آخر شب کے ہم سفر

57

(40)

سوامی آتم آنند شنکر پریمی
روم ایئر پورٹ پر ایک نوجوان سفید فام سوامی جی ترشول اور جھولا سنبھالے ساتھ ساتھ چلتے طیارے پر سوار ہوئے ،اور سیٹ پر مسز سین کے برابر بیٹھ گئے۔ ’’شِوا شِوا‘‘… انہوں نے لمبا سانس لے کر کہا، اور پھر مالا جپنے لگے۔ مسز سین نے تعجب سے ان کی سنجیدہ صورت کو دیکھا۔ ایسا نوعمر لڑکا اور مسکرانا نہیں جانتا!

مسز سین نے دوبارہ اس کی شکل پر نظر ڈالی۔ ذرا مانوس معلوم ہوئی۔ مسز سین کو اپنی طرف بغور دیکھتا پاکر سوامی جی نے جھولے سے اپنا تبلیغی لٹریچر نکال کر ذرا درشتی سے ان کی گود میں سرکا دیا۔

’’معاف کرنا بیٹے، تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’سوامی آتم آنند شنکر پریمی…‘‘ لڑکے نے نہایت متانت سے جواب دیا۔

’’نہیں بیٹے، اس سے پہلے کا نام‘‘۔

’’مجھے پہلے کا نام یاد نہیں۔ میں اپنی پہلی زندگی بھول چکا ہوں‘‘۔

’’او آئی سی‘‘۔ انہوں نے گورے چھوکرے کو نظر بھر کر دیکھا۔ یہ شکل کس کی تھی… کس کی تھی…! چارلس بارلو، آئی سی ایس، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ڈھاکہ… شاید اس کا بیٹا ہو۔ مسز سین خاموش رہیں۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے گھڑی دیکھی اور بولیں ’’ہم لوگ کتنی جلدی ایتھنز پہنچ جائیں گے، سائنس کی ترقی کمال ہے‘‘۔

’’سائنس…؟ پراچین کال میں دیمان اڑتے تھے، اور مہا بھارت کے زمانے میں ٹیلی ویژن ایجاد ہوگیا تھا۔ انگریز ہندوئوں کی قدیم کتابیں چرا کر لے گئے اور ان کی بنا پر اتنی ترقی کرلی۔ اب امریکن، روسی کہتے ہیں چاند پر پہنچ گئے۔ یہ جھوٹ ہے۔ چاند پر کوئی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ سوامی جی نے کہا۔

’’تم کہاں جارہے ہو؟‘‘

’’ایتھنز۔ وہاں آشرم قائم کروں گا۔ پھر انڈیا۔ ہردوار۔ لارڈ شِوا کا شہر‘‘۔

’’انڈیا جارہے ہو تو قحط زدگان میں کام کرو۔ آج کل وہاں خشک سالی ہے‘‘۔

’’قحط زدہ لوگوں کو چاہیے کہ رین گوڈ کی پوجا کریں، تاکہ وہ پانی برسائے۔ ہر ہر مہادیوا‘‘۔

’’تم کو چاہیے بیٹے کہ تم رام کرشنا مشن والوں کی طرح خدمتِ خلق کرو۔ ہندوستان میں بڑی غربت ہے‘‘۔

’’غریب لوگ ہمارے شنکر پریم فائونڈیشن کے قائم کیے ہوئے مندروں میں آکر پرسادم کھا سکتے ہیں‘‘۔ لڑکے نے جواب دیا۔

’’دیکھو بیٹے! میں بھی شکتی… مہاکالی کی پجارن ہوں، شاید شنکر بھگوان کی مرضی تھی کہ مجھے اس طرح ملو۔ اس لیے میری بات دھیان سے سنو۔ شاید میں تمہارے والد سے واقف ہوں۔ کیا تم انڈین سول سروس کے مسٹر چارلس بارلو کے لڑکے ہو؟‘‘

گورا سنیاسی چونک پڑا۔ پھر اس نے زیادہ مضبوطی سے آنکھیں میچ لیں۔ چہرہ سخت کرکے جواب دیا: ’’اوکے… چارلس بارلو۔ لیکن میرے لیے وہ ایک اجنبی نام ہے۔ میں اُن سے دس سال سے نہیں ملا۔ وہ میرے والد نہیں، دادا ہیں۔ میں اُن کے بڑے بیٹے ٹامس بارلو کا لڑکا ہوں‘‘۔

وقت اتنی تیزی سے گزر گیا؟ ڈھاکے کا جواں سال حاکم اعلیٰ چارلس بارلو، اور اس کی لیجنڈری طور پر حسین بیوی وائلیٹ بارلو کا پوتا اتنا بڑا ہے کہ سوامی بن چکا ہے!

