بزمِ تقدیس ادب پاکستان کراچی نے احمد سعید خان کے دولت کدے واقع ناظم آباد میں ایک بہاریہ مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں رونق حیات، آصف رضا رضوی اور پروفیسر مرزا سلیم بیگ شامل تھے۔ راشد حسین راشد اور نور شمع نور مہمانانِ اعزازی تھے جب کہ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بزم تقدیس ادب کے تحت ماہانہ بنیادوں پر ادبی پروگرام آرگنائز کرتے ہیں، مشاعروں سے اردو زبان و ادب پروان چڑھتے ہیں، ہر زمانے میں شعرائے کرام اپنی تخلیقات سے عوام کو فیض یاب کرتے ہیں، شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے، شاعری کا غیر تحریر شدہ نصاب یہ ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ کراچی ایسا شہر ہے جہاں ہر زبان کے بولنے والے اپنی ثقافت کے علَم بردار ہیں۔ اردو اب عالمی زبان کے طور پر تسلیم کی جارہی ہے، یہ دنیا کی پانچویں یا چھٹی بڑی زبان کے طور پر سامنے آئی ہے، اس زبان کی خوبی ہے کہ یہ اپنے اندر دوسری زبانوں کے الفاظ جذب کرلیتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد وہ الفاظ اردو کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کراچی میں اس وقت جو شاعری ہورہی ہے وہ زمینی حقائق کی ترجمان ہے، ہمارے شعرا عوام کو حقائق سے آگاہ کررہے ہیں۔
پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے کہا کہ کراچی پورے پاکستان کا نمائندہ ادبی مرکز ہے۔ ہر زمانے میں شاعروں نے لوگوں میں بیداری پیدا کی، علم و آگہی کے چراغ روشن کیے۔ آج بھی شعرائے کرام کی بدولت ہم بہت سے مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں اور اپنے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔
راشد حسین راشد نے کہا کہ میں دیارِ غیر میں آباد ہوں لیکن جب بھی کراچی آتا ہوں تو کراچی کی ادبی فضا کا حصہ بن جاتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی میں بہترین شاعری ہورہی ہے، زندگی کے تمام عنوانات شاعری کا حصہ بن گئے ہیں۔ پاکستان کی سالمیت ہمارے لیے اوّلیت کا درجہ رکھتی ہے، آیئے آج یہ عہد کریں کہ ہم ایک صف میں کھڑے ہوکر پاکستان کی حفاظت کریں گے۔
نور شمع نور نے کہا کہ میں ایک عورت ہونے کے ناتے عورتوں کے مسائل نظم کررہی ہوں۔ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے ورنہ ہر معاشرہ عورت کو حقیر سمجھتا رہا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، ہر زمانے میں شاعرات نے شاعری کے ذریعے اپنے مسائل بیان کیے ہیں، آج کے معاشرے میں خواتین بھی زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ آج کے مشاعرے میں تمام شعرا نے بہت عمدہ کلام پیش کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنقیدی نشستوں کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، یہ سلسلہ بحال ہونا چاہیے، کیوں کہ تنقیدی نشستوں سے شاعری میں بہتری آتی ہے۔
آصف رضا رضوی نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ اردو شاعری کا چراغ روشن رہے، ہم اردو ادب کی ترقی کے لیے متحد ہوجائیں اور ایک جگہ بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کرلیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ معاشرے کے عروج و زوال میں شعرائے کرام کو اوّلیت حاصل ہے۔ شاعری ہماری ذہنی غذا ہے۔
فیاض علی فیاض نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ سامعین مشاعروں کی جان ہوتے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا نے کتب بینی کے شوق کو کم کردیا ہے، تاہم کتابیں پڑھنے والے موجود ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ کتب بینی کو پروان چڑھائیں۔
رونق حیات نے کہا کہ بزم تقدیس ادب کے کریڈٹ پر بہت سی شاندار تقریبات ہیں۔ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی تنظیم ہے جو ہر مہینے باقاعدگی سے مشاعرے کراتی ہے، اس نے کراچی کے ادبی منظرنامے کو چار چاند لگا دیے، اب کراچی شعر و سخن کا اہم مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومتی سطح پر شعرائے کرام کی مالی اعانت ہو اور ان کے لیے کوئی اسکیم بنائی جائے جس کے تحت شعرا کے مسائل حل ہوں۔
مشاعرے میں پروفیسر سحر انصاری، رونق حیات، راشد حسین راشد، نور شمع نور، آصف رضا رضوی، فیاض علی فیاض، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، سلیم فوز، صاحبزادہ عتیق الرحمٰن عتیق، فاروق اطہر سعیدی، شوکت کمال چیمہ ایڈووکیٹ، کرنل شاہد، احمد عمران اویسی، آسی سلطانی، عارف شیخ عارف، عامر شیخ، شفیع مومن، افضل شاہ، عبدالرئوف، ضیا حیدر زیدی، چاند علی چاند، خورشید احمد، زعیم قریشی، نعمت منتشاء اور زوہیب خان نے کلام نذرِ سامعین کیا۔