معروف شاعروادیب تابش مہدی بھی نہیں رہے

87

تمام عمر اندھیروں سے میری جنگ رہی
بجھا چراغ تو دل کو جلا لیا میں نے!!!

اس شعر کے خالق معروف شاعر و ادیب و محقق ڈاکٹر تابش مہدی 21 جنوری کی رات 9 بجے انتقال کر گئے۔ انہوں نے دہلی کے میکس ہاسپٹل میں آخری سانس لی۔ وہ دل اور گردے کے عارضے میں مبتلا تھے اور کافی وقت سے علیل تھے۔ ان عمر تقریباً 74 برس تھی۔ ڈاکٹر تابش مہدی کے لواحقین میں ان کی بیوہ کے علاوہ چھ بچے شامل ہیں۔ ان کی تجہیز و تکفین دہلی کے شاہین باغ قبرستان میں انجام دی گئی۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم
تابش مہدی 3 جولائی1951ء کو پرتاپ گڑھ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے1964ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ پرتاپ گڑھ سے جونیئر پرائمری اسکول کا امتحان پاس کیا، 1966ء و1967ء میں بالترتیب تجوید و قراء سبعہ انہوں نے مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد و مدرسہ تعلیم القرآن حسن پور، مرادآباد میں حاصل کی۔ 1970ء میں انہوں نے عربی و فارسی بورڈ الٰہ آباد سے مولوی (عربی)، 1978ء میں منشی (فارسی) اور1980ء میں کامل (فارسی) کا امتحان پاس کیا۔ نیز1981ء میں جامعہ دینیات دیوبند سے عالم دینیات (اردو)، 1977ء و1985ء میں بالترتیب جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ماہر و ادیب کامل (اردو) کا امتحان کا پاس کیا۔ اخیر میں1989ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) اور1997ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے اردو تنقید میں پی ایچ ڈی کی۔

ان کے اساتذۂ سخن میں شہباز امروہوی (تلمیذ افق کاظمی)، بلالی علی آبادی (تلمیذ شفیق جونپوری)، سروش مچھلی شہری (شاگرد آرزو لکھنوی)، ابو الوفاء عارف شاہ جہاں پوری (تلمیذ ریاض خیرآبادی) اور عامر عثمانی شامل ہیں۔ شیراز ہند جونپور سے ان کا قلبی اور ذہنی لگاؤ رہا۔ انہوں نے جونپور کے جامعۃ الشرق بڑی مسجد سے کچھ سال تعلیم حاصل کی تھی اور علامہ شفیق جونپوری ان استاد کے استاد تھے۔

علمی و ادبی اداروں سے وابستگی
تابش نے جون1991 ء سے3 جولائی 2009ء تک مرکزی مکتبۂ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ نیز وہ ابوالکلام آزاد انٹر کالج پرتاپ گڑھ و ادارہ ادب اسلامی ہند کے رکن اساسی، عالمی رابطہ ادب اسلامی (ہند) اور دار الدعوۃ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن دہلی کے رکن، ادبیات عالیہ اکادمی لکھنؤ کے چیئرمین، ادارۂ ادب اسلامی ہند کے سابق نائب صدر، سہ ماہی کاروان ادب لکھنؤ کے مشیر اعزازی و رکن ادارت ہیں۔

تدریسی و عملی زندگی
جولائی1971ء میں تابش مہدی نے ابوالکلام آزاد کالج پرتاپ گڑھ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا، جولائی 1973ء تک وہاں تدریسی فرائض انجام دیے پھر جنوری1974ء سے جون 1978ء تک دارالعلوم امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں اور جون 1986ء تا اپریل1990ء جامعۃ الفلاح عربک کالج بلریا گنج، اعظم گڑھ میں بہ حیثیت مدرس کام کیا۔