’’بیٹے اگر تم…‘‘

’’شِوا…شِوا… میم! آپ پوچھنا چاہتی ہیں، آپ کو کیا دلچسپی ہے؟‘‘ سوامی شنکر پریمی نے درشتی سے کہا۔ ’’میرے گرینڈپا چارلس بارلو آسٹریلیا میں ہیں۔ ان کی بیوی یعنی میری دادی لندن میں جرمن بمباری کا نشانہ بن گئی تھیں۔ اب تک دوبارہ جنم لے کر بھی دوبارہ مرچکی ہوں گی۔ کیا معلوم میرے والد ٹام بارلو بھی مرچکے ہوں۔ میری پھوپھی کیرل بارلو شاید زندہ ہیں۔ مجھے پتا نہیں۔ میں اور میری بہن بچے تھے جب ڈیڈ اور ممی کی طلاق ہوگئی تھی۔ ممی ایک غیر اخلاقی زندگی گزارتی ہیں۔ انہوں نے ہماری کبھی پروا نہیں کی۔ گرینڈپا چارلس بارلو نے آسٹریلیا میں دوسری شادی کرلی تھی۔ ان کا ایک لڑکا ہے۔ میرا سوتیلا چچا رچرڈ۔ اس کا نام گرینڈپا نے اپنے مرحوم بھائی ونگ کمانڈر رچرڈ بارلو کے نام پر رکھا تھا جو سیکنڈ ورلڈ وار میں جرمنی پر بمباری کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ یہ رچرڈ سڈنی میں انٹیریئر ڈیکوریٹر ہے، اور آدھا GAY۔ میری بہن سوہو لندن میں ایک لزبین کلب چلاتی ہے۔ میری والدہ ایک رئیس زادی ہیں۔ ایک فرنچ جگ لو کے ساتھ سائوتھ آف فرانس میں رہتی ہیں‘‘۔

شکر ہے وہ تو نارمل ہیں۔ مسز سین نے دل میں کہا۔

’’مجھے اس دولت، عیش و عشرت، کامیابی، گناہ آلود دنیا سے، چوہوں کی دوڑ سے نفرت ہوگئی۔ سب مایا ہے۔ میں سنیاس لے چکا ہوں۔ ممی آپ کو کہاں ملیں؟‘‘

’’تمہاری ممی مجھے نہیں ملیں۔ میں پورٹ آف اسپین میں رہتی ہوں۔ میرے شوہر بیرسٹر ہیں۔ پچھلے سال وہ ایک سرکاری مقدمے کے سلسلے میں پرتھ گئے تھے۔ میں بھی ساتھ گئی تھی۔ بحیثیت انڈین سنگر ٹیلی ویژن پر انٹرویو لیا گیا تھا۔ تمہارے دادا نے وہ پروگرام دیکھا اور پتا لگاکر ہمارے ہوٹل ہم سے ملنے آئے۔ ہمیں اپنے شیپ اسٹیشن پر لے گئے۔ وہ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ مجھ سے مل کر بے حد خوش ہوئے جیسے میں ان کی مدتوں کی بچھڑی ہوئی رشتے دار ہوں۔ حالانکہ ہندوستان کی جنگ ِآزادی کے زمانے میں وہ مجھے اپنا خطرناک دشمن سمجھتے تھے۔ اب وہ اتنے اکیلے تھے، تنہا اور ضعیف۔ ہاں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ بنگال سے آسٹریلیا آکر انہوں نے ایک امریکن لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ اس سے طلاق ہوگئی۔ اس امریکن بیوی سے ان کا لڑکا سڈنی میں رہتا ہے مگر ان سے نہیں ملتا۔ مسٹر بارلو تم سب کو بہت یاد کرتے ہیں۔ صحت گر چکی ہے۔ تم لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تم سب ان سے ایک بار ہی مل آئو…؟ ان کا پتا لکھ لو…‘‘

لڑکا ردراکش کی مالا جپتا رہا۔ ’’ان کو اپنا کرما بھگتنا ہے‘‘۔ اس نے سردمہری سے کہا۔ ’’ایک سنیاسی کے لیے خون کے رشتے بے معنی ہیں‘‘۔

مسز سین نے جھنجھلا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا، اور ایتھنز تک اس سے بات نہیں کی۔ جب طیارے نے ایئرپورٹ پر اُترنے کے لیے نیچا ہونا شروع کیا، سوامی آتم آنند شنکر پریمی نے اچانک دیپالی سین کو مخاطب کیا: ’’میرا سوتیلا چچا رچرڈ بارلو جو سڈنی میں انٹیریئر ڈیکوریٹر ہے مجھے ابھی چند ہفتے قبل پیرس میں ملا تھا، کہہ رہا تھا کہ ایک نیا ہوٹل سجانے کے لیے اسے بنگلہ دیش بلایا گیا ہے۔ اگر اتفاق سے آپ کی وہاں اُس سے ملاقات ہو تو کہیے گا کہ میں اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ کے بعد ہردوار میں ہوں گا۔ یہ رشی کیش میں میرے آشرم کا پتا ہے‘‘۔ اس نے اپنا کارڈ سرکایا۔ ’’اس سے کہیے گا مجھ سے وہاں آن کر مل لے۔ میں اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا۔ وہ مایا جال میں بُری طرح پھنسا ہوا ہے اور آپ بھی کبھی رشی کیش آئیے۔ شِوا… شِوا‘‘۔

