی پڑھیں ۔ یہ بتا رہی ہے کہ ’’ شہر چوہوں سے جنگ ہار گئے ہیں۔‘‘ چوہے صرف شہر کی گندگی کے نمائندے نہیں ہیں، بلکہ یہ صحت کے لیے سنگین خطرات کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جدیدیت نے سب سے زیادہ کچرا پیدا کرایا ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشرت ’’کنزیومراز م ‘‘پر کھڑی ہوتی ہے اور اس میں کچرا مستقل پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ پلاسٹک جیسی خوفناک تباہی بھی اسی جدیدیت کا ہی خطرناک تحفہ ہے ، جس کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔حکومتیں ڈنڈے کے زور پر بھی پلاسٹک تو دور کی بات پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کا استعمال بھی ختم نہیں کرپا رہیں۔ عالمی ابلاغی ادارے کی 2023 کی اہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ عرف عام میں ’بگ ایپل‘ کہلانے والے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر ’’نیو یارک‘‘کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں انسانوں کی مجموعی آبادی بھی تقریبا ً اتنی ہی ہے جتنی اس شہر میں چوہوں کی تعدادجو تقریباً نو ملین 90 لاکھ۔ بنتی ہے ۔ نیو یارک سمیت کئی امریکی شہروں میں یہ چوہے شہری انتظامیہ کا درد سر ہیں ۔مقامی بلدیہ کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود آج تک کامیاب نہیں ہو سکی۔نیو یارک جیسے جدید ترقی یافتہ ماڈل شہر میں چوہوں کو مارنے کا تربیتی مرکز کئی سال سے کام کر رہا ہے ۔ 2023 میں نیویارک کے میئر نے ایک خاتون کو ’’چوہے مارنے ‘‘کا ڈائریکٹر Rat Czarبھی مقرر کیا ، جس کی تنخوا ہ بھی ڈیڑھ لاکھ ڈالر رکھی گئی ۔یہ تنخواہ سُن کر حیران مت ہوں ،مسئلہ کو سمجھیں کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ بات یہاں تک پہنچ گئی۔ یہ ڈائریکٹر بھی سال بھر میں صرف 12فیصدچوہے کم کر سکی، کیونکہ چوہوں کی آبادی اس سےز یادہ تیزی سے بڑھی ہے۔

یہ تو تھا پس منظر ، اصل خبر یہ ہے کہ محققین کی تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گندگی کے ساتھ ساتھ عالمی درجہ حرارت بڑھنے یعنی گرمی سے بھی چوہوں کی افزائش تیز ہو رہی ہے ۔واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، ٹورنٹو، نیو یارک سٹی اور ایمسٹرڈیم میں ان چوہوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہواہے۔اس تحقیق کے مطابق، جس نے عالمی سطح پر 16 شہروں کے ڈیٹا کو دیکھا اور سائنس ایڈوانسز جریدے میں شائع کیا۔

صرف 10سال میں واشنگٹن ڈی سی میں390فیصد، سان فرانسسکو میں 300 فیصد، ٹورنٹو میں 186فیصد، نیویارک میں 162 فیصد چوہوں کا اضافہ ہوا۔ ان شہروں میں انسانوں کی پیدائش کی شرح اگر دیکھ لی جائے تو وہ ناقابل بیان حد تک کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ آبادی چوہوں کے برابر ہوچکی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ اِن نتائج کا اطلاق دنیا کے بہت سے ملتے جلتے شہروں پر ہوگا۔ ورجینیا کی یونیورسٹی آف رچمنڈ سے تعلق رکھنے والے سرکردہ محقق جوناتھن رچرڈسن نے کہا کہ “دوسری جگہوں پر اس کے مختلف ہونے کی توقع کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔”کینیڈین سٹی کونسلر براوو نے پریس کو بتایا، “یہ زندگی کے معیار کا ایک بہت اہم مسئلہ بن گیا ہے جب انسانوں کو ہرطرف چوہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” ایک قسم کا کامل چوہا طوفان”۔ چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی والے دوسرے شہروں میں اوکلینڈ، بفیلو، شکاگو، بوسٹن، کنساس سٹی اور سنسناٹی شامل ہیں۔ اس تحقیق میں امریکی شہروں کے ساتھ ساتھ ایمسٹرڈیم، ٹورنٹو اور ٹوکیو پر توجہ مرکوز کی گئی، کیونکہ ان سب نے چوہوں کو دیکھنے کے بارے میں ایک جیسا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ تحقیق میں چوہوں کی مجموعی آبادی کا اندازہ نہیں لگایا گیا، صرف وقت کے ساتھ رپورٹس میں نسبتاً اضافہ بتایا ہے۔