ڈاکٹر تابش مہدی کی تصنیفات
ان کی تصنیفات اور شعری مجموعوں میں نقش اول (1971ء)، لمعات حرم (1975ء)، سرود حجاز (1977ء)، تعبیر (1989ء)، سلسبیل (2000ء)، کنکر بولتے ہیں (2005ء)، صبح صادق (2008ء)، طوبیٰ (2012ء) غزل نامہ (2011ء)، مشکِ غزالاں (2014ء)، رحمت تمام (2018ء)، غزل خوانی نہیں جاتی (2020ء)، دانائے سبل (2023ء)، جماعت اسلامی حقیقت کے آئینے میں (1981ء)، تبلیغی نصاب – ایک مطالعہ (1983ء)، تبلیغی جماعت اپنے بانی کے ملفوظات کے آئینے میں (1985ء)، اردو تنقید کا سفر (1999ء)، نقد غزل (2005ء)، تنقید و ترسیل (2011ء)، میرا مطالعہ (1995ء)، شفیق جونپوری – ایک مطالعہ (2002ء)، عرفانِ شہباز (2014ء)، حالی شبلی اور اقبال (2017ء) شامل ہیں۔

ایک انٹرویو میں ڈاکٹر تابش مہدی نے کہا تھا کہ بھارت میں حمد و نعت کو ایک رسم کے طور پر دیکھا گیا ہے مگر پڑوسی ملک میں اس صنف کو کافی اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگر ادھر 30 سال سے اس صنف کو فروغ ملا ہے۔ پہلے کے شعراء کا کلام سامعین پسند کرتے تھے اور آج کل شعراء سامعین کی سطح پر آکر کلام پیش کرتے ہیں جو شاعری کے لیے مفید نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک سے بیرونِ ممالک تک مشاعروں کے سلسلے سے شرکت ہوئی ہے۔ اپنے ملک میں سامعین شعراء کو اپنی سطح پر لاکر کلام سننا چاہتے ہیں جب کہ بیرون ملک کے سامعین شاعر کے سطح پر ہی کلام سننا پسند کرتے ہیں، یہ فرق دیکھنے کو ملا ہے۔

ڈاکٹر تابش مہدی کا کہنا تھا جونپور ماضی میں علم و ادب تہذیب و ثقافت روحانیت کا مرکز رہا ہے مگر موجودہ وقت میں یہ کہا جا سکتا ہے جونپور کبھی بانجھ نہیں ہوا ہے۔ آج بھی کچھ ایسی شخصیت موجود ہیں جن پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ اردو کا مستقبل اس وجہ سے تابناک ہے کہ اردو کا دائرہ ہندوستان، پاکستان سے آگے بڑھ گیا ہے اور مسلسل بڑھتا رہے گا بس اردو زبان کو انہی لوگوں سے خطرہ ہے جو اردو کی روٹی کھاتے ہیں۔

تابش مہدی کے چند منتخب اشعار

اگر پھولوں کی خواہش ہے تو سن لو
کسی کی راہ میں کانٹے نہ رکھنا
جوانوں کو جو درس بزدلی دیں
کبھی ہونٹوں پہ وہ قصے نہ رکھنا
بہت بے رحم ہے تابشؔ یہ دنیا
تعلق اس سے تم گہرے نہ رکھنا
تکو گے راہ سہاروں کی تم میاں کب تک
قدم اٹھاؤ کہ تقدیر انتظار میں ہے

دیر تک مل کے روتے رہے راہ میں
ان سے بڑھتا ہوا فاصلہ اور میں

فرشتوں میں بھی جس کے تذکرے ہیں
وہ تیرے شہر میں رسوا بہت ہے

بس اتنی بات پر دنیا خفا ہے
کہ میں نے تجھ سے غداری نہیں کی

اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر تابش مہدی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ کئی دہائیوں پر محیط اپنی علمی و ادبی زندگی میں انہوں نے شاعری، تنقید و تحقیق کے شعبے میں کافی کام کیا۔ ان کے کام کے دائرہ نہ صرف شعر و ادب پر محیط رہا بلکہ وہ ملی، سماجی اور تدریسی شعبے میں بھی سرگرم عمل رہے اور انہوں نے اپنے پیچھے اپنے چاہنے والوں کا ایک بڑا حلقہ چھوڑا ہے۔ ان کے سانحہ ارتحال کو اردو ادب اور ملت کا بڑا خسارہ مانا جا رہا ہے۔

حصہ