طیارے نے لینڈ کیا۔ سوامی جی مسافروں کی قطار میں کھڑے ہوگئے۔ ایئرپورٹ پر اُتر کر ہجوم میں ان کا جھنڈا اور ترشول کچھ دیر تک نظر آتا رہا۔

(41)
جلسہ گھر
ڈھاکہ ایئرپورٹ پر یاسمین مجید یادگار کمیٹی کے اراکین ہار پھول لیے منتظر تھے۔ شریمتی دیپالی سین بنگلہ دیش کی ایک قابلِ فخر بیٹی، مشہور مغنیہ، بنگلہ دیش کی دوسری قابلِ فخر بیٹی، نامور رقاصہ اور شاعرہ مرحومہ یاسمین بلمونٹ کی یاد میں منائے جانے والے تہذیبی جشن کے لیے اتنی دور جنوبی امریکا سے مدعو کی گئی تھی۔ مرنے کے بعد یاسمین بلمونٹ ’’عظیم شاعرہ‘‘ بھی قرار دے دی گئی تھی۔ واہ۔ جب وہ زندہ تھی پچیس برس پردیس کی فیکٹری میں مزدوری کرکے، فاقے کرکے، ریسٹورانوں میں برتن دھو کے، رشتے داروں اور ہم وطنوں کی گالیاں کھا کے، ایڑیاں رگڑ رگڑ کے، سرد بے رحم دریا میں ڈوب کر مر گئی۔ اب اس کے نام پر بین الاقوامی تہذیبی جشن منایا جارہا ہے، جس پر لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہوجائے گا۔ یاد گار کمیٹی نے مسز سین کو آمدورفت کا ایئر ٹکٹ پیش کیا تھا، جسے لینے سے انہوں نے انکار کیا۔ یہ ایک بڑا آسیبی سفر تھا۔ وہ اپنے سورگیہ پِتا ڈاکٹر بنوئے چندر سرکار اور سورگیہ پھوپھی شریمتی بھوتارنی دیبی کی راکھ ساتھ لائی تھیں کہ ان کی وصیت کے مطابق اسے ہردوار لے جاکر گنگا میں ڈال دیں۔ یہ شاید خود دیپالی سین کا وطن کا آخری وزٹ ہو۔ جلد شاید خود ان کا سفرِ آخرت کا بلاوا آجائے۔ سنسار میں کافی تو رہ لیں۔

’’آپ کے لیے انٹر کانٹی نینٹل میں انتظام کیا گیا ہے‘‘۔ استقبالیہ کمیٹی کے سیکرٹری نے کہا۔ ’’انڈیا سے آئے ہوئے فن کار بھی وہیں ٹھیرے ہیں، یا آپ کسی دوست کے ہاں قیام پسند کریں گی؟‘‘

اب ایک وردی پوش شوفر آگے بڑھا۔ ’’میم صاحب‘‘ وہ دانت نکوس کر بولا ’’نواب صاحب نے ارجمند منزل سے گاڑی بھجوائی ہے، خود تشریف نہیں لاسکے۔ آج صبح اخبار میں آپ کا نام دیکھا، حکم دیا ترنت تیج گائوں جاکر آپ کو لے آئوں۔ چلیے‘‘۔ دیپالی نے استقبالیہ کمیٹی سے معذرت چاہی۔ شوفر کے ساتھ تیز تیز چلتی باہر آئی۔ شوفر نے ایک سفید مرسیڈیز کا دروازہ کھولا۔

نواب صاحب بے چارے اب کتنے ضعیف ہوگئے ہوں گے۔ مدتوں سے اس خاندان کی خیر خبر معلوم نہیں۔ ڈھاکہ اور پورٹ آف اسپین میں بہت بڑا فاصلہ ہے جو محض ایئرلیٹرز کے ذریعے نہیں پاٹا جاسکتا۔ 1964ء میں وہ پچھلی مرتبہ یہاں آئی تھی۔ اگلے سال اکمل کے مرنے کی خبر معلوم کرکے بھی جہاں آراء کو خط لکھنے کی ہمت نہیں پڑی تھی۔ اب اتنے برسوں بعد ان سب سے ملنے کی خوشی اور اضطراب سے اس کا دل دھڑکنے لگا۔