محققین نے مقالے میں لکھا کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے منسلک ہے۔ چھوٹے ممالیہ جانوروں کے طور پر، چوہے سردیوں میں جدوجہد کرتے ہیں، لیکن زیادہ درجہ حرارت میں وہ سال کے زیادہ عرصے تک افزائش نسل کر سکتے ہیں اور زیادہ دیر تک چارہ کھا سکتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ سرد موسم نے طویل عرصے تک “مدر نیچر کے پیسٹ کنٹرول” کے طور پر کام کیا تھا، لیکن موسم کو تو ہم نے خود ہی برباد کردیا ہے۔ ماہرین کے اس جملے میں مسئلے کے اصل حقیقت موجود ہے کہ قدرت خود ایسا انتظام کرتی تھی کہ ایسے جانور وں کی افزائش نہ ہو سکے مگر ہم نے قدرت سے جو چھیڑ چھاڑ شروع کی وہ آج ہمارے قابو سے باہر ہو چکی۔

چوہے، جنہیں اکثر ہم نظرانداز کر دیتے ہیں، دراصل مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق

1.چوہے ہر سال عمارتوں میں گھس کر اربوں ڈالر کا نقصان پہنچاتے ہیں۔

2.کم از کم 60 بیماریاں انسانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔

3.شہروں میں رہنے والی دوسری نسلوں کی ماحولیات کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔

4.حیاتیاتی تنوع کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

5.تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ اکثر چوہوں کا سامنا کرتے ہیں ان کی ذہنی صحت خراب ہوتی ہے۔

6.تحقیق کے مطابق، عالمی سطح پر، انسانیت کی “چوہوں کے خلاف جنگ” پر ہر سال ایک اندازے کے مطابق $500 ملین خرچ ہوتے ہیں۔

تیسری دنیا کے ممالک اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک بڑے صاف ستھرے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت اپنانے کی یہ ہولناک قیمت بھی ہوتی ہے۔ جب ہم نا م نہاد ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، تو کچرا بھی زیادہ بنتا ہے اور پھر چوہے بھی۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری ترقی کی قیمت کیا ہے؟ بار بار یہ توجہ دلانی پڑتی ہے کہ ’’دُنیا پر جوتباہی ، جو ماحولیاتی بحران حالیہ 300 سال میں مسلط ہوا ہیں وہ دُنیا کی تاریخ میں پہلے کہیں نہیں ملتا۔‘‘واشنگٹن، نیو یارک کی جدید ترقی یافتہ زندگی اور ٹیکنالوجی کی خوب بڑھ چڑھ کر تعریف کی جاتی ہیں مگر یہ حقیقت چھپالی جاتی ہے جیسے اس کے کوئی معنی نہیں ، جبکہ یہی اُن کو موت کے دروازے تک لے جاتی ہے۔

لِہٰذا، ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہر صاف ستھرے رہیں تو ہمیں اپنی گندگی کو کنٹرول بعد میں بلکہ کچرے کی افزائش اور کچرا پیدا کرنے کے عمل پر کنٹرول کرنا ہوگا۔یہ مستقل کنزیومر بننے کے مزاج سے پیدا ہو رہا ہے۔کراچی شہر میں پلاسٹک کی گندگی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔آنے والے دنوں میں ہم ایک ایسے ملک میں رہنے پر مجبور ہوں گے جہاں ہم اس سے زیادہ ہولناک صورتحال سے دوچار ہونگے جو مغربی ممالک کو ساری ٹیکنالوجی، سارے جدید انتظام ، ساری اچھی بلدیہ کے باوجود وہ سر پکڑے ہوئے ہیں ۔ ہماری غفلت اور جدیدیت کی دوڑ ہمیں ایک خطرناک صورتحال میں دھکیل رہی ہے، جیسا اس وقت وہ لوگ پریشان ہیں یہ نمبر باقیوں کا بھی آئیگا ۔ اس لیے کہ موسم تو سب کا گرم ہوا ہے۔ہمارے ملک میں تو لوگ نالوں، سیوریج، کچرا ہی نہیں آبادی سمیت کئی انتظامی مسائل بھی ہیں ۔

حصہ