مرسیڈیز ڈھاکہ کی سمت رواں تھی۔
’’سب لوگ کیسے ہیں؟‘‘ اس نے شوفر سے پوچھا۔

’’سب ٹھیک ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا اور انہماک سے کار چلاتا رہا۔ وہ لڑکا سا تھا۔ شاید ارجمند منزل میں نیانیا ملازم ہوا تھا، اس وجہ سے اسے اپنی اہمیت کا بہت احساس معلوم ہوتا تھا۔ اس کی گردن کے پچھلے حصے پر زخم کا گہرا نشان تھا۔

دیپالی نے آنکھیں بند کرلیں اور سوچتی رہی: جہاں آراء کا سامنا کس طرح کروں… اکمل کی تعزیت کن الفاظ میں کروں… اکمل کو مرے بھی اتنے برس گزر گئے۔ جہاں آراء اب اپنے پوتے کے سہارے ہی جی رہی ہوگی۔ ممکن ہے بہو نے دوسری شادی کرلی ہو۔ اس نے دل ہی دل میں تعزیت کے جملوں کی ریہرسل شروع کی۔ پھر دل کڑا کرکے آنکھیں کھولیں۔ چاروں طرف شہر تھا اور یادیں بندوق کی گولیوں کی طرح پوچھاڑ کررہی تھیں۔ یادیں LAND MINES کی طرح دفن تھیں۔

’’میم صاحب گانا سنیے گا…؟ بنگلہ دیش ریڈیو‘‘۔ ڈرائیور نے کہا۔ اور ریڈیو کا سوئچ آن کردیا۔ گنگا کی بھاٹا کا گیت… بھٹیالی ختم ہورہی تھی۔ اب نذرل گیتی شروع ہوئی۔ بدروہی… ’’کہہ دے اے جوان میں سربلند ہوں۔ اتنا بلند کہ ہمالیہ کی چوٹی بھی میرے آگے سرنگوں۔ کہہ دے اے بہادر کہ اس وسیع آسمان کو چیر کر چاند سورج ستاروں کو توڑ کر، جنت دوزخ دہلا کر، آسمان سے ٹکرا کر میں سارے عالم کے لیے مجسمۂ حیرت بن گیا ہوں‘‘۔ نوجوان ڈرائیور نے مڑ کر اطلاع دی: ’’میم صاحب ہم بھی بہت لڑا‘‘۔

گانا جاری رہا: میں سرکش، سنگ دل آتش نوا، قیامت کا دوست طوفان، تباہی، دہشت ہوں۔ دنیا کے لیے سراپا ہلاکت… میں ہر چیز کو چکنا چور کردیتا ہوں… اصول شکن، بربادی کا دیوتا۔

وہ بے اختیار خود بھی اس کے ساتھ گانے لگی، اور پل کی پل میں اپنے کالج کے زمانے میں واپس پہنچ گئی، جب وہ اور روزی بنرجی، محمود الحق اور جیوتی سب مل کر جوش و خروش سے یہ گیت گاتے تھے۔

اسے پتا بھی نہ چلا مرسیڈیز ارجمند منزل کی برساتی میں کب پہنچی۔

ایک پاگل سی عورت جھبڑے سفید بال بکھرائے برآمدے کے ایک در میں بُت بنی کھڑی تھی۔ دیپالی کو کار سے اُترتا دیکھ کر فوراً اندر بھاگ گئی۔

ایک ملازم نے آکر اسباب کار سے اُتارا۔ دیپالی اندر گئی۔ ارجمند منزل سنسان پڑی تھی۔ جہاں آراء … جہاں آراء… پکارتی وہ زنان خانے میں پہنچی۔ وسطی تالاب بھی خالی پڑا تھا۔ دیپالی اوپر جانے کے لیے منقش چوبی زینے کی طرف مڑی ہی تھی کہ وہ دیوانی عورت بھاگتی ہوئی اندر آئی اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر آ…آ…آ… کرنے لگی۔

’’مالا۔ میم صاحب کو تنگ مت کر…‘‘ ملازم نے، جو اسباب اٹھائے پیچھے پیچھے آرہا تھا، جھڑک کر کہا۔ پھر مہمان کو مخاطب کیا ’’میم صاحب… جب سے سب لوگ مارا گیا، مالا پاگل ہوگیا ہے، اور گونگا بھی ہوگیا ہے۔

سب جنے… میم صاحب، بڑے نواب صاحب، نیئر میاں، ان کا بی بی، بچے، جہاں آراء بی بی، ان کا بہو اور پوتا… سب مارا گیا۔ آدھی رات کے ٹائم سب بندوق کا نشانہ بنا یہیں کوٹھی کے اندر۔ مالاؔ نے سب کو مرتے دیکھا، جب سے یہ گونگا ہوگیا…‘‘ (جاری ہے)

حصہ